اُڑن طشتریاں۔,,,خلائی مخلوق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،Aliens۔۔۔۔۔ UFO۔۔۔

حسبِ وعدہ خلائی مخلوق اور اڑن طشتریوں کے بارے رائے پیش ہے۔
انسانی شعور اور قدرتی میلان ایسا ہے کہ بچپن سے انسان جادوئی غیر مرئی چیزوں اور محیّر العقول باتوں کہانیوں اور چیزوں سے شدید متاثر ھوتے ہیں۔ نہ صرف سوچتے ہیں بلکہ یہی امید رکھتے ہیں کہ ایسا کچھ ضرور ھو۔،
یعنی ھم اپنے اُس قدرتی میلان کی روشنی میں خیال گُمان اور فینٹیسی کی جانب رغبت رکھتے ہیں۔ اسی خاطر انسان نے سوچا کہ یہ قدرتی حیاتیاتی سلسلہ بنانے والی طاقتوں کو سوچا جائے انکا ھیولہ یا حلیہ بنایا جائے۔۔ زمانہ قدیم سے خیال گُمان وسوسہ اور خوابی ماحول کے تحت کسی نہ کسی چیز کو خود سے بھی برتر جادوئی پاک۔۔پوِتّر ماننے کا قدرتی رجحان انسان کے اندر ہے۔اس رجحان کو شدید تقویت دینے والی چیزوں میں خوف۔۔۔اور دوسرا لالچ شامل کیا جاتا ھے۔عربی مذاھب خاص طور پر ایسے ہی سوچ کے تحت رایج کئے گئے۔یونان کی عقل و شعور میں بڑھی قوم میں بھی دیوتاوں یا ھر خدائی صفت کا کوئی خدا یا دیوتا مقرر کیا گیا ھندو ازم میں بھی یہی نظر آتا ھے اسلام میں بھی ایک ہی خدا کو وہ سارے صفات دینے کی کوشش 99 ناموں مین ملتی ہے جو اصل میں انسان کی اپنی صفات ہیں۔ پس انسان اپنے خدا یا دیوتا یا خود سے زیادہ طاقت و شعور رکھنے والی سوچ کا اسیر ہے۔۔ بعض اوقات کئی مزھبی جب لاجواب ھو جاتے ہیں تو کہتے ہین اچھا اب مین اپنا مذھب چھوڑ کونسا مذھب اختیار کروں۔۔کیا عیسائی ھو جاوں۔۔۔ یا عیسائی کہیں گے کیا مسلمان ھو جاوں۔۔۔شیعہ کہے گا کیا احمدی ھو جاوں احمدی کہے گا کیا دیوبندی ھو جاوں ؟
میں حیران ھوتا ہوں کہ اے بندہِ اسیر۔۔۔ تجھےمذھب کی کیا ضرورت ہے؟ کیا عالمی اخلاق نہین بتاتے کہ جھوٹ بولنا فریب دینا بےایمانی کرنا قطار بندی نہ کرنا چوری ڈاکہ۔۔قتل ایذا پہنچانا بُرے اعمال ہیں؟ آخر مذھب کے بتانے سے ہی کیوں ماننا ہے۔ ۔۔۔؟ یوں بھی مذھبی ممالک میں پھانسیوں اور سزاوں کی تعداد غیر مذھبی ملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔
مذھبی خداوں دیوی دیوتاوں کی طرح انسانی سوچ ھم جیسی یا ھم سے بہتر کسی مخلوق کے بارے میں بھی پُرامیدی رکھتی ہے۔مثلاً قران میں اور کہانیوں یا افسانوں کی طرح جنّوں کا ذکر بھی ہے۔بلکہ سُورۃ کا نام سُوڑۃ الجن ہے ۔۔یعنی ایسی مخلوق جو آگ سے پیدا کی گئی ہے۔ ویسے یہ نہایت بیہودہ خیال ہے کیونکہ آگ تو کائنات کی ھر چیز کو جلا دیتی ہے۔پس بہت ہی زیادہ درجہ حرارت سے بھی دھاتوں کے درمیان تعامل ھونے سے دھاتین ھی بنیں گی یا گیسیں بنیں گی۔۔کوئی اور جیتا جاگتا وجود کسی صورت بننا ممکن نہیں۔ لیکن کیا کیا جائے انسان کی مذھبی اور رجعتی سوچ کا کہ یہ فرض کر کے کہ جو سُن لیا پڑھ لیا وہ عین سچ ہے پوری زندگی اسی ایمان پر ضائع کر کے لوگ مَر جاتے ہیں۔
