اعلی ذوق، فحاشی، گندی تصویر یا قدرتی حسن

اعلیٰ ذوق، ادنیٰ ذوق


"یہ کیا واہیاتی اور فحش پن ہے؟ میرا سوال یہ ہے کہ آخر اس گندی تصویر کی وجہ ہی کیا ہے؟ کیا آپ کو شرم نہیں آتی کہ ایسے اخلاق باختہ اور عریاں مناظر دیکھتے ہیں؟ آخر آپ کس وضع کے انسان ہیں؟” یہ اور اس جیسے بہت سے چبھتے ہوئے سوال متوقع ہیں۔

لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا سچ میں یہ تجسیم اخلاق باختہ اور فحش ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ مجسمہ "عصمت” یا "حیاء” سے موسوم ہے۔ اس کا ایک اور نام "چھپا ہوا سچ” بھی ہے۔ اسے سین سیورو کے اطالوی شہزادے، ریمونڈو ڈی سینگرو نے اپنی مرحوم ماں سسیلیا، جنہیں وہ بےنظیر ماں کہا کرتے تھے، کی یادگار کے طور پر بنوایا تھا۔

اس مجسمے کو اٹلی کے شہر نیپلز کے چیپل آف سین سیورو میں نصب کیا گیا ہے۔ شہزادے کی ماں کا انتقال اس وقت ہو گیا تھا جب وہ ایک نوجوان خاتون تھیں اور شہزادہ ابھی بہت چھوٹا تھا۔ دلچسپ سوال یہ ہے کہ اس طرح کا مجسمہ قبرستان کی ایک ایسی عبادت گاہ میں کیوں لگایا جائے گا جہاں مسیحی اپنے مردے دفناتے ہیں اور ان کی بخشش کے لیے عبادت کرتے ہیں؟ پھر ایک شہزادہ کیوں یہ چاہے گا کہ اس کی مرحوم ماں کا جوان جسم نمائش کے لیے لگایا جائے تاکہ فوت شدگان کی آخری رسومات کو آئے لوگ اس مجسمے کی زیارت کر سکیں؟

سنگ مرمر کا بنا ہوا یہ مجسمہ چلنے کی حالت میں ہے، جس کا وزن دوسرے پاؤں سے پہلے سے زیادہ ہے۔ اس طرز قیام سے اس کو انسانی وصف اور حرکت کا تاثر ملتا ہے گویا وہ حرکت میں ہے۔ اس کی نفیس چادر، جو بذات خود سنگ مرمر کی بنی ہے، جس طرح سے اس کے جسم پر پڑی ہے وہ بھی اس کے حرکت میں ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کی توجہ ناظرین سے پرے ہے، اور شفاف پردے نے اس کی آنکھیں ڈھکی ہوئی ہیں۔

اس کا انداز مدعو کرنے والا ہے۔ تاہم، اس کا چہرہ ایک الگ کہانی کہہ رہا ہے۔ اس کے پستانوں کو زیادہ ابھارنے کے لیے پردے کا استعمال ہنرمندی کا اعلیٰ ثبوت ہے۔ اس کے پیٹ کے وسطی حصہ میں پڑنے والے کومل گڑھے اس کے پٹھوں کے تناؤ اور جسم کے آہنگ کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے زیر ناف حصے کو گہنا دیا گیا ہے تاکہ یہ بالواسطہ جنسی تحرک کا مؤجب نا ہو۔ اس کا ملائم جسم تقریبا سیال ہے جیسے اس میں ہڈیاں نا ہوں اور وہ ایک ہموار اور کامل انسان ہو۔ ان مثالی خصوصیات سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا کی نہیں بلکہ ایک الوہی عورت ہے۔

یہاں، فنکار، انٹونیو کوراڈینی، جو کہ مقدس رومی شہنشاہ چارلس پنجم کے شاہی مجسمہ ساز تھے، عورت کے جسم پر فطری خوبصورتی سے رکھے ہوئے پردے کی تشکیل میں ایک کمال حاصل کرتے ہیں۔ اس مجسمے کا واحد مقصد سیسیلیا کی یاد منانا نہیں ہے بلکہ پردہ دار عورت کو حکمت کا محور سمجھا جاسکتا ہےنیز پردہ کی شبیہ سچ کی بہت عمدہ وضاحت کرتی ہے۔

اگرچہ اس عورت کا پردہ اس کی چھاتیوں، پیٹ اور چہرے سے قریب تقریباً شفاف ہے،تاہم اسرار اور انکشاف دونوں کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔ پردہ غیر منقول ہے، جو کامل وضاحت کو ناقابل حصول بنا دیتا ہے۔ ناقابلِ رسائی ہونا سب کچھ دیکھنے کی آرزو پیدا کرتا ہے، پردہ پکڑنے کی خواہش، اسے ہٹا کے نیچے دیکھنےکی جستجو، کہ نیچے کیا ہے۔

اس کا جسم آنکھوں میں کھینچتا ہے، اور اس کی پرکشش ہئیت کا بہت تھوڑا سا حصہ چھپا بھی رہتا ہے کیونکہ پردہ ابھی بھی اس کو ڈھانپ دیتا ہے، جس سے رومانویت اور رواداری کے درمیان توازن پیدا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب دیکھنے والا عورت کے بارے میں عمیق مشاہدہ کرتا ہے تو بھی، وہ ایک طرف دیکھتی رہتی ہے، جیسا کہ حتمی فیصلہ کر چکی ہو کہ ناظرین کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ اصل میں کون ہے۔

اس مجسمے کے حوالے سے سچائی کا تصور انتہائی دلچسپ ہے۔ سچ کی نزاکت کا ایک عنصر خود پردے کی بھی پیچیدہ تفصیل میں دکھایا گیا ہے۔ پردہ کی لطافت، سچائی کی نزاکت کو بتاتی ہے کہ سچ کتنا شفاف ہوتا ہے اور اتنی ہی آسانی سے پراگندہ ہوسکتا ہے۔ اس فن پارے نے سچائی کی نوعیت کے بارے میں اہم سوالات اٹھائے ہیں، کیا آفاقی سچ کبھی واقعی واضح بھی ہوتا ہے یا پھر یہ ہمیشہ مہین سے پردے میں ملفوف رہتا ہے۔ بادی النظر میں یہ عورت سچائی کا ایک نمونہ ہے، سچائی جو ایک پرکشش ساتھی ہے، جو نظر سے قریب بھی ہے لیکن کبھی بھی پوری طرح سے بے نقاب نہیں ہوتی۔

اسی حوالے سے ایک مزید پہلو آفاقی سچائیوں کی کشش کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سچ ہمیشہ پرکشش ہوتا ہےمگر اس تک رسائی بلاواسطہ نہیں ہوتی۔ سچائی کبھی بھی اپنا آپ آسانی سے آشکار نہیں کرتی بلکہ اس کے لیے جدوجہد بنیادی شرط ہے۔ اس خوبصورت عورت کا دیکھنے والے سے براہ راست نظریں نا ملانا ایک انتہائی گہرے پیغام کا حامل ہے کہ کامل حقیقت قریب قریب ناقابل دریافت ہے۔ اس کے کھڑے کھڑے سر پستان حق کی کشش کو واضح کرتے ہیں کہ حق سب سے زیادہ پرکشش ہوتا ہے مگر اسی رعایت سے اس تک رسائی بھی آسان نہیں ہوتی۔

اس مجسمے کے ممالیاتی غدود ایک اور پہلو بھی اجاگر کرتے ہیں جو کہ جسم کا فحاشی سے تعلق ہے۔ جیسا کہ مذکور ہے کہ یہ مجسمہ ایک ماں کی یادگار کے طور پر ایک عبادت گاہ میں لگایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ مسیحیوں میں بتوں کی پوجا نہیں ہوتی چنانچہ یہ مجسمہ مسیحی قبرستان کی ایک عبادت گاہ میں حصول برکت کے لیے رکھا گیا ہے۔ اس مجسمے کی مدد سے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ جنسی اعضاء فحاشی کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ جسم تو جمالیاتی پہلووں کو اجاگر کرتا ہے نیز جنسی اعضاء کا تعلق افزائش اور خوشحالی سے ہے۔

