نقل کا قومی پاکستانی رجحان…سلسلے وار… سچائیاں اور تلخ باتیں

دو دن قبل ایک دوست سے پاکستانی معاشرے میں ادب سمیت مختلف شعبہ جات میں نقل، جگالی، سرقہ، اکتساب، ماخوذ وغیرہ کے ماخذات و وجوھات پر کچھ گفتگو ھوئی، وہ اس بارے اس تانے بانے کے سِرے تلاش کر رھے تھے۔
مثلآ پاکستان میں رٹا سٹائل تعلیمی نظام، اور سفارشی پاس یا جعلی ڈگریوں کے ذریعے اور امتحان میں پرچوں کی خریدو فروخت اور نقل کے رجحان کا بعد میں معاشرے کے مختلف شعبوں میں کسی نہ کسی کمتری خامی برائی کی صورت میں ظاھر ھونا لازم ھے۔
برائی کا تصور یہ ھے کہ برائی کرنے والا جب پہلی بار یہ برائی یا غلط اقدام کرتا ھے تو اُسے قدرے شرم محسوس ھوتی ھے اس موقع پر مناسب تنبیہہ سے گزرے تو بہتری کا امکان ھوتا ھے۔۔
لیکن جب دوسری تیسری بار ایسا کام کرے تو پھر نہ اسکے اندر سے کوئی احتجاج ھوتا ھے نہ وہ بیرونی احتجاج کو بھی کوئی اھمیت دیتا ھے۔۔
یہ ڈھیٹ پن، خود سری، اور مطلب پرستی ایک ظالم خود غرض شخصیت کی صورت میں ظاھر ھوتی ھے۔
جیسے میں کہا کرتا ھُوں کہ قصاب کبھی شاعر نہیں ھوتا، نہ وہ کبھی مصور ھوتا ھے۔۔ کیونکہ قصاب جب جانور کو ذبح کرتا ھے تو اسکے اندر رحم دلی کا تصور مردہ ھوتا چلا جاتا ھے۔ شقاوتِ قلبی اسی کو کہتے ھیں۔ ایسا شخص نازل خیالات سے بہت دُور چلا جاتا ھے۔
جب ماسٹر کو کہہ کر کسی کے بیٹے بیٹی کو امتحان میں پاس کروایا جاتا ھے تو وہ طالب علم خود کو اندر سے گھٹیا اور شرمسار پاتا ھے، یہ عمل اسکی اپنی شخصیت کی خود یقینی کو پاش پاش کردیتا ھے۔ اور ایسے عمل کی دھرائی سے ایک سپاٹ خود غرض، بے عمل فریبی فرد معاشرے کا حصہ بن جاتا ھے۔۔
ایسے افراد کی تعداد بڑھنے سے مجموعی طور پر معاشرے میں بےحِسی اور دکھاوے کا رجحان تناسب میں بڑھتا ھے تو معاشرہ اجتماعی طور پر بد اخلاق، فریبی اور شدت پسند ھو جاتا ھے۔۔
دوران تعلیم نقل کے عمل سے ایسے طالب علموں کی حق تلفی ھوتی ھے جو اگلی کلاس میں جانے کے اھل تھے لیکن انکی جگہ ایک نقال نے لے لی۔۔ مثلآ آرمی میڈیکل کالج میں داخلے کے لئے سفارش ایک عام مثال ھے۔ میں نے سفارش نہیں کروائی تھی اس لئے مجھے بھی داخلہ نہ مِل سکا۔۔
پی سی ایس آئی آر میں جاب کے لئے مولوی بیٹھا تھا وہ بجائے سائینسی انٹرویو کے مجھ سے دعائے قنوت سننا چاھتا تھا۔شیزان بیکری گارڈن ٹاون لاھور کے مالک کو احمدیت پسند نہ تھی سیلیکٹ کر کے ریجیکٹ کردیا۔۔۔
اِسی رجحان کے تابع ماضی پرست معاشرہ اپنی رجعت پرستی کی وجہ سے پرانے حقیقی و غیر حقیقی و افسانوی ادوار سے جڑنے ھونے کا دکھاوہ کرتا ھے۔
اس نہج سے نقصان یہ ھوتا ھے کہ موجود نظر انداز ھوجاتا ھے آپ ماضی میں کیسے جی سکتے ھیں جب کہ حال سے واقف نہ ھوں۔۔ اچھے اخلاق پر قائم قومیں حال سے جڑے ھونے کی وجہ سے مستقبل پر نظر رکھتی ھیں،،لیکن رجعت پسند معاشرے اساطیری، افسانوی، مذھبی ماضی کو حال میں نافذ کرنے کی غلطی کرتے جاتے ھیں۔