جنوں ہی طرح جب انسانی سوچ کسی طبیعی قدرتی کیمیائی یا طبیعاتی مظہر کو سمجھ نہیں پاتی تو اُسے فوری طور پر کسی غیر مرئی طاقت کا کام قرار دیتی ہے۔اس سے اسکے اس پرانے ایمان کی تسکین ھو جاتی ہے کہ ھم سے بہتر طاقتیں موجود ھیں۔جو جیسا چاھیں کر سکتی ہیں ھم جو نہین کر سکتے وہ کر سکتی ہیں۔
اسی سوچ کے تحت دنیا بھر کی تاریخ میں لوگوں نے ھر طرح کی خلائی مخلوق کے دیکھنے کا ذکر کیا جو انسان کی سوچ پڑھ لیتی ہے یا آنکھوں میں دیکھ کر انسان کو ساکت کر دیتی ہے۔انسان بےحس ھو جاتا ھے دیکھ سُن سکتا ھے مگر کچھ عمل نہیں کر سکتا۔۔
پھر اس خلاقئی مخلوق کے آنے جانے کو سواری کے لئے مختلف نام دئیے گئے جیسے جبرائیل ۔۔۔کا اڑتے گھوڑے پر سفر کرنا۔۔۔جیسے کسی گول یا بیضوی چیز اڑن گاڑی جس مین سے شعائین نکلتی ہوں اسکا ذکر کرنا۔۔۔
امریکہ چونکہ جدید ٹیکنالوجی میں سب سے آگے رھا ھے اس لئے امریکہ کے اداروں پر الزام ہے کہ وہ
خلاقئی مخلوق سے رابطہ کر چکے ہیں۔۔یا خالقئی مخلوق کی گاڑی زمین سے ٹکرائی تو اسکے پرزے اور خلائی مخلوق کو زخیمی یا مردہ حالت میں امریکہ کے اداروں نے پکڑا اور کہین چھپایا ھوا ھے وغیرہ۔۔
اسی حوالے سے سیاسی یا کسی اور چال کے تحت وقتاً فوقتاً امریکی میڈیا اڑان طشتریوں کا ذکر شروع کر دیتا ھے۔تاکہ لوگوں کی توجہ کسی اور اھم صورتِ حال سے ھٹائی جاوے۔
اسی کے تحت پچھلے کچھ دنوں سے امریکی کانگریس کی ایک خصوصی کمیٹی کچھ ریٹائیرڈ خلائی ریسرچرز اور سائینسدانوں سے سوال جواب کر رھے ہیں،،
تاھم کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی نہ ھو کوئی ثبوت پیش کیا گیا ہے۔صرف دعوے جات ہیں۔۔ناسا مکمل انکار کر چکا ہے۔
مشہور سائیسندان نیل ڈیگراس ٹائیسن نے چند دن پہلے لکھا کہ
۔Sometimes I wonder whether alien space vessels are inherently fuzzy & out-of-focus (that would be terrifying). And whether they love the US Navy
(that would be charming).
If so, it would explain a lot.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی مجھے حیرانی ہے کہ خلائی مخلوق کے جہاز ھمیشہ دھندلے اور غیر واضح ہی کیوں ھوتے ہیں (ویسے یہ خوف والی بات ہے) اور انکو امریکہ کی نیوی سے ہی چھپنے چھپانے میں کیوں لطف آتا ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی نیل ٹائیسن عمومی خیال کو جُھٹلا رھا ھے کہ ایسی کوئی خلائی گاڑی یا مخلوق ہے۔