اچنبھے کی بات ہے کہ ماں جیسی پاکیزہ ترین ہستی کے جنسی اعضا کو چھپانے کی کوشش نہیں کی گئی؟ کیا ایک لمحے کے لیے بھی تصور کیا جا سکتا کہ ایسے سنجیدہ موقع پر جہاں فن کار کی ساری کاوش ستائش و فہمائش کی بجائے آرائش و زیبائش میں سمٹ آئی ہو، وہاں اسے جنسی لذت کا خیال کیسے آ سکتا ہے؟ اور خصوصاً جب کہ وہ اپنے جذبوں کا اظہار نہ کر رہا ہو بلکہ ولی عہد نے ایک اہم فرض اس کے سپرد کیا ہو۔ ایسے مقام پر صرف ایسے لوگوں کا ذہن جنس آلود ہو سکتا ہے جو جمالیاتی احساس سے عاری اور چھچھورے پن کا شکار ہوں۔

برہنہ جسم دیکھنے اور دکھانے کے لیے بڑی فنکارانہ قوت، سنجیدگی اور گہرے اخلاقی و روحانی احساس کی ضرورت ہے۔ جسم اور بالخصوص جنسی اعضاء کو پاک سمجھنا غالباً سب سے مشکل مسئلہ ہے جو انسانی ضمیر کے سامنے آ سکتا ہے۔ جسم کو روح کے برابر پاکیزہ اور لطیف محسوس کرنا ایک ایسا مقام ہے جو فرد اور قوم دونوں کو تہذیب کی انتہائی بلندی پر ہی پہنچ کر حاصل ہوتا ہے۔

مجسمہ ساز نے یہاں بجائے غیر ضروری تقدس پیدا کرنے کے ایک بےساختگی دی ہے۔ وہی بےساختگی اور شگفتگی جو طمانیت کا اعادہ کرتی ہے۔ حالانکہ مجسمہ حرکت نہیں کرتا مگر سکون کا تحرک ضرور پیدا کرتا ہے اور یہ سکون اور ہم آہنگی ہی انسانی ترقی کا استعارہ ہے۔

یہاں پریشان کن بات لذت کا تصور اور گندگی ہے۔ جنس اور جنسی اعضاء ہمیشہ لذت سے جڑے رہے ہیں اور رہبانیت پسند معاشروں میں دنیاوی لذت کی اکثر چیزیں بالعموم ناپسندیدہ ہی گردانی جاتیں ہیں چنانچہ جنس بھی امر ممنوعہ سمجھی جاتی ہے۔ حالانکہ سچائی اور حکمت کا جس طرح کامل اظہار اس فن پارے نے کیا ہے وہ شاید ایک ہزار وعظ بھی نا کر پائیں تب بھی اکثریت کے نزدیک یہ مجسمہ فحاشی و گندگی کا غماز ہو سکتا ہے۔

ایک فرد کی حیثیت سے ، وہ عورت اپنے واہموں کا شکار ہوسکتی ہے، اس کی نظر اس کی انتہائی شائستگی کی وجہ سے پرے ہے، جو دور خلا میں سچائی کی تلاش کر رہی ہے، لیکن اس تلاش حق کے باوجود وہ اپنا پردہ نہیں جھٹکتی مبادا وہ خود پہ ایک نظر ہی ڈال سکے۔ اس نے نہ صرف ایک تجریدی معنی میں سچائی کی نوعیت پر سوال اٹھایا بلکہ ہمیں مناہی اور خوف سے نجات دیتے ہوئے یہ جاننے کے لئے اکسایا ہے کہ ہم واقعی میں کون ہیں؟

خیر، آپ غیر ضروری طوالت کو معاف رکھتے ہوئے پہلے پیرے پر غور کریں۔ اگر اس مجسمے کو دیکھتے ہی آپ کے ذہن میں بھی یہی تشکیک پیدا ہوئی تو مبارک ہو، آپ نے اعلیٰ ذوق کی طرف سفر کا آغاز کر دیا ہے۔

This image has an empty alt attribute; its file name is iiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiii-578x600.jpg

اصحاب الشمال

چند دن پہلے اسرائیلی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اٹارنی جنرل آف اسرائیل کو ہدایت کی ہے کہ وہ بیت شمیس شہر میں ان اشتہاروں اور بینرز کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لئے مداخلت کریں جن پہ خواتین کو "مکمل کپڑے پہننے” کی ہدایت کی گئی ہے۔ ان میں سے کچھ بورڈز خواتین کو کپڑے پہننے کا طریقہ بتاتے ہیں، جس میں انھیں پورے بازو اور لمبی قمیص پہننے کی تلقین ہے اور چست لباس پہننے سے منع کیا گیا ہے۔ جبکہ دیگر اشتہارات میں خواتین کو نصیحت ہے کہ وہ عبادت خانوں اور کام کی ایسی جگہوں کے قریب، فٹ پاتھ کا استعمال محدود کریں، جہاں مرد ہوتے ہیں۔

یہ تیزی سے پروان چڑھتی انتہا پسندی کی کہانی ہے۔ مقامی حکام کی بے حسی اور سیاسی قیادت کی مجرمانہ خاموشی نے اسے مہمیز دی ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کے ہیرو کچھ جرآت مند سماجی کارکن ہیں جو اس دباؤ کو روکنے کے لئے وقف ہیں، اور جن کی کوششوں سے کچھ ہی دن قبل یہ فقید المثال فیصلہ آیا ہے۔ یہ کسی کی بھی زندگی کا ایک حیرت انگیز اور متاثر کن تجربہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ شروع سے آسان نہیں رہا۔

اسرائیلی درالحکومت یروشلم سے مغرب میں ۳۰ منٹ کی مسافت پر واقع شہر بیت شمیس کے ضلعی مجسٹریٹ کی عدالت نے جنوری 2015 میں بلدیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ایسے بینرز کو بروقت ہٹانے میں اپنی لاپرواہی پر شہر کی خواتین کو ہرجانہ ادا کرے۔ 2017 میں ہائیکورٹ آف جسٹس نے حتمی فیصلہ جاری کرتے ہوئے شہر کے میئر کو حکم دیا تھا کہ وہ شہر میں جگہ جگہ لگے ہوئے تمام "جارحانہ” ناشائستہ تجاویز والے بورڈز کو ختم کریں۔

ایسا اس وجہ سے ہوا ہے کہ اسرائیل کی ماتحت و اعلیٰ عدلیہ کے مطابق کسی بھی شخص کو کوئی خاص لباس پہننے یا کسی مخصوص طریقہ لباس کو اپنانے پر مائل کرنے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرنا بنیادی انسانی حقوق کی آئینی ضمانتوں کی خلاف ورزی ہے۔

اس کے علاوہ یہ شخصی آزادی کی خلاف ورزی کا بھی ارتکاب ہے جس پر عدالت نے شہری انتظامیہ کو ہرجانے کی سزا بھی دی ہے۔جج عوری شوہام نے کہا، "خواتین کو یہ بتانا کہ کس طرح کا لباس پہننا ہے اور کسی عوامی مقام پر کہاں جانا ہے، کسی شخص کے وقار اور آزادی کے بنیادی حق کے محافظ قانون کے خلاف ہے۔” ہائیکورٹ آف جسٹس کے ججوں نے شہر کے میئر کو ان علامتوں کو دور کرنے یا جیل کا سامنا کرنے کے لئے دو ہفتے کا وقت دیا جس پر ااسرائیل کی پارلیمانی کمیٹی برائے حقوقِ نسواں اور صنفی مساوات کو یہ دیکھنے کے لیے میدان میں آنا پڑا کہ آیا میئر نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔

"مکمل کپڑے پہننے” کے اعلان کرنے والے بینرز شہر کے آس پاس منظر عام پہ آنا شروع ہو گئے۔ انتہائی دائیں بازو کی ذہنیت کے ذریعہ خواتین کو آزادانہ گھومنے پھرنے پر ہراساں کیا گیا۔ ایسی لڑکیوں کو "فاحشہ” کہا جانے لگا۔ کچھ مواقع پر تو مردوں نے ایسی سوچ کی علمبردار خواتین پر پتھراؤ بھی کیا۔ بالآخر خواتین نے قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے ان بینرز کے خلاف عدالت میں کیس کر دیا۔