وہ ھر نئی ایجاد کی پہلے تو شدید نفی کرتے ھیں۔ بعد میں زمانے کی تبدیلی کو مذھبی رنگ دے کر جزوی طور پر قبول کرتے ھیں۔ انشراح صدر تب بھی نہین ھوتا۔۔
ایسے معاشرے میں اندرونی طور پر افراد نئی سائینسی روش کو استعمال کرتے اور چاھتے ھین لیکن بیرونی طور پر اسکی نفی کرتے ھیں۔
مثلاً تصویر کی ممانعت مذھب میں شدید ھوتی تھی۔ اسلام بازی لے گیا کہ تصویر کی شدید ممانعت کی۔ لیکن اندر سے اس ایجاد کے فوائد نظر آئے تو اس سے فائدہ بھی ُاٹھایا لیکن دوسروں کو اسکے خلاف درس بھی دیا۔۔
مثلا بہت سے مولویان کہتے ھیں۔ کیمرے کی تصویر تو جائز ھے۔لیکن قلم ،،یا برش سے بنانا حرام ھے۔
یا مرزا غلام آحمد جو مہدی ھونے کے دعویدار تھے نے کہا انکی تصویر مذھبی اغراض و تبلیغ کے لئے جائز ھے۔ البتہ ویسے تصویر حرام ھے۔۔لیکن اب 24 گھنٹے کا احمدیہ ٹی وی ، رسالے اخبار ۔۔۔ اُس فتوے کا مزاق آُڑا رھے ھیں،
ایک فریبی مولوی فضل الرحمن نامی نے کچھ عرصہ قبل کہا کہ تصویر جو ھاتھ سے بنائی جائے وہ حرام ھے۔ اور کیمیرے پر انٹرویو دے رھا تھا۔۔
اسی طرح چھاپہ خانے کی ایجاد پر موت کی سزائیں عیسائیوں نے عرصہ تک دیں ھیں۔ لیکن اب عیسائیوں کی مذھبی کتابیں اسی چھاپہ خانے سے چھپتی ھیں۔ یہ تمام امثال ماضی کو حال پر تھوپنے کی ناجائز کوششوں کا نتیجہ ھیں۔
اردو میں ادبا و شعرا نے کثرت سے فارسی و عربی و سنسکرت و انگریزی کے ماخذات سے اپنی شاعری کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔
اس کے نتیجے میں ادب میں نقالی کا وھی تصور سامنے آ گیا جو ابتدائے تعلیم میں امتحانی مراکز میں پایا جاتا تھا۔ وھی قرینہ بالغانہ زندگی میں معاشرے نے اپنا لیا۔
اردو کو نوزائیدہ زبان کہہ کر اسی بہانے سے بیرونی زبانوں سے خوب سرقہ کیا گیا۔
بعض صورتوں میں ترجمہ کا حوالہ دیا گیا بعض میں ماخوذ ، اکستاب، وغیرہ جیسی اصطلاحات کے حوالے سے یہ نقل کا رجحان جاری رھا۔
بیرونی ماخذات تو الگ اندرونی طور پر ایک دوسرے کی تحریروں اور شاعری کی بھی نقالی یا جگالی کی گئی۔۔
چونکہ معاشرے میں نقل کے عمومی رجحان اور مذھبی و علاقائی ڈھٹائی کے باوصف بےشرمی یا ذرا نرم الفاظ میں بےحسی کا عنصر بڑھ گیا تھا تو ۔۔ سب اسی چوری کی روش کو مقابلے میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر استعمال کرنے لگے۔
کلاسیکی شعرا کی شاعری میں سے تراکیب ، اصطلاحات،تلمیحات کو ڈھٹائی سے استعمال کر کے اسے کلاسیک سے جڑے ھونے کی گمراہ کُن روش سے منسوب کیا گیا۔
کلاسیکی شُعرا نے ایک ھی زمین یا بحر میں ملتے جلتے قافیوں والی غزلیں کہنی شروع کر دیں۔۔۔ جو بنیادی طور پر چوری ھی تھی۔۔لیکن اس چوری کے عمومی رجحان کو، جس کی میں اوپر نفسیاتی وضاحت کر آیا ھوں، اسی کے تحت ایک سے قافیوں والی ایک سی زمینِ شعری کو ، مقابلہ آرائی کہہ دیا گیا اور کہا گیا بحر یا زمین کسی کی نہیں ھوتی جو اس میں اچھا کہہ لے زمین اُسی کی۔۔ یہ غیر تخلیقی رجحان ، سطحی شاعری کا سیلاب لے آیا،