اب یہ روشنیاں اور دھندلی چیزوں کی تیز ترین حرکت کیوں ھوتی ہے تو اس بارے فزکس شاید ابھی اس میگنیٹک اور الیکٹریکل میدان کو سمجھ نہیں سکی جسکی وجہ سے قریبی جہازوں کے بعض انسٹرومینٹ کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔عام لوگوں کو شاید معلوم نہ ھو کہ آسمانی بجلی کا گیند سا جب بےپناہ چارج کی وجہ سے بنتا ھے تو بعض اوقات جہاں بنتا ھے وھاں سے 25 کلومیٹر دور بھی جا کر گِرتا ہے۔یعنی جہاں بادل ہیں وھاں سے ادھر بھی جا کر گِر سکتا ھے جہاں بادل نہیں ہیں۔جو غیر سائینسی ذھن کے عام شخص کے لئے سمجھنا بہت مشکل ہے اور ایسا ھوتا دیکھ کر وہ فوری خدا کے غضب ۔۔۔۔خلائی مخلوق کی گاڑی وغیرہ کے خیال کی روشنی میں مشاھدے کو بدل بدل کے پیش کرے گا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ نہایت تیز رفتار کیمرے ان خلائی گاڑیوں کی تصویر تک نہین لے سکتے جو واضح ھو ۔۔۔اسکی وجہ میرے یہی ہے کہ بے پناہ چارج کے دباؤ اور برقی اور مقناطیسی میدان کی وجہ سے کیمرے کی جانب جانے والے روشنی اپنے معمول یا منطر کی تصویر دھندلا جاتی ہے۔
میں سائینس کا معمولی طالب علم ہوں لیکن میں نے نیل ڈیگراس ٹائیسن کو لکھا کہ جس زاوئیے سے میں سوچ رھا ہُوں اسکو پرکھنے کا کیا طریقہ ھو سکتا ھے؟ کیونکہ یہ رپورٹ کیا جاتا ھے کہ جیسے 1976 کے ایرانی اڑن طشتری والے کیس میں دوسرے جہاز کے نہایت ماھر پائلٹ نے بھی جب جوابی میزائل داغنے کی کوشش کی تو قریبی فاصلے پر اسکے انسٹرومینٹ فیل ھو گئے۔۔ اسنے خؤد کو بچانے کے لئے سرعتی گراوٹ کو اختیار کیا۔۔۔تو بعد مین اسکے انسٹرومینٹ کام کرنے لگے۔۔
اس سے صاف معلوم ھوتا ھے کہ ایسی خلائی چیز کے قریبی علاقے میں بجلی سے چلنے والی چیزیں متاثر ھوتی ہے۔اب اگر آپ سولر سسٹم اور اس سے زمین پر پہنچنے والے خلائی شمسی طوفانون کے بارے جانتے ہوں آپ کو معلوم ھوگا کہ شمسی سولر طوفانوں کی وجہ سے ھماری مواصلاتی نظام درھم برھم ھوجاتے ہیں۔۔کمپیوٹر ۔۔انٹرنیٹ،،بجلی کی ترسیل کا نظام سب متاثر ھو جاتے ہیں۔،، شمسی طوفان اگر شدید تر ھوں تو خلا میں مواصلاتی سیارے ان بےپناہ طاقتور مقناطیسی میدانوں کی وجہ سے تباہ ھوجاتےہیں۔ جاپان کو سیارہ بھی ایسے ہی شمسی طوفان نے تباہ کیا تھا۔
پس یہ خلائی روشنیاں جو لوگ دیکھتے ہین اور جنکی تصاویر تک ٹھیک سے نہین بن سکتیں اور جن میں سے روشنیان نکلتی ہیں۔۔شاید مقناطیسی اور برقی ارتکاز کے حصار ہوتے ہیں اور بعض اوقات ساکن ھوتے ہیں لیکن جب حرکت کرتے ہیں تو بعض اوقات روشنی کی رفتار سے طرح غائب ھو جاتے ہیں۔ انکا اتنی تیزی سے غائب ھونا یا ایک جگہ کے الٹ کسی جگہ جا موجود ھونا بتاتا ھے کہ وہ دھاتی سٹرکچر نہیں ہیں ۔۔۔یہ تو سائینسی استدلال تھا دیکھتے ہیں سائینس اس پر آگے کیسے روشنی ڈالتی ہے۔
اب ھم اس پر فلسفیانہ اور منطقی طور پر غور کرتے ہیں۔