مذہب کے نام پہ قائم اسرائیلی ریاست مین حالانکہ صنفی مساوات کئی مغربی ممالک سے بھی بہتر ہے مگر پھر بھی قدامت پرستوں کی جانب سے خواتین کی سماجی حیثیت اور معاشرتی ظہور مسلسل سکڑ رہا ہے۔ تقریبا تمام مذہبی عناصر کے رجحانات کی عکاسی کرتے ہوئے جانے پہچانے اقدامات کے ذریعے انہوں نے خواتین کی عوامی سپیس کو بتدریج محدود کیا ہے۔ روایت پرست اخبار خواتین کی تصاویر چھاپنے سے ہچکچاتے ہیں۔ حتیٰ کہ انجیلا میرکل اور ہلیری کلنٹن جیسی عالمی شہرت یافتہ خواتین کی تصویریں تک سینسر کر دی جاتیں ہیں۔ اسی طرح دعوت ناموں اور کتبوں پر خواتین کا نام نہیں لکھا جاتا۔

لامحالہ طور پر ایسے واقعات کے خلاف اسرائیلی عدلیہ ہی آخری سہارا رھی جس نے اس رجحان پہ سخت ردعمل دیا تاہم روشن خیال جدت پسندوں کا راستہ کبھی بھی آسان نہیں رہا۔ جن سماجی کارکنوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، ان پہ آوازے کسے جاتے، ان کو بدنام اور پریشان کرنے کی ایک منظم مہم چلائی گئی۔ لوگوں کو ان کے چہروں پہ تھوک دینے کی ترغیب دی جاتی رہی اور ان کے گھروں کو نشان زدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔

اسرائیل اور پاکستان میں بہت سی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ یہ دونوں دنیا کے اکیلے ایسے ممالک ہیں جو مذہب کے نام پہ وجود میں آئے اور جہاں ایک اقلیت نے تقریباً مکمل طور پر ایک اجنبی خطہ زمین آزاد ملک کے طور پر حاصل کیا۔ دونوں ہی ملکوں کی تاریخ میں خواتین سیاستدان وزراء اعظم رہیں ہیں۔ روایت پسند مذہبی جماعتوں کی سیاست کا نظم بھی تقریبآ ایک جیسا ہے۔ اور قدامت پرستوں کا خواتین سے سلوک بھی۔

اور ہاں۔ کچھ مزید مماثلتیں بھی ہیں جن میں صنفی مساوات کے لیے کام کرنے والوں کو برے القابات دینے، ان کے خلاف سوچا سمجھا پروپیگنڈا کرنا، ان کو ٹارگیٹڈ تشدد کا نشانا بنایا جانا، ان کے مارچوں پہ پتھراؤ، خواتین کی پبلک سپیس سے پراسرار غیر موجودگی، شادی کے دعوت ناموں اور فوتیدگی کے اعلانات تک سے ان کی شناخت حذف کر دینے کی مذموم کوششیں بھی شامل ہیں۔

جانے اسرائیلی عدالتیں اپنی نظریاتی بنیادوں کے تحفظ سے کیوں اتنی لاپرواہ ہیں؟ ایسی لاپرواہ عدلیہ کو اپنے ملک کی ثقافت اور نظریہ بھی تباہ ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔ نظریاتی تحفظ سیکھنے کے لیے اسرائیلی عدلیہ کو پاکستان سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ حال ہی میں پاکستان کی صوبائی حکومتوں نے وزیراعظم کی قیادت میں، آپ نے فرمایا تھا کہ کوئی روبوٹ ہی ہو گا جو خواتین کے مختصر لباس سے برانگیختہ نہیں ہو گا، عوامی تفریح گاہوں پر خواتین کے باحجاب لباس کی مہم چلائی ہے یا اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ گلگت بلتستان اور مری میں ایسے بینرز منظرعام پہ آئے ہیں جن میں خواتین کو تنبیہہ کی گئی ہے کہ ان کی عزت حجاب سے ہی مشروط ہے ورنہ۔۔۔پاکستان میں روبوٹ ٹیکنالوجی ابھی بہت کم ہے۔

جمہوریت کی سیکھ

"کیا ذبح ہونے والا جانور آ گیا ہے؟” یہ سوال سعودی ولی عہد کے ذاتی محافظ اور ہِٹ ٹیم کے سربراہ، ماہر عبدالعزیز المطرب کی جانب سے پوچھا جاتا ہے۔ یہ واقع بتاتے ہوئے اقوام متحدہ کی خصوصی تفتیش کار برائے ماورائے عدالت قتل، ایگنس کیلامارڈ کی معاون، برطانوی وکیل، ہیلینا کینیڈی کی آواز سے دہشت جھلکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کسی کی آواز میں خوف کو سننے کی ہولناکی، اور یہ کہ آپ ایسے زندہ شخص کی آواز سن رہے ہیں جسے چند ہی لمحوں میں ذبح کیا جانے والا ہے، کی سرسراہٹ آپ کی ریڑھ کی ہڈی سے گزرتی ہے۔ آپ انہیں ہنستے ہوئے سن سکتے ہیں۔ وہ مزہ کر رہے ہیں۔ وہ وہاں انتظار کر رہے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ جو شخص اندر آنے والا ہے اسے ذبح کر کے اس کی لاش کو ٹکڑوں میں کاٹا جائے گا۔

مطرب فرانزک پیتھالوجسٹ صالح الطبیقی سے پوچھتے ہیں، "کیا ان کی لاش کسی بیگ میں رکھنا ممکن ہو گا؟” "نہیں، وہ بہت بھاری اور لمبے ہیں”۔ دونوں خشوگی کے جسم کو چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹنے کی افادیت پر تبادلہ خیال کرتے ہیں، الطبیقی کے مطابق یہ کام "آسان” ہوگا۔ "ان کا جوڑ جوڑ علیحدہ کٹ جائے گا۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر ہم پلاسٹک کے تھیلے لے کر ان کے جسم کو ٹکڑوں میں کاٹ لیں تو یہ جلدی ہو جائے گا۔ ہم ان میں سے ہر ایک کو الگ لپیٹ دیں گے۔” الطبیقی مزید کہتے ہیں، "میں نے کبھی بھی گرم جسم پر کام نہیں کیا ہے، لیکن میں آسانی سے اس کو کاٹ لوں گا۔”

یہ ساری گفتگو سعودی صحافی جمال خشوگی کو بہیمانہ طریقے سے قتل کرنے سے ٹھیک پہلے تقریبا اس وقت کی ہے جب وہ استنبول میں واقع سعودی قونصلیٹ کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ جمال کو اپنے بیٹے کو میسیج کرنے کو کہا جاتا ہے جس میں ان کے بیٹے کو تاکید کی گئی ہو کہ اگر وہ چند دنوں تک گمشدہ رہیں تو یہ بات کسی کو نا بتائی جائے جس پر وہ انکار کر دیتے ہیں۔ "جلدی کرو۔ ہماری مدد کرو تاکہ ہم بھی آپ کی مدد کرسکیں کیونکہ بالآخر ہم آپ کو واپس سعودی عرب لے جائیں گے اور اگر آپ ہماری مدد نہیں کرتے ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوگا۔ یہ کام اچھے سے ہونے دیں۔”

خشوگی ایک پرسکون شخص سے، خوف کے احساس تلے دبتے ہوئے، سراسیمہ اور مضطرب شخص کے طور پر سنائی دیتے ہیں- یہ جانتے ہوئے کہ کچھ مہلک واقع ہونے والا ہے، ان کی آواز میں در آنے والا خوف آخری حد تک پہنچ جاتا ہے۔ ‘کیا آپ مجھے زبردستی انجیکشن دینے جارہے ہیں؟’ جس پر انہیں ‘ہاں’ کہا جاتا ہے۔ "یہ کسی سفارت خانے میں کیسے ہوسکتا ہے؟” اس کے فورا بعد ان کے منہ پہ دم گھونٹنے والا تھیلا چڑھا دیا جاتا ہے۔ خشوگی کی مزاحمت جلدی ہی دم توڑ جاتی ہے کیونکہ انہیں اعصاب مختل کر دینے والا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ ان کے آخری الفاظ ہوتے ہیں، "مجھے دمہ ہے ایسا مت کرو، میرا دم گھٹ جائے گا۔” تبھی ماہر المطرب کہتے ہیں کہ ‘اسے کاٹ دو’، ‘اسے اتار دو ، اسے اتار دو۔ اس کے سر پر رکھو۔ اس کے سر کو اس میں لپیٹو.’ شاید یہی وہ لمحہ ہے جب جمال کا سر کاٹ کر ان کے دھڑ سے الگ کر دیا جاتا ہے۔

