یہ دو وکیلوں کی کہانی ہے۔ ایڈووکیٹ بلال فاروق علوی 20 مئی 2021 کو کراچی سے اسلام آباد آنے والی ائیر بلیو کی پرواز 200 میں اپنے خاندان کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ ایڈووکیٹ علوی نشستوں کی پانچویں قطار میں براجمان تھے۔ دوران پرواز انہوں نے خود سے اگلی یعنی نشستوں کی چوتھی قطار میں ایک نوجوان جوڑے کو دیکھا جو بوس و کنار میں مشغول تھا۔ ایڈووکیٹ علوی کے مطابق وہ حضرات بوس و کنار سے سوا بھی ‘غیر اخلاقی’ حرکات کر رہے تھے جس پر انہوں نے ائیر ہوسٹس کو ان کی شکایت دی۔
بادی النظر میں پاکستانی فضائی حادثوں کے ریکارڈ سے فکرمند ایڈووکیٹ علوی نے سوچا کہ دورانِ پرواز ایسی حرکتیں خدا کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی فضائی سفر میں یہ سوچ کوئی انوکھی بات نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ہوائی حادثوں سے خدائی تحفظ کی خاطر ہوائی جہازوں کے سامنے کالے بکرے کی قربانی اور ہوائی سفر کے دوران موسیقی کی بجائے مذہبی کلام گایا بجایا جاتا رہا ہے۔ یاد رہے کہ جولائی 2010 میں اسی روٹ پر اسی فضائی کمپنی کی اسی منزل کو جانے والی پرواز 202 مارگلہ کے پہاڑوں میں گر کر تباہ ہو گئی تھی جس میں سوار تمام 152 افراد لقمہ اجل ہو گئے تھے۔
ائیر ہوسٹس نے اس نوجوان جوڑے کو ایک دوسرے کو چومنے سے روکنے سے ناکام رہنے پر انہیں ایک کمبل اوڑھا دیا جس کی اوٹ میں وہ اپنی محبت کا اظہار جاری رکھ سکیں۔ ایڈووکیٹ علوی کے مطابق اس جوڑے نے ممانعت پر مزاحمت کرتے ہوئے جواب دیا کہ ان کے ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں کی جانی چاہیے۔ ایڈووکیٹ علوی نے سول ایوی ایشن اتھارٹی پاکستان کو ہوائی جہاز کے عملے کے خلاف، اس جوڑے کو ‘بےحیائی’ سے روکنے سے ناکام رہنے پر، کاروائی کے لیے ایک درخواست دائر کی ہے جس پر سول ایوی ایشن اتھارٹی نے کاروائی شروع کر دی ہے۔
دوسری کہانی ایڈووکیٹ راشد رحمان کی ہے۔ وہ مبینہ توہین مذہب کے ملزم جنید حفیظ کے وکیل تھے۔ جنید حفیظ کے پہلے وکیل قتل کی دھمکیاں ملنے پر فوراً ہی ان کے مقدمے سے دستبردار ہو گئے تھے جس کے بعد ان کا مقدمہ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے علاقائی سربراہ ایڈووکیٹ راشد رحمان نے لیا- وہ اس بات کے قائل تھے کہ ہر ملزم کو حق دفاع حاصل ہے اور سنوائی کا حق بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک ہے۔ انہیں توہینِ مذہب کے اس مقدمے سے دستبردار ہونے کے لیے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں لیکن وہ قانون و انصاف کی سربلندی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم رہے۔
2014 میں سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں راشد رحمان کو واشگاف الفاظ میں کہا گیا کہ آپ (جنید حفیظ کی وکالت کرنے کی سزا کے طور پر) اگلی سماعت تک زندہ نہیں رہ سکیں گے- جس پر انہوں نے جج اور سیکیورٹی اداروں کی توجہ اس جانب مبذول کروائی مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی- چند ہفتوں بعد ہی "نامعلوم افراد” نے ان کے دفتر میں گھس کر عینی شاہدین کے سامنے انہیں قتل کر دیا- اپنی موت سے چند دن قبل راشد نے بی بی سی کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کا مقدمہ لڑنا موت کے جبڑوں میں جانے جیسا ہے۔ بدقسمتی سے ان کی پیشنگوئی حرف بحرف سچ ثابت ہوئی۔
ایڈووکیٹ راشد رحمان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا مگر ایڈووکیٹ بلال فاروق علوی زندہ ہیں۔ سقراط نے کہا تھا کہ اگر میں زندہ رہا تو مر جاؤں گا مگر اگر میں آج مر گیا تو زندہ رہوں گا۔ جیورڈونو برونو نے موت کی سزا قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ مجھ سے زیادہ خوفزدہ ہیں کیونکہ آپ زندہ رہ کہ مر جائیں گے اور میں مر کے زندہ رہوں گا۔ خیر یہ دو وکیلوں سے زیادہ دو پاکستان کی کہانی ہے۔ بحث برطرف، آپ کو کونسا پاکستان چاہیے؟ ایڈووکیٹ راشد رحمان کا پاکستان یا ایڈووکیٹ بلال فاروق علوی کا پاکستان؟