اگر یہ نظام حیات کسی طاقت یا خدا یا خداوں نے بنایا ہے تو ظاھر ھے وہ ھم سے زیادہ طاقت ہیں۔۔ اگر وہ اپنے آپ کو کسی ڈائمینشن یا جہت میں چھپائے ھوئے ہیں تو ھم جتنا چاھیں ترقی کر جائیں انکو۔۔انکی مرضی کے بغیر نہیں ڈھونڈ سکتے۔
اگر اُن طاقتوں نے یا طاقت نے یا خدا نے کچھ بھی کہہ لیں(لیکن مذھبی خدا جھوٹ ہے) اگراس زمین کی مخلوق کے علاوہ بھی کوئی مخلوق بنائی ہے تو کیوں وہ ھم سے زیادہ طاقت ور ھوگی؟جبکہ کروڑوں اربوں سالوں کے ارتقا سے ھمارا وجود کم از کم زمین پر اشرف المخلوقات طے ھوا۔ اگر کروڑوں سالوں میں یہ سنگ میل انسان تک پہنچا ھے تو کیسے ممکن ہے کہ کہین اور اس سے بہتر ڈیزائین کی حامل مخلوق بن گئی ہو؟ کیونکہ جب خدائی طاقتیں کنٹرولڈ ارتقا کی جانب چل رھے ہین تو کسی اور سیارے پر اس سے بہتر ڈیزائن ممکن نہیں۔یعنی اگر جدید ترین کمپیوٹرز کو جوڑ کر سُپر کمپیوٹر صرف اسنان زمین پر بنانے میں بمشکل کامیاب ھوا ھو تو کسی کسی ستارے یا چاند اس سے بہتر کمپیوٹر انسان تیار کر لے گا؟
پس عقلی طور پر یہ ممکن نہیں۔
مذھب خدا کا خیال تو خیر نہایت ھی ادنی خدا کا خیال ہے جو جنت دوزخ بنا کر بیٹھے ھوئے احمق اور طیش سے بھرے بُڈھے کی صورت کا خیال ہے۔جسکو گناہ گار انسانون کو دوزخ میں پھینکنے اور نیکوکاروں کو کنواری عورتیں دینے کے سوا کوئی خوف یا لالچ معلوم نہیں۔ ایسے خدا نے جب انسان کو اشرف المخلوق قرار دیا ہے تو پھر خلائی مخلوق کی گاڑی اور اسکی کارستانیاں انسانوں کے لئے ھیچ ھونی چاھئیں۔اور انسان کو غالب آنا چاھئیے۔۔لیکن کیا کیا جائے کہ مذھب بیچارہ خود ھی متضاد سوچ کا کنفیوذ خدا رکھتا ھے جس نے جن بھی بنائے آگ سے۔۔۔۔جو سلیمان کا تخت ایک پل میں اسکے پاس لے آئے۔
تیسرا زاویہ یہ ہے کہ کیا یہ روشنیاں یا خلائی جہاز وغیرہ۔۔۔کہیں خدائی طاقت کے مظاہر نہ ھوں؟
آئیے غور پر کرتے ہیں کہ حیاتیاتی نظام میں نام نہاد خدا یا خدائی طاقتوں نے کیا کبھی حیاتیاتی نظام چلانے کو اعلی ترین طبیعاتی فلکی مقناطیسی میدانوں کو استعمال کیاہو؟ ھم دیکھتے ہیں کہ کیمیائی تعامل کثرت سے انسانوں جانوروں اور پودون میں استعمال ھوتے ہیں۔ مگر بہت مقامات پر حیاتیاتی طاقت۔۔۔ طبیعاتی یا فزکس کے اصولوں کی مکمل غلام ہے اور کسی بھی جگہ کسی بھی طور پر کائنات کے فلکیاتی اور طبیعاتی نظاموں پر کسی فنکشن کی وجہ سے کسی کاریگری سے تسلط نہین پا سکی۔
مثلاً انسانی فوطے اس لئے جسم سے باھر آتے ہیں کہ اندر کی زیادہ گرمی سپرمز کو مار نہ دے۔ یعنی ایسا نظام نہ بنا سکا کہ سپرم اندر ہی رھتے
فالتو عضو باھر لٹکانے کی کیا ضرورت تھی؟

All mammals have the nerve, and as a result of our fishy ancestry, in all mammals, the nerve goes down the neck, through a heart blood vessel loop, and back up. In fish, of course, the distance is shorter — fish have no necks.