الطبیقی اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ جب وہ پوسٹ مارٹم کر رہے ہوتے ہیں۔ "میں انسانی لاشوں کو کاٹتے ہوئے اکثر ہیڈ فون پہ موسیقی سنتا ہوں اور کبھی کبھی تو میرے پاس کافی اور ہاتھ میں سگار بھی ہوتا ہے۔ اب کی بار زندگی میں پہلی دفعہ مجھے زمین پر ہی کسی انسان کے ٹکڑے کرنا پڑیں گے، بصورت دیگر تو اگر آپ قصائی بھی ہیں تو آپ جانور کو کاٹنے کے لٹکا دیتے ہیں۔” الطبیقی ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔ وہ بظاہر غیر مطمئن سے لگتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لاش کو ٹھکانے لگانے کے واضح مقصد کے ساتھ ، الطبیقی کو آخری لمحے میں شامل کیا گیا تھا۔ الطبیقی کہتے ہیں، "میرے براہ راست منیجر کو معلوم نہیں ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ کسی پریشانی کی صورت میں مجھے کوئی نہیں بچائے گا۔”

ایک اور شخص جو اس منظر نامے میں پریشان محسوس ہوتا ہے وہ قونصل جنرل محمد العتیبی ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ ملک واپسی پہ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو بکواس بند رکھیں اور کاروائی میں رکاوٹ نا ڈالیں۔ انہیں اس لیے یہ سننا پڑا ہے کیونکہ وہ ٹیم کو اپنا کام کرنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں، "یہ کام باہر جا کر کرو۔ آپ کا یہ کام مجھے کسی مصیبت میں پھنسا دے گا۔” اسی دوران، اگلے ۳۰ منٹ تک، پوسٹ مارٹم کرنے والے آرے کی ہڈیاں اور گوشت کاٹتے ہوئے آواز آتی ہے۔

جمال واشنگٹن پوسٹ کے صحافی تھے اور سعودی حکومت کی مطلق العنانیت کے سخت مخالف تھے۔ وہ سعودی ولی عہد کی ایک ایسی آمرانہ شبیہہ دنیا کو دکھا رہے تھے جسے سعودی حکومت یقینی طور پر کبھی پروجیکٹ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ان کی تحاریر نے ولی عہد کو برافروختہ کردیا اور وہ اپنے ساتھیوں سے جمال کے مسئلے کے بارے میں کچھ کرنے کو کہتے رہے۔ استنبول میں، سعودیوں کو خشوگی کے بارے میں "کچھ کرنے” کا موقع مل گیا۔

ایگنس کیلامارڈ نے اقوام متحدہ میں پیش کی گئی اپنی حتمی رپورٹ میں یہ نتیجہ نکالا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہ جرم ریاستی قتل کے علاوہ کسی بھی اور طریقے سے بیان کیا جا سکے۔ اپنے آخری الفاظ میں، جمال کی منگیتر خدیجہ چنگیز نے ان کے قتل کی حقیقی اہمیت سے خبردار کرتے ہوئے کہا، "یہ نہ صرف میرے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لئے المیہ ہے، ان تمام لوگوں کے لئے جو جمال کی طرح آزادانہ سوچتے ہیں اور جنہوں نے ان جیسا جمہوری مؤقف اختیار کیا۔”

میں ظالموں سے آزادی کی جدوجہد کبھی نہیں چھوڑوں گاحالانکہ میں زندگی بھر جیل کا قیدی رہوں گا۔یہ الفاظ نوبل انعام یافتہ، لیو ژیاؤبو ایک چینی ناقد، لکھاری، پروفیسر اور انسانی حقوق کے کارکن کے ہیں جو چینی کمیونسٹ پارٹی کے یک جماعتی حکومتی نظام کے خلاف تھے۔ ژیاؤبو کو دسمبر 2008ء میں نمائندہ جمہوریت کے لئے آواز بلند کرنے پر حراست میں لیا گیا اور ایک سال بعد ان کو 11 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ژیاؤبو کے آخری سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزرنے کا باعث بننے والا "جرم” منشور 08 تھا۔ "موجودہ سیاسی نظام اس حد تک پسماندہ ہوچکا ہے کہ تبدیلی سے گریز نہیں کیا جاسکتا،” انہوں نے یک جماعتی حکمرانی کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے منشور میں کہا۔ یہ منشور 1949 میں چین کی آزادی کے بعد سے چھپنے والا پہلا منشور تھا۔

2010 میں ، لیو کو "چین میں بنیادی انسانی حقوق کی طویل اور عدم تشدد کی جدوجہد” کے سبب امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ ایوارڈ کی تقریب میں ان کی نمائندگی خالی کرسی نے کی کیونکہ تب ان کو جیل میں قید دوسرا سال تھا۔ ناصرف ان کو بلکہ ان کی شریک حیات لیاؤ ژیاء کو بھی حراست میں لے لیا گیا جو تاحال قید تنہائی کاٹ رہی ہیں۔

ژیاؤبو دوران حراست جگر کے کینسر کا شکار ہو گئے۔ چینی حکومت نے ان کے علاج کے لیے کی گئی درخواستوں کو رد کر دیا اور ان کو تب تک مسلسل جیل میں رکھا گیا تاوقتیکہ کہ حکومت کو ان کی بیماری کے ناقابل علاج ہونے کا یقین نہیں ہو گیا۔ ذاتی درخواستوں کے علاوہ بین الاقوامی دباؤ بھی اس سلسلے میں ناکافی رہا۔ بالآخر ان کی موت سے صرف چند ہفتے پہلے حکومت نے انہیں جیل سے نکال کر ہسپتال پہنچایا جہاں ان کا کینسر آخری سٹیج پر تشخیص ہوا۔ بین الاقوامی برادری بار بار انہیں علاج کی خاطر ملک سے باہر بھیجنے پر زور دیتی رہی مگر چینی حکومت مصر رہی کہ ان کا تسلی بخش علاج ملک میں ہی ہو سکتا ہے۔

چند دن بعد چائنا میڈیکل یونیورسٹی کے شینیانگ فرسٹ اسپتال نے جگر کے کینسر کے باعث ان کی موت کی اطلاع دی۔ "مجھے اس حکومت سے نفرت ہے ،” مصنف اور سیاسی کارکن ٹینائچی مارٹن لیاؤ، جو 30 سال سے ژیاؤبو کی دوست رہی ہیں، نے کہا۔ انہوں نے کہا کہ صرف غم ہی نہیں، غم و غصہ ہے۔ ژیاؤ جیسے شخص کے ساتھ کوئی حکومت ایسا سلوک کیسے کرسکتی ہے؟

20 اگست 2020 کو، روسی شہر ٹومسک سے ماسکو جانے والی پرواز کے دوران ایک شخص منہ کے بل جہاز کے فرش پہ جا گرتا ہے۔ اندیشہ ہے کہ اسے بعید الاثر زہر دیا گیا ہے۔ طیارے کی ہنگامی لینڈنگ کے بعد انہیں کوما کی حالت میں اسپتال داخل کیا جاتا ہے۔ یہ خبر پھیلنے کے چند ہی لمحوں میں وفاقی سیکیورٹی اداروں کے اہلکار اسپتال کے کمرے کو گھیر لیتے ہیں کیونکہ زہر خورانی کا شکار ہونے والا شخص الیکسی ناوالنی ہیں جو روسی صدر پیوٹن کے سب سے بڑے ناقد ہیں۔ ان کی جان کو درپیش خطرے کے پیش نظر جلد ہی انہیں علاج کی خاطر جرمنی منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں سے وہ صحت یاب ہو کر روس واپس لوٹتے ہیں۔

جرمن تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ انہیں ملٹری گریڈ زہر ایک ایسے روسی خفیہ ڈیتھ اسکواڈ نے دیا تھا جو 3 سال سے اس مشن پہ تھِا۔ یہی زہر برطانیہ میں پناہ گزین، برگشتہ روسی جاسوس سرگئی سکرپل اور ان کی بیٹی کو بھی دیا گیا تھا۔ جنوری 2021 کے وسط میں ناوالنی کو روس واپس پہنچتے ہی حراست میں لے لیا گیا۔ جس تھانے میں انہیں رکھا گیا تھا وہیں پہ عدالت لگاتے ہوئے انہیں اس رات جیل کی سزا سنا دی گئی۔ حالانکہ ان کی اس سزا پہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی سمیت دیگر ممالک نے زبردت تنقید کی مگر روسی حکومت کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی۔ بلکہ اس کے جواب میں انہیں بیگار کیمپ میں بھیج دیا گیا۔

