ماہِ نخشب، کی اصل سائینسی حقیقت۔۔ رفیع رضا
ماہِ نخشب، ایک ترکیب یا تلمیح ھے جو فارسی ادب کے بعد اردو ادب میں بھی استعمال ھوتی ھے جبکہ پاکستانی نام نہاد سکالر(مذھبی) اس ترکیب اور اس سے جڑے واقعاتِ تاریخ کو غلط طور پر عوام کے سامنے پیش کرتے ھیں۔ بلکل ایسے جیسے رسولوں اور بزرگان دین کے جھوٹے قصص پر مبنی بیسیوں کتابیں تھڑوں پر بکتی ھیں۔مگر واقعات کو بڑھا چڑھا کر جادوئی یا معجزاتی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔۔جس سے پڑھنے والے کے مذھبی ایمان کی تشفی تو ھوتی ہے مگر وہ جہالت کی جانب عقلی سفر کرنے لگتا ہے اسلئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ایسے واقعات کا منطقی و سائینسی جائزہ لیکر لوگوں کو ایمانی گمراھی سے بچایا جاوے۔۔
المقنّع جسے ۔۔۔ پردہ پوش نبی کے طور پر پیش کیا جاتا ھے۔جو کہ ایک نقاب اوڑھے رکھتا تھا۔یہ اسکا سائینسی شعبدہ تھا۔۔
پاکستانی اور مذھبی سوچ میں یہ بات راسخ کر دی گئی ھےکہ :
ترکستان کے ایک شہر جسے ترکی میں قرشی کہتے ہیں۔ وھاں کے ایک حکیم ابن عطا نے جو مُقنّع کے نام سے مشہور ہے اس کے نواح میں چاہِ نخشب سے ایک چاند موسوم بہ ماہِ نخشب بعض فِلزات مثلِ سیماب وغیرہ کی لاگ سے بنا کر نکالا تھا جو دو ماہ تک غروب نہیں ہوتا تھا اور چار فرسنگ تک اس کی روشنی پہنچتی تھی یہی چاند چاہِ نخشب ہی سے نکلتا اور اُسی میں غروب ہوا کرتا تھا”
جبکہ یہ سنای سنائی میں اضافہ کر کے آگے سنائی گئی جھوٹی داستان ھے۔۔
مَیں اس بارے سائینسی تفصیل سمجھتا ھوں
لیکن اس سے پہلے نام نہاد پاکستانی سکالر لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خان کا ذکر ضروری ھے۔موصوف کا جس محکمے سے تعلق تھا اُس نے پاکستان کے ھرشعبے میں اپنا بُوٹ داخل کیا ھُوا ھے اب ادب و سائینس میں بھی آ دھمکے ھیں۔اور ملکِ چین کی مستقبل کی اُن کوششوں کا خمیر اسلامی جادوگر سائینس دان حکیم ابن عطا سے اُٹھانے کی کوشش کر رھے ھیں کہ چین جس چاند کو مصنوعی طور پر چمکائے گا تاکہ روشنی میسر ھو ویسا کام پہلے اسلام میں ھوچکا ھے۔۔اور مزید سنے سنائے اضافی قصہ کو بیان کرتے کہتے ھیں۔
ترکستان کے ایک شہر نخشب میں ایک ایرانی جادوگر حِکم بن ہاشم نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ یہ عباسی خلفا کا اولین دور تھا۔ آخر اموی خلیفہ کو ابو مسلم خراسانی نے شکست دے کر ہلاک کر دیا تھا اور اس کی جگہ سّفاح کے بیٹے ابو العباس کو تخت نشین کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ یہ واقعہ نویں صدی عیسوی کے لگ بھگ کا ہے۔
ابو مسلم خراسانی نے اگرچہ عباسی خلفا کو مسندِ اقتدار پر بٹھانے کا کارنامہ انجام دیا تھا لیکن بعد میں خلیفہ ء بغداد سے ابو مسلم کی اَن بَن ہو گئی اور اس کو گرفتار کرکے قتل کر دیا گیا۔ ایرانیوں نے اس کا بُرا منایا۔ جن ایرانیوں نے خلیفہ ء وقت کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کیا تھا، ان میں یہ حِکم بن ہاشم بھی تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ علمِ کیمیا کا بھی زبردست ماہر تھا اور اس نے اس زمانے میں کئی انوکھی چیزیں ایجاد کی تھیں جن میں ایک ماہِ نخشب بھی تھا جو چاہِ نخشب سے نکل کر اردگرد کے 200 میل علاقے کو چاند کی سی دودھیا چاندنی میں نہلا دیتا تھا۔ ایک عرصے تک یہ چاند نخشب نامی گاؤں کے کنویں سے نکلتا اور وہیں ڈوبتا رہا اور حِکم (Hikam) کے جادوگر ہونے کی منادی کرنے میں پیش پیش رہا۔ چونکہ حکم،بن ہاشم جس کو مقنّع بھی کہا جاتا ہے ابو مسلم کا پیروکار بلکہ پرستار تھا اس لئے خلیفہء بغداد نے اسے بھی ہلاک کروا دیا۔ اس کی ہلاکت جس مہم کے دوران ہوئی وہ ایک طویل محاصراتی مہم تھی جس میں حکم بن ہاشم کے ہزاروں چاہنے والوں نے ترکستان کے مشکل اور ناقابلِ عبور کوہستانی علاقوں میں ڈٹ کر خلیفہء بغداد کی افواج کا مقابلہ کیا لیکن بالآخر شکست کھائی۔
یہ مصنوعی چاند کا واقعہ اس لئے بھی عجیب و غریب تھا کہ ایران کے زرتشتی مذہب کے ماننے والے آتش پرستوں نے کہ جو عربوں کی فتحِ ایران کے بعد مسلمان ہو گئے تھے اپنی بعض سابق مذہبی رسوم و روایات کو یکسر فراموش نہیں کیا تھا۔ ایران میں آج بھی تیل کے کنوؤں کی فراوانی ہے اور سینکڑوں برس پہلے اُس دور میں بھی تھی جب لوگ اِس حیرت انگیز دریافت اور اس کی قدر و قیمت سے بے خبر تھے۔ لیکن ایران کے آتشکدوں کے ساتھ جو داستانیں وابستہ رہیں ان میں اس تیل نے بڑا رول ادا کیا۔ مثلاً آپ اندازہ لگائیں کہ 20ویں صدی کے نصف اول تک دنیا میں کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ ’’مصنوعی چاند‘‘ کی بھی کوئی حقیقت ہے یا نہیں اور حِکم کہ جس کو ’’سازندہء ماہ‘‘ (Moon Maker) بھی کہا جاتا تھا وہ کوئی فسانہ تھا یا حقیقت تھی۔
اس دور میں میری طرح کے اور کئی طلباء بھی تاریخِ ایران سے دلچسپی رکھتے تھے،لیکن ان میں سے کوئی بھی اس مصنوعی چاند کی حقیقت پر قطعاً کوئی یقین نہیں رکھتا تھا۔ ہم حیران ہوتے تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کنویں سے چاند کی طرح کا ایک گول قرص برآمد ہو، ساری رات میلوں تک روشنی پھیلائے اور پھر ایک وقتِ مقررہ پر اسی کنویں میں جا کر غروب ہو جائے۔۔۔ ہماری نظر میں یہ ایک شعبدہ تھا۔لیکن آج اس ایرانی افسانے کی صداقت پر کسی کو کوئی شبہ نہیں رہا اور بیشتر قارئین بھی ذیل کی سطور پڑھ کر یہی سوچیں گے کہ چاہِ نخشب سے جو ماہِ نخشب طلوع ہوتا تھا وہ شعبدہ یا جادو نہیں تھا، ایک تکنیکی حقیقت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موصوف ریٹائرڈ جنرل صاحب نے حقیقت اور فسانے کو مِلا جُلا ایسے پیش کیا ھے کہ قاری یہ یقین کرنے لگے کہ ماضی میں اس جادوگر مسلمان سائینسدان کا چاند کئی مہینے طلوع ھوتا رھتا تھا۔۔۔ جبکہ ایسی کوئی بات نہ کہیں بیان ھے نہ ممکن ھے۔۔ البتہ اسکی سائینسی تحقیق سے جو معلومات سائینس کو پہنچی ھین وہ یہ ھیں کہ انعکاس کے فریب سے وُہ چاند کو اس سمت بھی دکھاتا جدھر وہ نہیں ھوتا تھا وہ یہ معجزہ یا جادو یا شعبدہ کیسے انجام دیتا تھا یہ مندرجہ ذیل تصویر سے بیان کرتا ھُوں
،،،
عباس علی ارستم موف لکھتا ھے
This conclusion is based ہن information of Qazvini about found at the bottom of the well basin with mercury, the information Ibn Khallikan on the unusual brightness of the false moon and analysis of all information of the historical and poetic sources about Muqanna.