ڈاکٹر رچرڈ ڈاکنز سے سائینسدانوں کے ایک بڑے ھال میں ایک نمائش کی اور ایک زرافے کے دماغ سے حلق میں آنے والی اور پھر واپس آنے والی نرو ٹیوب کو دکھایا۔
laryngeal nerve
دماغ سے نکل کر جانداروں کے حلق میں آتی ہے انسانوں میں اور مثلاً مچھلیوں میں یہ نرو دماغ سے گلے میں آ کر واپس جاتی ہے لیکن راچرڈ ڈاکنز اسے کاپی پیسٹ ڈیزائن کی خرابی کہتا ہے کہ ذرافے میں یہ نرو ٹیوب دماغ سے نکل کر لمبی گردن سے ھوتی ھوئی دل کے قریب سے یوٹرن لیکر واپس دماغ میں چلی جاتی ہے۔جبکہ ھرگز اسکی کوئی طبی ضرورت نہیں تھی۔
اس سے پتہ چلتا ھے کہ خدائی طاقتوں یا طاقت نے کیمیائی تعاملات کو حیاتیاتی سلسلے میں رایج کرنے میں مکمل کامیابی نہیں پائی کچھ خامیاں موجود ھیں۔ جو ھر سال لاکھوں معزور انسانوں معزور درختوں ، معزور پرندوں اور معزور جانوروں کی ناقص پیدائیش کا باعث ہے
یونیسیف کے مطابق اس وقت دنیا میں 240 ملین معزور بچے ہیں
اب سوچیں کہ یہ تعداد پاکستان کی آبادی سےبھی زیادہ ہے۔اگر بالغ اور معزور بچے شمار کریں تو تعداد 1300 ملین سےبھی زیادہ ھوگی۔ یعنی کُل انسانی آبادی کا چھٹا حصہ معزور ہے؟ کیا خدائی ڈیزائینگ نقایص سے عاری ہے؟ نہیں ھرگز نہیں
۔۔پس ۔ خدا کی اس ڈیزائینگ کی خامی کے باقصف ھم کہہ سکتے ہیں کہ ھمارے خداوں یا خدا کی ھم سے بہتر کسی خلائی مخلوق کا تصور درست نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیع رضا
کینیڈا
www.silsla.com

پاکستانی ھیروز اصلی یا نقلی۔۔۔ انسانیت کے قاتلَ؟
صلاح الدین ایوبی کی تاریخ۔۔۔
علی دشتی کی کتاب 23 سال۔۔۔۔بہت اھم کتاب
قران کے ممکنہ مصنفین کون کون ھو سکتے ھیں؟
یہ ایک تاریخی پس منظر سے جزوی تحقیق ہے
اعلی ذوق، فحاشی، گندی تصویر یا قدرتی حسن
اعلیٰ ذوق، ادنیٰ ذوق

"یہ کیا واہیاتی اور فحش پن ہے؟ میرا سوال یہ ہے کہ آخر اس گندی تصویر کی وجہ ہی کیا ہے؟ کیا آپ کو شرم نہیں آتی کہ ایسے اخلاق باختہ اور عریاں مناظر دیکھتے ہیں؟ آخر آپ کس وضع کے انسان ہیں؟” یہ اور اس جیسے بہت سے چبھتے ہوئے سوال متوقع ہیں۔
لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا سچ میں یہ تجسیم اخلاق باختہ اور فحش ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ مجسمہ "عصمت” یا "حیاء” سے موسوم ہے۔ اس کا ایک اور نام "چھپا ہوا سچ” بھی ہے۔ اسے سین سیورو کے اطالوی شہزادے، ریمونڈو ڈی سینگرو نے اپنی مرحوم ماں سسیلیا، جنہیں وہ بےنظیر ماں کہا کرتے تھے، کی یادگار کے طور پر بنوایا تھا۔
اس مجسمے کو اٹلی کے شہر نیپلز کے چیپل آف سین سیورو میں نصب کیا گیا ہے۔ شہزادے کی ماں کا انتقال اس وقت ہو گیا تھا جب وہ ایک نوجوان خاتون تھیں اور شہزادہ ابھی بہت چھوٹا تھا۔ دلچسپ سوال یہ ہے کہ اس طرح کا مجسمہ قبرستان کی ایک ایسی عبادت گاہ میں کیوں لگایا جائے گا جہاں مسیحی اپنے مردے دفناتے ہیں اور ان کی بخشش کے لیے عبادت کرتے ہیں؟ پھر ایک شہزادہ کیوں یہ چاہے گا کہ اس کی مرحوم ماں کا جوان جسم نمائش کے لیے لگایا جائے تاکہ فوت شدگان کی آخری رسومات کو آئے لوگ اس مجسمے کی زیارت کر سکیں؟