ناوالنی نے ایک باضابطہ شکایت میں حکام پر نیند سے محروم رکھنے، تلاوت کے لیے قرآن فراہم نا کیے جانے اور تشدد کا الزام عائد کیا ہے۔ ناوالنی کے ایک وکیل نے ان کی صحت کی خرابی کی نشاندہی کی جبکہ جیل حکام نے ناوالنی کی جانب سے سویلین طبیب سے متعلق درخواستیں رد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی صحت "اطمینان بخش” ہے۔ کچھ دن کے بعد، چھ ڈاکٹروں، جن میں ناوالنی کی ذاتی معالج ، اناستاسیا واسیلییوا، اور سی این این کے دو نامہ نگار شامل تھے، کو جیل کے باہر سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب انہوں نے ناوالنی سے ملنے کی کوشش کی جن کی صحت تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکریٹری جنرل، ایگنس کیلامارڈ نے صدر ولادیمیر پوتن پر الزام لگایا ہے کہ ناوالنی کو جیل میں تشدد اور غیر انسانی سلوک کے ذریعے آہستہ آہستہ قتل کیا جا رہا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ ناوالنی کو فوری طور پر طبی امداد کی ضرورت ہے۔ ناوالنی کی ذاتی ڈاکٹر، واسیلییوا اور تین دیگر ڈاکٹروں ، جن میں امراض قلب کے ماہر بھی شامل ہیں، نے جیل کے عہدیداروں سے یہ کہتے ہوئے انہیں فوری طبی رسائی دینے کا مطالبہ کیا کہ "ہمارا مریض کسی بھی لمحے دم توڑ سکتا ہے”، اس کا مطلب ہے مہلک دل کا دورہ یا بڑھتے ہوئے طبی خطرے کی وجہ سے "کسی بھی لمحے” گردوں کی ناکامی۔ تاہم، روسی حکام کی طرف سے غیر ملکی حکومتوں کی روسی صدر پر تنقید کی سرزنش کرتے ہوئے کریملن کے ترجمان دمتری پیسوکوو نے کہا کہ جیل کے حکام ناوالنی کی صحت کی نگرانی کر رہے ہیں۔ یہ صدر کی ذمہ داری نہیں ہے۔

اگر آپ چند ہفتے پہلے بیلارس کے 26 سالہ حکومت مخالف صحافی، رومن پروٹاسیوچ کی ایک بین الاقوامی پرواز سے اغوا کی سازش، شمالی کوریائی رہبر اعلی کم جونگ ان کے وزن میں کمی سے پریشان سرکاری صحافت اور پاکستان میں مخالف رائے کا گلا گھونٹے جانے سے پریشان ہیں تو یقین کیجئے کہ یہ مماثلت صرف اتفاقی نہیں ہے۔ کچھ دیگر مماثلتوں میں حکومتی ڈھانچہ بھی شامل ہے۔ سعودی عرب میں 88 برس سے، چین میں 72 برس سے اور روس میں 104 سال سے ایک ہی نقطہ نظر سوار بر اقتدار ہے۔ بعینہٖ، پاکستان میں پچھلے 74 سال سے، شمالی کوریا میں 73 برس سے اور بیلارس میں آزادی سے لے کر آج تک ایک ہی ادارہ حکومت پہ قابض ہیں۔

چنانچہ اگر پاکستان دوست ممالک کی پیروی کر رہا ہے تو کیا قیامت آ گئی؟ اگر ہمارے نظریاتی رہنما، سعودی، جمال خشوگی کے جسم کے ٹکڑے کر کے غائب کر سکتے ہیں تو پاکستانی شہر منڈی بہائوالدین میں لاپتہ صحافی سید سلیم شہزاد کی کٹی پھٹی لاش ملنے میں کیا قباحت ہے؟ اگر دوست ملک چین، لیو ژیاؤبو کو جیل میں رکھ کر موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے تو پاکستانی دانشوروں کی جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل کیوں قابل اعتراض ہیں؟ اگر روسی حزب اختلاف کے رہنما الیکسی ناوالنی کو جبری مشقت کے کیمپ میں سست موت دی جارہی ہے تو کیوں پاکستانی اختلافی آوازیں قانون کی حکمرانی اور جمہوریت وغیرہ کا فضول مطالبہ کریں؟ آخرکار، شمالی کوریا کے چینی، بیلارس کے روسی اور پاکستان کے سعودی، چینی اور روسی، سب کے مشترکہ، نقش قدم پہ چلنے میں حرج ہی کیا ہے؟

ہم جنس پسندی کی تاریخ

سعودی عرب کے سابق گرینڈ مفتی شیخ عبدالعزیز بن باز کے شاگرد رشید، ڈاکٹر سلمان العودہ نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم جنس پسندی کی اس دنیا میں کوئی سزا نہیں ہے اور ہم جنس پسند اس فعل کی وجہ سے اسلام سے خارج نہیں ہوتے- ان کے مطابق اس جرم کی شرعی سزا جو کہ سنگسار کیا جانا ہے، بذات خود لواطت سے بڑا جرم ہے۔

A Byzantine ancestor to same-sex marriage?


اسی طرح عرب سپرنگ کا آغاز کرنے والے ملک، تیونس کے٨٠ سالہ مفکر راشد الغنوشی نے بھی ایک انٹرویو میں بتایا، "ہم جنس پسندی کو ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ ذاتی پسند ناپسند کا معاملہ ہے- ان کے مطابق ہم جنس پسندی ایک نجی معاملہ ہے اور اس سلسلے میں قانون کا اختیار نہیں ہونا چاہیے چنانچہ اسے جرم نہیں ہونا چاہیے۔

مردوں میں ہم جنس پسندی کی تاریخ نسلوں کی بجائے صدیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ عربی زبان میں اسے لواطت اور انگریزی میں sodomy کہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں ہی اصلاحات میں مذہب کا دخل ہے۔ عربی کا لواطت پیغمبر لوط کے نام سے مشتق ہے جب کہ انگریزی sodomy موجودہ اسرائیل میں بحیرہ مردار کے جنوب مغربی کنارے پر واقع جبل سدوم (Mount Sodom) سے ماخوذ ہے۔

حالانکہ موجودہ دور میں سدوم نام کی کوئی آبادی وہاں موجود نہیں ہے مگر عہدنامہ عتیق (تورات عظیم) اور عہدنامہ جدید (انجیل مقدس) سدوم شہر کی تباہی کی تفصیل دی گئی ہے (دنیا کے تمام مذاہب قابل تعظیم ہیں)۔ یہ وہی شہر ہے جہاں قرآن حکیم نے پیغمبر لوط کی رہائش اور ان کی قوم پہ عذاب کا بتایا ہے حالانکہ اس شہر کے نام کا حوالہ قرآن حکیم میں نہیں دیا گیا۔ اسلام سے پہلے کی ابراہیمی کتابوں میں پیغمبر لوط کا ذکر بہت محدود سا ہے جبکہ قرآن پاک میں پیغمبر لوط کا ذکر نسبتا تفصیل سے آیا ہے۔

جب بھی ہم جنس پسندی کی بات آتی ہے تو عمومی طور پر مردوں کے ہی جنسی رویے کی بات کی جاتی ہے مگر یہ جنسی رویہ عورتوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ عورتوں کے اس جنسی رجحان کو انگریزی زبان میں (Lesbianism) کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ یونانی جزیرے (Lesbos) اخذ کیا گیا ہے۔ اس جزیرے کی وجہ شہرت مشہور یونانی شاعرہ سیفو ہیں جنہوں نے معلوم تاریخ میں پہلی بار اہنی محبوبہ کے بارے میں جذباتی شاعری مرتب کی (شاعری لکھی نہیں جاتی بلکہ ترتیب دی جاتی ہے)۔