شُعرا اپنی شاعری میں ایسی تراکیب استعمال کرنے لگے جس کے ماضی اور ساخت سے جڑے ثقافتی منظر نامے سے وہ واقف ھی نہ تھے۔
مثلآ بلبل ایک پرندے کا نام استعمال کیا گیا۔۔۔ جو پاکستان میں ھوتا ھی نہیں ھے۔ بلبل صرف ایران میں پایا جاتا ھے۔۔ پاکستان میں جسے بلبل سمجھنے کی غلطی کی گئی وہ پرندہ گُلدُم ھے۔
دلِ ناداں کی ترکیب کا انگریزی ترجمہ غیر دانشمند دل ھے۔۔ لیکن غیر دانش مند دل کہہ کر جو منظر نامہ ، اس دل سے منسوب ھے وہ کہاں سے لایا جائے گا۔۔ قاری کو تو اسکا ادراک نہ ھوگا۔ پس ترکیب کی چوری کو بھی اس طرح جائز سمجھا گیا۔
ظاھر ھے یورپ علمی سطح پر ھمارے خطے سے سینکڑوں برس آگے ھے اس لئے اردو میں یوروپ سے مختلف علوم پر کتابوں کا ترجمہ کیا گیا۔ لیکن ایک ایسی صورتِ حالبھی سامنے آئی جس میں ترجمہ کار نے بتدریج ، ترجمے کے اصل ماخذ کا نام اور حوالہ بھی غائب کردیا۔۔تاکہ جھوٹی تعریف کے لئے اپنی ذات کو سامنے لا سکے۔
اس پر عمران شاھد بھنڈر نے تحقیق کی اور معروف اردو لکھاری گوپی چند نارنگ کی بیشتر کتابوں کو براہ راست ترجمہ یا چوری قرار دیا۔
جیسے کہ ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا، گھٹیا شاعر دوسروں کے خیات چوری کرتے ھیں۔۔ بہت بڑھیا شاعر پورے کا پورا شعر و عبارت اپنا لیتے ھیں۔ یہی کام فیض نے کیا ھے فیض نے جب چاھا اپنی نظم میں دوسرے شاعر کا مصرع لگا لیا۔۔۔جسے مصرع چُرا لیا کہنے میں پاکستانی ناقد ڈرتے ھیں کیونکہ عمومی روش کی مخالفت پاکستان میں ناپید ھے۔ علی عباس جلالپوری نے جب اقبال کو فلسفی کی بجائے متکلم ثابت کیا اور انکے علم الکلام کو حوالے سے ثابت کیا تو ان پر فوری مقدمہ دائر کر دیا گیا۔ رجعت پسند دقیانوسی معاشروں کے ادب میں ایسے واقعات لازمی ھوتے ھیں۔ بہت سے ادیب و شُعرا بلیک لسٹ کر دئیے گئے۔۔
اقبال نے کوئی 30 کے لگ بھگ، مغربی شعرا کی عمدہ نظموں کے ترجمے کئے اور لفظ ماخوذ انکے ساتھ لکھ کر حوالہ دے دیا۔ بہت سے اشعار کے ماخذات کا بھی حوالہ دیا۔ لیکن پاکستانی معاشرہ چونکہ نقل، اور مذھبی شدت پرشتی پر قائم ھے اس لئے رفتہ رفتہ شعبہ اقبالیات نے ایک خاص منصوبے کے تحت اقبال کو فلسفی و زیادہ بڑا شاعر ثابت کرنے کے لئے یہ حوالہ جات جو اقبال نے بعض جگہ دئیے تھے وہ بھی غائب کردئیے، جس کے نتیجے میں 40 سال تک کی عمر کے لوگ جو اس دوران پروان چڑھے وہ اقبال کی مشہور نظموں کو اقبال کی ذاتی تخلیق سمجھنے لگے جبکہ نہ صرف خیال بلکہ تراکیب و الفاظ بھی مغربی کافر شُعرا کے تھے۔ جیسے لب پہ آتی ھے دُعا بن کے تمنا میری۔۔۔والی نظم اصل میں میٹیلڈا ایڈورڈ بیتھم کی مشہور حمد کا ترجمہ ھے جو گِرجوں میں اقبال سے بہت پہلے پڑھی جاتی تھی۔
اقبال ن جو منظوم ترجمے کئے ہیں ان کے علاوہ ان کی شاعری کا ایک قابلﹺ لحاظ حصہ ایسا بھی ہے جو مغربی شعرا کے کلام سے متاثر ہے۔