پہلے پہل اسلامی مورخ اسکے نام کو اسلامی طور پر استعمال کرنے سے گریزاں تھے۔۔۔لیکن بعد کے اور آج کے پڑھے لکھے سکالرز کے نزدیک المقنّع کا مصنوعی چاند دکھانا سائینس کی جانب ایک قدم تھا۔۔اور اس جانب مزید سائینسی تحقیقات کی ضرورت پر زور دیتے ھیں۔
سب سے پہلے نظامی گنجوی نے گیارھوں صدی میں ماہِ نخشب کا خوشرو، شیرین، اور سیمابی آئینے کے ذکر سے ابتدا کی۔اور کہا کہ یہ چاند نہیں بلکہ عکس ھے۔۔
القزوینی نے بارھویں صدی میں ایک کہانی میں اس متذکرہ چاند کا مزید ذکر کیا۔
وہ لکھتا ھے کہ عام لوگ اسے جادو یا معجزہ سمجھتے ھیں۔لیکن یہ صرف ریآضی، جیومیٹری اور چاند کی روشنی کا عکس تھا جس نے انکو فریب میں مبتلا رکھا۔۔انہیں ایک بڑی کنویں کی تہہ سے پگھلی چاندی یا سیماب (پارہ) کا بھرا طشت مِلا۔۔جسکی مدد سے وہ چاند کی کرنوں کو منعکس کر کے چاند طلوع ھوتا دکھاتا تھا۔۔
لیکن آج ھم سمجھ سکتے ھیں کہ القزوینی کا یہ بیان ادھورا ھے دیکھنے والے اتنے بھی احمق نہیں تھے انسانی شعور پانی میں اپنے عکس یا چیزوں کے عکس سے واقف ھی تھا۔۔۔
جدید سکالرز نے اس عجوبے کو بیان کرنے کے لئے جو کوششیں کیں ان میں رچرڈ نیلس فرائی نے انیس سو ستر میں یہ بتایا کہ اصل میں ایک گہرے بڑے کنویں میں المقنع نے ایک ٹیلی سکوپ بنائی تھی۔۔ جو کہ سیمابی مائع کی مدد سے چاند کا عکس دور دکھاتی تھی۔۔۔
نیوٹن نے اندازہ لگایا کہ گھومتے ھوئے مائع کے کُھلے دھانے کو اسکی پیرابولا شکل کی وجہ سے ایک دوربین کی طرح استعمال کیا جا سکتا ھے۔
1872 میں ھنری سکیی نے نیوزی لینڈ میں ایک قابل عمل مائع آئینہ کی مدد سے ٹیلی سکوپ بنا لی۔جسے ایل ایم ٹی کہا جاتا ھے۔
لیکن رابرٹ ووڈ نے مشہور ترین دوربین بنائی جو بہترین تھی۔۔اسکی خوبی یہ تھی کہ رابرٹ نے ایک کنواں ھی اپنی دوربین کے لئے استعمال کیا کیونکہ کنواں اس میکنزم کو جھٹکوں اور ھوا کے جھونکوں سے بچانے میں مددگار تھا۔۔
1986 میں اولسن سٹیل نے ذکر کیا کہ رابٹ ووڈ کی ٹیلی سکوپ عین المقّنع کی دوربین جیسی ھے۔
جسکا ڈیزائین ایک بڑے طشت کی مانند ھے جس میں مائع مرکری ھے اور جسے کوزہ گری کے طریقے پر مسلسل گھمائے جانے کا انتظام کیا گیا ھے
اور اس میں ایک مناسب انرشیل حرکت کی تبدیلی سے عکس کو بڑا ترین کر کے پیرا بولا ھونے کے طریق پر دیکھنے والوں کو مسحور کیا جا سکتا ھے۔
روشنی کی ان شعاؤں کا پھیلاو یقینی ھے۔اور اس سے بننے والے عکس کو دیکھنے والے اسے جادو ھی سمجھیں گے۔۔
المقنع ۔۔۔۔ شروع سے ھی سائینسی کتب پڑھتا رھا تھا۔۔اسکے بارے میں مشہور تھا کہ وہ دور دراز کی سائینسی کتابیں پڑھتا رھا ھے۔قدیم یونان سے ھاتھ لگے بہت سے سائینسی مخطوطے اس تک پہنچے تھے۔۔۔
206 قبل عیسوی کے چینی بادشاہ بھی کنویں میں ایسے ھی مائعاتی شعبدوں سے دریا و سمندر دکھاتے تھے۔۔۔ان شعبدوں میں مائع کے طور پر مرکری یعنی پارے کا استعمال ھی ھوتا تھا۔۔۔
تصویر میں آپکو اصل عکس اور مصنوعی عکس کی سمجھ آجانی چاھئیے۔۔
یاد رکھیں چین کا حالیہ چاند کا منصوبہ ھرگز ۔۔۔اس ایرانی سائینسدان سے مستعار منصوبہ نہیں۔۔۔وہ مصنوعی عکس تھا۔۔۔ یہ خلا میں آئینے لگا کر عکس کی بجائے روشنی لانے اور استعمال کرنے کا منصوبہ ہے ۔۔۔اور یہ خیال سیٹلائٹس کی مدد سے آیا ھے۔۔
چین کا ارادہ روشنی کا فائدہ عوام کے لئے لینے کا ھے جبکہ المقنع نے اپنی تکنیک سے نبی ھونے کا دعوی کیا اور اسی طرح کے اور شعبدے دکھا کر وہ لوگوں کو مرعوب کر کے اپنے ساتھ ملا لیتا تھا۔۔جو سائینس کا منفی استعمال تھا۔۔
پس پاکستان کے نام نہاد سکالرز ریٹائیرڈ کرنل جنرل اور پانی سے کار چلانے کے دعوے کرنے والے سائینسدان اور جنّوں سے انرجی بنانے کے دعوے والے عوام پر رحم کریں۔اور سائینسی حقیقتوں کو جادو ٹونے سے مت مِلائیں۔تصویر سے عکسی فریب کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
شکریہ
رفیع رضا