اس طرح کے جنسی رویے کو عجیب سمجھا جاتا رہا ہے کیونکہ جنسی عمل کے متعلق عام غلط فہمی اس کے لیے ذمہ دار ہے۔ یہ اس لیے بھی ناقابل قبول لگتا ہے کیونکہ جنسی عمل کو صرف افزائش نسل کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ زمین پہ پائی جانے ذہین ترین مخلوقات (انسان، چمپینزی اور ڈولفن) جنسی عمل تسکین کے حصول کے لیے کرتے ہیں (جس کی وجہ سے کبھی کبھی بچے بھی پیدا ہو جاتے ہیں ورنہ ان کے سیکس کی فریکوئینسی کی نسبت سے ان کی آبادی کو بےقابو ہو جانا چاہیے) یہی وجہ ہے کہ دیگر تمام جانداروں کے جنسی عمل اور نئے بچے پیدا ہونے کا ایک خاص موسم ہوتا ہے جبکہ ان ذہین مخلوقات کے بچے سارا سال پیدا ہوتے رہتے ہیں۔

بنیادی طور پر ہم جنس پسند رویے کا تعلق بھی جنسی لذت سے ہوتا ہے جو کہ ایک انتہائی ذاتی رجحان ہے یہی وجہ ہے کہ ایسا جنسی رویہ رکھنے والے افراد جنس مخالف کی دستیابی کے باوجود ہم جنسی کا رجحان رکھتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں شادی بھی اس مسئلے کا مستند حل نہیں ہے اور ایسے افراد شادی کے بعد بھی ایسا رجحان رکھتے ہیں بلاشبہ یہ کچھ دب ضرور جاتا ہے مگر ختم نہیں ہوتا کیونکہ ہم جنس پسندی ایک قدرتی رجحان ہے جو ماں کے پیٹ سے ہی پروان چڑھنا شروع ہو جاتا ہے چنانچہ ہم جنس پسندی کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ہے۔

لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم نے جنسی رویوں کو حال ہی میں سمجھنا شروع کیا ہے لہذا ہم جنس پسندی کو روایتی طور پر قابل اعتراض سمجھا جاتا رہا ہے چنانچہ بالکل منطقی طور پر تقریبا ہر مذہب نے اس کے لیے سخت سزائیں تجویز کیں ہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ بالعموم مذہبی پیشوا ہی اس عمل میں پیش پیش رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صوفیانہ روایات سے مزین مردانہ اجارہ داری کی حامل مذہبی قیادت بالعموم نسائی لذت سے محروم رہی ہے کیونکہ تقدس کا تصور زنانہ جنسی لذت سے آلودہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ جنسی گھٹن کی شکار مذہبی قیادت کے لیے دینی تربیت کے لیے مدخول بچے آسان ہدف رہے ہیں۔

اس کے علاوہ بچوں کو خوف زدہ کر کے خاموش رہنے پہ مجبور کر دینا اور ان کے دل میں تقدس کے ہیولے کا ادب (رعب) پیدا کر لینا آسان رہا ہے۔ بچے سمجھتے ہیں چونکہ مذہبی رہنما خدا کے دنیاوی نمائندے ہیں لہذا ان کی ہر بات پہ مطلق فرمانبرداری ضروری ہے چاہے وہ حکم بظاہر ناجائز ہی ہو کیونکہ وہ مذہب کو مقدس ہستی سے زیادہ تو نہیں سمجھتے۔ ماسوائے اس کے بچوں کو سیکس کے موضوع پہ تعلیم کی کمی بھی اس کے لیے ذمہ دار رہی ہے۔

یہ مشق کسی ایک تہذیبب یا مذہب کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تقریبا ہر ثقافت اور مذہب اس حوالے سے شریک لطف رہا ہے۔ قدیم جاپان میں مردوں کی کم عمر لڑکوں سے جنسی لذت حاصل کرنے کے رواج کو Nanshoku کہا جاتا تھا، اس مقصد کے لئے اشرافیہ کے پاس wakashu کہلائے جانے والے لڑکے موجود ہوتے تھے۔ اسی طرح یونانیوں نے بھی لڑکے رکھے ہوئے تھے ارسطو نے اپنی کتاب پولیٹکس میں اس پر بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ Crete کے حکمران آبادی کنٹرول کرنے کے لئے pederasty بچہ بازی/ اغلام بازی کی پزیرائی کرتے تھے۔

چینی تہذیب میں بھی یہ رواج عام تھا۔ شہنشاہ Ai کی آستین پر ایک مرتبہ انکا عاشق سو گیا اس نوجوان کو اٹھانے کے بجائے آپ نے اپنی آستین ہی کاٹ لی۔ یہ دیکھتے ہوئے بعد میں درباری بھی ایک آستین نکال لیا کرتے تھے، اسی وجہ سے چین میں لڑکوں کا شوق رکھنے والوں کے لئے Passion of Cut Sleeves کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

فارس میں بھی یہ مرض عام تھا، سکندرِ اعظم کو فارس کے حکام نے Bagoas نامی ایک لڑکا بھی تحفہ میں دیا تھا، سکندر کویہ نوجوان بہت عزیز تھا رقص کے مقابلوں میں اسے نچوایا کرتا تھا، اس سے کھلے عام اپنے پیار کا اظہار بھی کردیا کرتا تھا Bagoas Kiss کی اصطلاح یہاں سے نکلی۔ عباسی دور میں خلیفہ الامین نے لڑکوں سے دربار میں رونق لگائے رکھی۔ عثمانی دور کی اشرافیہ بھی یونانیوں سے اس درجہ متاثر تھی کہ حماموں میں تلک نام کے کم عمر لڑکے رکھے جاتے جو مردوں کو نہلانے کے علاؤہ دیگر خدمات بھی سر انجام دیتے تھے۔

بابل کی تہذیب میں بھی مرد کا مرد سے جنسی تسکین حاصل کرنا ایک معمول کا فعل تھا۔ خوش بختی اور اچھی قسمت کے لئے ضروری تھا کہ مذہبی پیشواؤں سے جنسی تعلق قائم کیا جائے۔ مصر کی تہذیب میں بھی یہ ہی چیز جاری رہی تھی۔ انکی تین ہزار سال پہلے کی گلگامش کی کہانی میں بھی بادشاہ گلگامش انکیدو نامی لڑکے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔

آج بھِی افغان معاشرے میں یہ رویہ مباح سمجھا جاتا ہے کہ سماجی شان و شوکت کے لیے نوعمر لڑکے رکھے جائیں۔ یہ رویہ اس حد تک مقبول ہے کہ 2015 میں امریکی جرنیلوں نے اپنے فوجیوں کو ہدایت کی تھِی کہ افغان "بچہ کشی” میں مداخلت نا کی جائے۔ شاید ہی کوئی افغان سردار ایسا ہو گا جس کے حجرے میں امرد موجود نا ہوں۔ ناصرف یہ کہ ان لڑکوں کی ملکیت قابل فخر ہے بلکہ ان کے توارد کے لیے جنگجو سرداروں کی خونی لڑائیاں بھِی عام ہیں۔ یہ لڑکے ناصرف جنسی راحت دیتے بلکہ فنکارانہ ذوق کی تسکین بھی کرتے ہیں جیسا کہ پازیب کے ساتھ رقص وغیرہ۔ اس حوالے سیاسی یا مذہبی وابستگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ مذہبی، متشرع طالبان اور افغان حکومت کے حامی سیکولر سردار، دونوں اس حمام میں ننگے ہیں۔

مذہب میں اس حوالے سے سب سے زیادہ بدنام مسیحی گرجا رہا ہے (پیغمبر عیسی کے ماننے والے عیسائی نہیں بلکہ مسیحی ہیں)۔ میڈیا کے فروغ نے بیسیویں اور اکیسیویں صدی کے دوران مسیحی گرجا کی ہم جنسی پرستی کا پول کھول دیا ہے حالانکہ گرجا پہ ایسے الزامات صدیوں سے لگتے آئے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ بلکہ گرجا میں رہنے والی راہباووں کی بکارت کو محفوظ رکھتے ہوئے ان سے غیر فطری جنسی فعل کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔

بعینہہ، یہودی برادری کی عبادت گاہوں (سینا گوگ) میں ہم جنسی اشتہاانگیزیوں کی شکایات کا انبار ہے۔ بودھ صوفی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ ابھی حال میں ہی تھائی لینڈ کی بودھ خانقاہوں میں نوعمر بودھ بھکشووٗں کے ساتھ عمر رسیدہ بھکشووٗں کی جنسی ذیادتی کا انکشاف ہوا ہے۔ ایک ۱۳ سالہ بھکشو کی شکایت کے مطابق ۵۱ سالہ رہبر بھکشو اسے اپنے ننگے جسم کا مساج کرنے اور اپنے جسم کو چوسنے کا کہتے۔