پروفیسر عبد القادر سروری اپنی کتاب "جدید اردو شاعری” میں لکھتے ہیں۔
"اقبال کی ابتدائی شاعری کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو مغربی شعراء جیسے ٹینی سن، ایمرسن اور گوئٹے وغیرہ کے کلام سے ماخوذ ہے، یہ درحقیقت اقبال کی موضوعی نظموں کا اولین نقش ہیں۔ اکثر شعراء جنہوں نے مغربی نظموں کے مقابلے میں نظمیں لکھنے کی کوشش کی ہے، پہلے مغربی شعراء کے کلام کو نمونہ بناتے رہے۔”

مخزن اپریل ۱۹۰۴ء میں سر عبدالقادر کا سہ سالہ ریویو شائع ہوا ۔ انہوں نےلکھا :

مخزن کا ایک مقصد اردو نظم میں مغربی خیالات، فلسفہ اور سائنس کا رگنگ بھرنا اور نتیجہ خیز مسلسل نظم کو رواج دینا تھا تاکہ نظم اردو کا رنگ نکھرے، اس کے اثر کا حلقہ وسیع ہو اور جو لوگ انگریزی نظم کی خوبیوں کے دلدادہ ہیں ان کی نسل کے لیے بھی کچھ سامان ملکی زبان میں مہیا ہو جائے۔ یہ مقصد بھی خاطرخواہ پورا ہوا اور اس کے پورا کرنے میں سب سے زیادہ کوشش شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے اور نیرنگ بی۔اے کی طرف سے ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقبال ۱۹۰۸ ء کے وسط میں یورپ سےواپس ہوئےتومخزن کے اڈیٹر شیخ عبدالقادر نے ان سے فرمائش کی کہ وہ انگریزی نظموں کے منظوم ترجموں کی طرف توجہ کریں۔ چنانچہ مخزن کے پہلے شمارہ ﴿اپریل ۱۹۰۱ء ﴾ میں اقبال کی نظم "کوہستان ہمالہ” کے عنوان سے شائع ہوئی جس پر اڈیٹر کی طرف سے یہ نوٹ ہے۔

شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے قائم مقام پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور جو علوم مشرقی اور مغربی دونوں میں صاحب کمال ہیں، انگریزی خیالات کو شاعری کا لباس پہنا کر ملک الشعراانگلستان ورڈسورتھ کے رنگ میں ہمالہ کو یوں خطاب کرتے ہیں۔
اپنی ابتدائی شاعری میں اقبال نے مغربی شاعروں سے بھر پور استفادہ کیا۔ اس کے متعلق لکھتے ہیں۔

"میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ہیگل، گوئٹے، غالب، بیدل، اور ورڈسورتھ سے

