فطرت ..
جیسے ایک انڈے کے اندر چوزہ بنتا ہے .. ذرا غور کریں تو کسقدر نازک اور حساس ترین زندگی ایک انڈے کے اندر جنم لے رہی ہوتی ہے ..اس پلتی زندگی کے گرد باریک سی جھلی اور پھر اس جھلی کے اوپر انڈے کا خول ..بظاھر دیکھا جائے تو انڈا توڑنا ہمارے لئے ایک معمولی سی بات ہے .. مگر اگر اس کے اندر پلتی اس حساس و نازک سی جان کی طرح محسوس کرو تو .. اسکے گرد یہ انڈے کا خول اسکے جسم و جان کی حفاظت کا ایک مضبوط قلعہ ہے …ایک آہنی حصار …
اور پھر کچھ ہی دیر بعد ایک ایسا وقت بھی آ جاتا ہے… جب یہ نازک جسم و جان ایک معصوم سا چوزہ بن جاتا ہے…. ایک انفرادی وجود …جس کے لئے اب اس انڈے کے خول میں گویا اسی حفاظتی قلعہ کے حصار میں مزید رہنا اسکی موت کا سبب بن سکتا ہے …وہ پھر اندر ہی اندر سے اپنی پوری طاقت آزماتا ہے اپنے ہاتھ پاؤں مارتا ہے ..انہی جھلیوں سے نکلنے اور حفاظتی خول کو توڑنے کے لئے ….اپنا وجود پانے کے لئے …دنیا میں آنے کے لئے …سانس لینے کے لئے … زندہ رہنے کے لئے …
ہوبہو یہی حال ایک انسان کا بھی ہے ..فرق صرف اتنا ہے کہ چوزہ جسمانی طور پر انڈے کے اندر سے نکلتا ہے…. تو انسان ذہنی طور پر اپنے گرد لپٹی ان حفاظتی جھلیوں سے آزاد ہوتا ہے …ہر بچے کے پیدا ہوتے ہی اسکے والدین ، گھر ، خاندان اور سماج ، اپنے طور، اپنی اپنی سوچ کے مطابق حفاظتی جھلیاں لپیٹنے اور حفاظتی بند باندھتے رہتے ہیں ….اس امر میں کوئی شک نہیں کہ زندگی کے اس نرم و نازک مراحل میں یہ اس جان کی حفاظت کیلئے بہت اہم ہوتا ہے …ہاں مگر پھر وہ وقت آنا بھی عین فطری ہے .. کہ یہی حفاظتی بند توڑنے کی کاوشیں کرنا اور جھلیوں سے نکلنا اسکے اپنے انفرادی وجود کو پانے کا واحد تقاضہ ٹھہرتا ہے …
ہم سماجی سطح پر انسان کی زندگی کے اسی فطری موڑ کو کبھی سمجھ ہی نہیں پائے… تو قبول کیا خاک کریں گے ؟؟ … ہمیں لگتا ہے جو روایات و نظریات ہم اپنے بچوں کو وراثت میں دیتے ہیں وہی انکی زندگی کا کل سرمایہ ہیں … جبکہ قطعی طور پر یہ ایک غیر فطری عمل ہے … اور ایسا ہرگز ممکن ہی نہیں ہو سکتا .. یہ سبھی سماج کے لپیٹے عقائد و روایات کے حفاظتی بند توڑنا ، بوسیدہ نظریات کی جھلیوں سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنا … در حقیقت ہر انسان کا اپنے انفرادی وجود کو پانے کا … کھلی فضاؤں میں سانس لینے کا ..زندہ رہنے کا .. خود کو گھٹن آمیز اس ذہنی موت سے بچانے کا واحد و فطری طریق ہے ….. عفاف اظہر