پاکستان میں یہ روایت اردو کی رعایت سے آئی ہے حالانکہ اردو کی قبولیت عام سے پہلے بھی برصغیر کے مسلمانوں میں عشق افلاطونی (افلاطون کے نزدیک عورت سے محبت فضول ہے کیونکہ عورت سے جنسی عمل صرف نسل آ گے بڑھانے کے لیے ہے جب کہ عشق حقیقی کا حظ صرف نوعمر بغیر داڑھی کے لڑکوں سے ہی اٹھایا جا سکتا ہے) کی مضبوط ثقافت موجود تھی۔

اردو کی اولین تحریر سے بھی ۳۵۰ سال پہلے پیدا ہوئے سلطان علاوالدین خلجی کی اپنے غلام ملک کافور سے محبت پہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ خلجی کے دورِ حکومت میں ایک مبصر ضیا الدین بارانی نے خلجی کے آخری دنوں کا احوال بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ان چار پانچ برسوں میں جب سلطان اپنی یاداشت کھونے لگے تھے تو وہ ملک کافور کے ساتھ گہری محبت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ کچھ ایسی ہی حکایات سلطان محمود غزنوی اور ان کے چہیتے مملوک ایاز کے لیے بھی ہیں۔ تزک جہانگیری میں مغل بادشاہ جہانگیر نے بھی لڑکوں پہ اپنی شبینہ فتوحات کا ذکر کیا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد سرمد پر اپنی تحریر کی ہوئی کتاب ’حیاتِ سرمد‘ میں صوفی سرمد کی اپنے محبوب ابھےچند کے لیے سرمستی عشق کے بارے میں لکھا ہے۔

پنجابی کے نامور شاعر اور لاہور کے صوفی شاہ حسین اور ہندو لڑکے مادھو کے عشق سے کون واقف نہیں ہے؟ اس عشق کی گہرائی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنے محبوب کا نام اپنے نام کا مستقل حصہ بنا لیا اور اب بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ مادھو لال حسین ایک شخص کا نام نہیں تھا بلکہ دو الگ الگ نام تھے۔

اسلامی تصوف میں اس حوالے کی روایت پہلے عرب (شاعر ابو نواس) اور پھر فارس (عمر خیام اور حافظ شیرازی کا مشہور شعر تو ہر کوئی کس لذت سے سناتا ہے کہ اگر وہ شیراز کا ترک لڑکا مجھے مل جائے تو میں اس کے گال کے تِل کے بدلے سمر قند اور بخارا کے شہر اسے بخش دوں) سے وارد ہوئی۔ اس سلسلے میں صوفی سلسلے کی مشہور بزرگ شاہ شمس تبریز اور مولانا روم کا عشق زبان زد عام ہے۔

1244 میں مولانا رومی کی جب شمس تبریز سے ملاقات ہوئی تو ان کی عمر 37 برس اور شمس تبریز کی عمر 60 برس تھی۔ اس وقت تک مولانا رومی ایک مستند و معتبر عالم بن چکے تھے۔ ان کا خطبہ سننے سینکڑوں ہزاروں لوگ جمع ہوتے تھے۔ ان کے شاگردوں کی فہرست طویل تھی۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ایک خوشحال‘ باعزت اور کامیاب زندگی گزار رہے تھے۔ شمس نے رومی کو چھوڑ جانے کا فیصلہ کیا تو رومی نے شمس کی شادی اپنی منہ بولی بیٹی کیمیا سے کر دی۔

یہ حقیقت بھی اہمیت کی حامل ہے کہ جوں جوں رومی شمس سے جذباتی طور پر قریب آتے گئے رومی اپنی بیوی سے رومانوی طور پر دور ہوتے گئے اور شمس بھی اپنی نو بیاہتا بیوی کیمیا سے ازدواجی تعلقات نہ قائم کر سکے۔ اس تعلق کی شرمندگی سے بچنے کے لیے رومی کے بیٹوں نے شمس کو قتل کر دیا۔

اردو غزل کے بادشاہ، ریختہ کے استاد، صوفی ابن صوفی سید محمد تقی (ولد سید محمد متقی جو ایک معروف مزار کے سجادہ نشین تھے) عرف میر تقی میرؔ، جن کو خداۓ سخن کا لقب دیا جاتا ہے، نے شاعری کے اپنے دیوان کے متعلق کہا تھا کہ میرے دیوان میرے معشوق لڑکے کے لکھا گیا ہے۔ ان کے معشوق لڑکے کے حسن کے قصے اور طرحداریوں کے افسانے اس کے خال و خد سے لے کر عشوہ طرازیوں تک چلے جاتے ہیں۔

اسی طرح پرانی دلی کے قدماء میں سے ایک بزرگ شاعر شیخ شرف الدین مضمون نے اپنے محبوب کے بارے میں لکھا کہ میرے محبوب کے چہرے پر داڑھی آ گئی ہے جبکہ میری داڑھی سفید ہو چکی ہے۔ لیکن وہ اب بھی ساری رات مجھ سے مصاحبت کرتا ہے۔ ہندو اردو شاعر رگھوپتی سہائے فراق گورکھ پوری بھی اپنے بیٹے کے عمر کے لڑکے کے عشق میں مبتلا تھے۔ کہتے ہیں کہ فراقؔ گھورکھ پوری کی ہم جنسیت کی وجہ سے ان کے بیٹے نے خود کشی کر لی تھی کہ اس کا باپ اس کے دوستوں سے بھی باز نہ آتا تھا۔)

ایک فقیہ اعظم نے اس رویے کا علاج یہ تجویز کیا تھا کہ اپنے شاگرد کا سر منڈوا دیا تاکہ وہ خوبصورت ہونے کی وجہ سے دوران سبق امام صاحب کی توجہ منتشر نا کروا دیں۔ مگر کیا کیجئے، مسئلہ حل نہیں ہوا اور اس کے بعد استاد محترم اپنے عزیز شاگرد کو اپنی مسند کے عقب میں یعنی اپنی نظروں سے اوجھل بٹھاتے۔ کیا اس سب کے بعد مفتی الشیخ عزیز الرحمان پہ گرفت کی جانی چاہیے؟ جواب آپ کا ہے۔

دو پاکستان

یہ دو وکیلوں کی کہانی ہے۔ ایڈووکیٹ بلال فاروق علوی 20 مئی 2021 کو کراچی سے اسلام آباد آنے والی ائیر بلیو کی پرواز 200 میں اپنے خاندان کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ ایڈووکیٹ علوی نشستوں کی پانچویں قطار میں براجمان تھے۔ دوران پرواز انہوں نے خود سے اگلی یعنی نشستوں کی چوتھی قطار میں ایک نوجوان جوڑے کو دیکھا جو بوس و کنار میں مشغول تھا۔ ایڈووکیٹ علوی کے مطابق وہ حضرات بوس و کنار سے سوا بھی ‘غیر اخلاقی’ حرکات کر رہے تھے جس پر انہوں نے ائیر ہوسٹس کو ان کی شکایت دی۔

بادی النظر میں پاکستانی فضائی حادثوں کے ریکارڈ سے فکرمند ایڈووکیٹ علوی نے سوچا کہ دورانِ پرواز ایسی حرکتیں خدا کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی فضائی سفر میں یہ سوچ کوئی انوکھی بات نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ہوائی حادثوں سے خدائی تحفظ کی خاطر ہوائی جہازوں کے سامنے کالے بکرے کی قربانی اور ہوائی سفر کے دوران موسیقی کی بجائے مذہبی کلام گایا بجایا جاتا رہا ہے۔ یاد رہے کہ جولائی 2010 میں اسی روٹ پر اسی فضائی کمپنی کی اسی منزل کو جانے والی پرواز 202 مارگلہ کے پہاڑوں میں گر کر تباہ ہو گئی تھی جس میں سوار تمام 152 افراد لقمہ اجل ہو گئے تھے۔