بہت استفادہ کیا ہے۔ ہیگل اور گوئٹے نے اشیاء کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ غالب اور بیدل نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ مغربی شاعری کے اقدار کو سمولینے کے باوجود اپنے جذبہ اور اظہار میں مشرقیت کی روح کو کیسے زندہ رکھوں اور ورڈسورتھ نے طالب علمی کے زمانے میں مجھے دہریت سے بچالیا”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان سے پہلے کے ھندوستانی اردو لکھاریوں میں سے جو ترقی پسند تھے انہوں نے تو خلوص نیت سے دوسری زبانون کے ترجمے کئے تاکہ قاری کو بلوغت کی جانب لایا جائے۔۔ لیکن بعد میں پاکستان میں ادب کی فضا ایسی بنی کہ خاص طور پر اردو شاعری ایک بےرس، غیر حقیقی، مبالغے سے بھری، نقل شُدہ، جگالی زدہ، تعلی آلود شے بن کر رہ گئی۔
البتہ کہیں کہیں بعض شعرا نے اپنے الگ رستے چُنے۔ الگ رستے چننے والوں کی ھمیشہ مخالف ھوتی ھے جیسے غالب کو دوسرے شُعرا گمراہ کہتے تھے۔ اسی طرح ظفر اقبال کے لسانی تجربات پر انہیں غیر شاعر کہنے والوں کی زبانیں اب بھی یہی کہتی ھیں۔ جبکہ وُہ خود جھوٹے تصوف کی غیر حقیقی جگالی سے بھری شاعری فرماتے چلے جاتے ھیں۔
نقل، سرقہ ، اکتساب، کا نقصان کسی نہ کسی سطح معاشرے کو ادا کرنا پڑتا ھے۔ زیادہ گہرائی میں جا کر مطالعہ کریں تو مذھبی افلاس کے پیچھے بھی عربی بہروپ کا ھاتھ نظر آئے گا۔
شاعری میں چوری یا نقالی صرف اصطلاحات، یا شعری زمینوں کی ھی نہیں ھوتی ۔۔بعض اوقات لکھنے کی نہج بھی چرائی جاتی ھے۔ بعض الفاظ کے استمعال کی کرافٹ بھی چوری کی اجاتی ھے۔
میں نے ایک غزل کوئی 15 سال قبل کبھی لکھی تھی۔۔۔۔۔ جسکی ردیف یوں تھی۔۔

نہ وُہ مدینہ ، نہ مکّہ، نہ غارِ ثَور و حِرا
نفاق و مومن و کُفّار بھی کلیشے ھے

کچھ عرصہ قبل ایک شاعر افتخار جعفری نے اس سے متاثر ھو کر ایک نظم لکھی جس میں کلیشے ھے کی دھرائی کی گئی ھے۔۔ جو ظاھر ھے میری غزل کا چربہ ھے۔
یعنی چوری انداز کی بھی ھو سکتی ھے۔ اس سے پہلے اردو شاعر مین اور غزل میں، کلیشے کا الفظ کبھی استعمال نہیں ھوا تھا۔۔۔لیکن میری اس کوشش کو وہ صاحب لے اُڑے۔
جون ایلیا کی غزل، آسمان میں کیا، کی ھزاروں چوریاں گردش کر رھی ھیں۔ آخر آپ کو کس نے یہ استحقاق دیا ھے کہ ایک شاعر کی غزل کی زمین آپ سب برتنے لگیں؟
چاھئیے تو یہ کہ کسی کی برتی زمین سے عمومی طورپر اجتناب کیا جائے۔ بغیر جانے بعض زمینیں ایک جیسی ھوں تو اور بات ھے۔۔لیکن یہاں تو فیشن بن چکا ھے کہ کسی کی مشہور زمین پر مشاعرے میں طرح شاعری کروائی جاتی ھے۔
یہ رجحان کسی طرح بھی اچھا یا تربیتی نہیں ھے، اس رجحان کے تانے بانے اُسی نقل کی ابتدائی روش سے ملتے ھیں جو معاشرے کو بانجھ بنا دیتی ھے۔
یہ بات مت بھولیں کہ آج پاکستان دنیا میں نائیجیریا کے بعد سب سے زیادہ ان پڑھ بچے رکھتا ھے، یہ شرمناک صورتِ حال اُنکے مُونہہ پر تھپڑ ھیں جو پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہتے ھیں جو پانی سے کار چلانے کا فراڈ کرتے ھیں، جو ایٹم بم کو پاکستانی ایجاد سمجھتے ھیں، جو جِنوں کو قابو کر کے انکی توانائی سے پاکستان میں بجلی بنانے کی بات کرتے ھیں۔
پاکستانی اردو ادب میں خاص طور پر ایک اندازِ خود ستائی بعض ادیبوں نے رواج دیا جس نے عمومی قاری کو ماضی کے افسانوی قصوں میں الجھا کے رکھ دیا۔
نسیم حجازی نے ایک بڑی تعداد کو گمراہ کردیا۔
اشفاق احمد اور واصف علی واصف، اور اب سید سرفراز شاہ، ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب نے مذھبی حوالوں سے افسانوی جھوٹ کو سچائی کا جبہ پہنا کر پیش کیا، جس کی وجہ سے ایک منافق ادبی معاشرہ ترتیب پا چکا ھے۔
اقبال نے چاھے اچھی نیت نظر سے ترجمے کئے ھوں لیکن، اقبال نے اپنی شاعری کو دوسروں کی شاعری پر استوار کیا اور اسی طرح دوسروں کے کہنے پر اپنی شاعری میں رد و بدل کیا۔ شکوہ لکھا تو جوابِ شکوہ مجبوری میں لکھا۔۔
اپنی کتاب کے پہلے 28 شعر لوگوں کے کہنے پر حذف کئے۔۔یعنی اقبال نے اپنی سوچ پر قائم رھنے کی جرات نہ کی۔ اسی اقبال نے یوروپ سے تعلیم پائی اور یوروپ کو تباھی کی نوید دی۔۔۔
اسی اقبال نے انگریز کی مدح کی۔ ملکہ کا قصیدہ بھی لکھا نوحہ بھی لکھا۔۔
ھندوستان کی آزاد تقسیم کو اقبال نے خطبہ الہ آباد اور خطوط میں رد کیا اور کہا ھرگز میں انگریز کے بغیر کسی ریاست کی بات نہین کرتا۔۔۔یہ انداز اقبال کو کیوں اختیار کرنا پڑاَ اس پر بڑی سچائی سے تحقیق کی ضرورت ھے۔
اقبال جو انگریز گورنر کا قصیدہ لکھتے ھیں تو جلیانوالہ باغ کے قتال پر کیون نہیں لکھتۓ؟
اقبال چین و عرب ھمارا کیوں کہتے ھیں؟ اقبال کی سوچ کیوں اسلام کے افسانوی ماضی میں خوش رھتی ھے،؟ جبکہ وُہ اپنی معشوقہ عطیہ فیضی کو تو خط میں لکھتے ھیں، کہ وہ خود کو شراب مین اتنا ڈبو لیں گے کہ خود کو قتل کر لیں گے۔۔۔ یہ خیالات و جزبات اتنے منشتر کیوں ھیں، کبھی آپ بےلاگ ھوکر ایمانداری سے اس پر سوچیں،
منٹو کی سچائی کو عریانی بےحیائی مشہور کیا گیا، مرنے کے بعد کیا ھوگا ایک بیسٹ سیلر کتاب بن گئی۔ لیکن اتنی ھی تعداد میں کُوک شاستر بھی ساتھ میں خریدی گئی،
اسوقت پاکستان میں بچوں سے جنسی زیادتی و قتل کی وارداتیں دنیا میں سب سے زیادہ ھو رھی ھیں، اجتماعی عصمت دری کے عمومی واقعات اسلامی ملکوں میں کثرت سے ھوتے ھیں، انڈیا میں بھی ایسے واقعات اتنے بڑھے ھیں کہ بچوں سے زیادتی پر موت کی سزا نافذ کر دی گئی ھے۔ یہ تمام معاشرتی واقاعت اپنے پیچھے ایک کثیر جہتی نفسیات رکھتے ھیں، جن میں نقالی ، چوری ، اکتساب، وغیرہ بھی شامل ھیں۔
ضرورت اس امر کی ھے کہ جھوٹی مدح سرائی اور ستائشِ باھمی کے غلیظ ماحول میں ایسی آوازیں اُٹھیں جو جگالی کو رد کردیں۔ نقالی کے رجحان کی حوصلہ شکنی کریں۔ داڑھی والے کی عزت داڑھی کے سبب نہیں اسکے اعمال و افعال سے جوڑی جائے۔ بڈھے کھوسٹ ادیب جو رجعت پسندانہ درس دیتے ھیں اسے مکمل طور پر رد کردیا جائے۔۔حال اور مستقبل کے حوالے لکھا اور سوچا جائے۔
رفیع رضا

15 thoughts on “نقل کا قومی پاکستانی رجحان…سلسلے وار… سچائیاں اور تلخ باتیں

  1. I have recently started a web site, the information you provide on this site has helped me greatly. Thanks for all of your time & work. Billi Laughton Melesa

Comments are closed.