ائیر ہوسٹس نے اس نوجوان جوڑے کو ایک دوسرے کو چومنے سے روکنے سے ناکام رہنے پر انہیں ایک کمبل اوڑھا دیا جس کی اوٹ میں وہ اپنی محبت کا اظہار جاری رکھ سکیں۔ ایڈووکیٹ علوی کے مطابق اس جوڑے نے ممانعت پر مزاحمت کرتے ہوئے جواب دیا کہ ان کے ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں کی جانی چاہیے۔ ایڈووکیٹ علوی نے سول ایوی ایشن اتھارٹی پاکستان کو ہوائی جہاز کے عملے کے خلاف، اس جوڑے کو ‘بےحیائی’ سے روکنے سے ناکام رہنے پر، کاروائی کے لیے ایک درخواست دائر کی ہے جس پر سول ایوی ایشن اتھارٹی نے کاروائی شروع کر دی ہے۔

دوسری کہانی ایڈووکیٹ راشد رحمان کی ہے۔ وہ مبینہ توہین مذہب کے ملزم جنید حفیظ کے وکیل تھے۔ جنید حفیظ کے پہلے وکیل قتل کی دھمکیاں ملنے پر فوراً ہی ان کے مقدمے سے دستبردار ہو گئے تھے جس کے بعد ان کا مقدمہ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے علاقائی سربراہ ایڈووکیٹ راشد رحمان نے لیا- وہ اس بات کے قائل تھے کہ ہر ملزم کو حق دفاع حاصل ہے اور سنوائی کا حق بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک ہے۔ انہیں توہینِ مذہب کے اس مقدمے سے دستبردار ہونے کے لیے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں لیکن وہ قانون و انصاف کی سربلندی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم رہے۔

2014 میں سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں راشد رحمان کو واشگاف الفاظ میں کہا گیا کہ آپ (جنید حفیظ کی وکالت کرنے کی سزا کے طور پر) اگلی سماعت تک زندہ نہیں رہ سکیں گے- جس پر انہوں نے جج اور سیکیورٹی اداروں کی توجہ اس جانب مبذول کروائی مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی- چند ہفتوں بعد ہی "نامعلوم افراد” نے ان کے دفتر میں گھس کر عینی شاہدین کے سامنے انہیں قتل کر دیا- اپنی موت سے چند دن قبل راشد نے بی بی سی کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کا مقدمہ لڑنا موت کے جبڑوں میں جانے جیسا ہے۔ بدقسمتی سے ان کی پیشنگوئی حرف بحرف سچ ثابت ہوئی۔

ایڈووکیٹ راشد رحمان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا مگر ایڈووکیٹ بلال فاروق علوی زندہ ہیں۔ سقراط نے کہا تھا کہ اگر میں زندہ رہا تو مر جاؤں گا مگر اگر میں آج مر گیا تو زندہ رہوں گا۔ جیورڈونو برونو نے موت کی سزا قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ مجھ سے زیادہ خوفزدہ ہیں کیونکہ آپ زندہ رہ کہ مر جائیں گے اور میں مر کے زندہ رہوں گا۔ خیر یہ دو وکیلوں سے زیادہ دو پاکستان کی کہانی ہے۔ بحث برطرف، آپ کو کونسا پاکستان چاہیے؟ ایڈووکیٹ راشد رحمان کا پاکستان یا ایڈووکیٹ بلال فاروق علوی کا پاکستان؟

پولیس گردی

بے یار و مددگار، ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے، پانچ بچوں کے باپ 48 برس کے ولیم جینیٹ کو منہ کے بل جیل کے فرش پہ گرایا جاتا ہے اور چند پولیس اہلکار ان کی کمر پہ گھٹنوں سے دباؤ ڈالنے لگتے ہیں۔ ولیم چیخ کر اپنا دم گھٹنے کی شکایت دیتے ہیں مگر پاس کھڑی ایک پولیس افسر انہیں جواب دیتی ہیں کہ انہیں سانس لینے کے قابل رہنا بھی نہیں چاہیے۔
پولیس اہلکار چار منٹ تک ان کے پھیپھڑوں پہ دباؤ ڈالے رکھتے ہیں جس سے ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ان کی موت کے مقدمے کی دستاویزات ظاہر کرتی ہیں کہ ان کے آخری لمحات میں انہیں ہراسانی سمیت گالیاں دیتے ہوئے زدوکوب بھی کیا گیا۔
امریکی ریاست ٹینیسی کے علاقے لیوس برگ کی مارشل کاؤنٹی جیل میں سفید فام ولیم کو بعینہٖ اسی انجام کا سامنا کرنا پڑا جو اب سے چند ماہ قبل سیاہ فام جارج فلائیڈ کو پولیس کے ہاتھوں کرنا پڑا تھا۔

جمعہ کی شام 3 بجے بھارتی صوبے اتر پردیش میں ایک 17 سالہ سبزی فروش نوجوان، فیصل اسلام، کو مبینہ طور پر لاک ڈاؤن کا اجازت شدہ وقت ختم ہونے کے باوجود فٹ پاتھ پر سبزی بیچنے کے الزام میں پولیس تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔ مزاحمت پر دو پولیس اہلکار اس نوجوان کو تھانے لے جاتے ہیں جہاں اسے بہیمانہ سلوک برداشت کرنا پڑتا ہے۔
کوئی بھی درست طور پر نہیں جانتا کہ تھانے کے اندر کیا ہوا مگر 4 بجے ایک فون کال پر اس نوجوان کے والد تھانے پہنچتے ہیں جہاں وہ اپنے نوعمر بیٹے کو آخری سانسیں لیتا ہوا پاتے ہیں۔ نوجوان کو ہنگامی طور پر ہسپتال لے جایا جاتا ہے مگر ڈاکٹر نوجوان کو مردہ قرار دیتے ہیں۔

ابھی سانحہ ساہیوال، صلاح الدین کی پولیس تشدد سے موت، اسامہ ستی قتل، اور ایک شدت پسند تنظیم کے زیرِ حراست کارکنان کی پٹائی کی ویڈیوز کی بازگشت باقی تھی کہ حال ہی میں وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لاک ڈاؤن کی پابندیوں کی خلاف ورزی پر کس طرح گوجرانولہ پولیس کے جوان ایک نوجوان کو بھرے بازار میں تھپڑوں کا نشانہ بناتے ہیں۔
2014 میں ژیل یونیورسٹی کینیڈا کے لاء سکول کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستانی پولیس تشدد کا بدترین مجرمانہ ریکارڈ رکھتی ہے۔ اس تحقیق میں بالخصوص پنجاب پولیس کے تشدد کے طریقہ کار، آلات، ذرائع، اور جواز پر جو روشنی ڈالی گئی ہے اس کے مطابق غیر انسانی تشدد کی تفصیلات اندوہناک ہیں۔
جسمانی تشدد کے علاوہ، نفسیاتی حربے، توہین آمیز رویے، جذباتی شکستگی اور جمالیاتی بدذوقی بھی تشدد کے عمومی ذرائع ہیں۔

حالانکہ ریاست کو طاقت (معاشی، مرئی، اور استحصالی وغیرہ) کے استعمال پر اجارہ داری حاصل ہے مگر پھر بھی کسی ریاستی ادارے کی جانب سے طاقت کے بےدریغ استعمال کا کوئی جواز نہیں ہے اور اسی بلاجواز استعمال پر قابو پانے کے لیے تشدد کے خلاف قوانین متعارف کروائے گئے ہیں۔
اگرچہ پاکستان میں ریاستی تشدد سے بچاؤ کے خلاف کوئی خصوصی قانون تو موجود نہیں ہے تاہم پاکستان میں پولیس تشدد کے خلاف ضمنی قوانین موجود ہیں۔ جیسا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل (2)14 میں تشدد سے بچاؤ کی دستوری ضمانت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اقوام متحدہ کے زیرِ انتظام تشدد سے بچاؤ کے بین الاقوامی معاہدے کا بھی رکن ہے۔ مزید برآں پولیس آرڈر سیکشن (b)156 اور CrPC کا سیکشن 176 بھی تشدد کی ممانعت کرتا ہے اور پولیس کے ایسا کرنے کی صورت میں سزائیں تجویز کرتا ہے۔

تاہم پولیس فورس سے پولیس سروس تک کا بدلاؤ تب تک ممکن نہیں ہے جب تک عوام اپنے حقوق سے باشعور نہیں ہو جاتے۔ یہی حقیقی جمہوریت کی روح بھی ہے۔