سنگ مرمر کا بنا ہوا یہ مجسمہ چلنے کی حالت میں ہے، جس کا وزن دوسرے پاؤں سے پہلے سے زیادہ ہے۔ اس طرز قیام سے اس کو انسانی وصف اور حرکت کا تاثر ملتا ہے گویا وہ حرکت میں ہے۔ اس کی نفیس چادر، جو بذات خود سنگ مرمر کی بنی ہے، جس طرح سے اس کے جسم پر پڑی ہے وہ بھی اس کے حرکت میں ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کی توجہ ناظرین سے پرے ہے، اور شفاف پردے نے اس کی آنکھیں ڈھکی ہوئی ہیں۔
اس کا انداز مدعو کرنے والا ہے۔ تاہم، اس کا چہرہ ایک الگ کہانی کہہ رہا ہے۔ اس کے پستانوں کو زیادہ ابھارنے کے لیے پردے کا استعمال ہنرمندی کا اعلیٰ ثبوت ہے۔ اس کے پیٹ کے وسطی حصہ میں پڑنے والے کومل گڑھے اس کے پٹھوں کے تناؤ اور جسم کے آہنگ کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے زیر ناف حصے کو گہنا دیا گیا ہے تاکہ یہ بالواسطہ جنسی تحرک کا مؤجب نا ہو۔ اس کا ملائم جسم تقریبا سیال ہے جیسے اس میں ہڈیاں نا ہوں اور وہ ایک ہموار اور کامل انسان ہو۔ ان مثالی خصوصیات سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا کی نہیں بلکہ ایک الوہی عورت ہے۔
یہاں، فنکار، انٹونیو کوراڈینی، جو کہ مقدس رومی شہنشاہ چارلس پنجم کے شاہی مجسمہ ساز تھے، عورت کے جسم پر فطری خوبصورتی سے رکھے ہوئے پردے کی تشکیل میں ایک کمال حاصل کرتے ہیں۔ اس مجسمے کا واحد مقصد سیسیلیا کی یاد منانا نہیں ہے بلکہ پردہ دار عورت کو حکمت کا محور سمجھا جاسکتا ہےنیز پردہ کی شبیہ سچ کی بہت عمدہ وضاحت کرتی ہے۔
اگرچہ اس عورت کا پردہ اس کی چھاتیوں، پیٹ اور چہرے سے قریب تقریباً شفاف ہے،تاہم اسرار اور انکشاف دونوں کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔ پردہ غیر منقول ہے، جو کامل وضاحت کو ناقابل حصول بنا دیتا ہے۔ ناقابلِ رسائی ہونا سب کچھ دیکھنے کی آرزو پیدا کرتا ہے، پردہ پکڑنے کی خواہش، اسے ہٹا کے نیچے دیکھنےکی جستجو، کہ نیچے کیا ہے۔
اس کا جسم آنکھوں میں کھینچتا ہے، اور اس کی پرکشش ہئیت کا بہت تھوڑا سا حصہ چھپا بھی رہتا ہے کیونکہ پردہ ابھی بھی اس کو ڈھانپ دیتا ہے، جس سے رومانویت اور رواداری کے درمیان توازن پیدا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب دیکھنے والا عورت کے بارے میں عمیق مشاہدہ کرتا ہے تو بھی، وہ ایک طرف دیکھتی رہتی ہے، جیسا کہ حتمی فیصلہ کر چکی ہو کہ ناظرین کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ اصل میں کون ہے۔
اس مجسمے کے حوالے سے سچائی کا تصور انتہائی دلچسپ ہے۔ سچ کی نزاکت کا ایک عنصر خود پردے کی بھی پیچیدہ تفصیل میں دکھایا گیا ہے۔ پردہ کی لطافت، سچائی کی نزاکت کو بتاتی ہے کہ سچ کتنا شفاف ہوتا ہے اور اتنی ہی آسانی سے پراگندہ ہوسکتا ہے۔ اس فن پارے نے سچائی کی نوعیت کے بارے میں اہم سوالات اٹھائے ہیں، کیا آفاقی سچ کبھی واقعی واضح بھی ہوتا ہے یا پھر یہ ہمیشہ مہین سے پردے میں ملفوف رہتا ہے۔ بادی النظر میں یہ عورت سچائی کا ایک نمونہ ہے، سچائی جو ایک پرکشش ساتھی ہے، جو نظر سے قریب بھی ہے لیکن کبھی بھی پوری طرح سے بے نقاب نہیں ہوتی۔
اسی حوالے سے ایک مزید پہلو آفاقی سچائیوں کی کشش کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سچ ہمیشہ پرکشش ہوتا ہےمگر اس تک رسائی بلاواسطہ نہیں ہوتی۔ سچائی کبھی بھی اپنا آپ آسانی سے آشکار نہیں کرتی بلکہ اس کے لیے جدوجہد بنیادی شرط ہے۔ اس خوبصورت عورت کا دیکھنے والے سے براہ راست نظریں نا ملانا ایک انتہائی گہرے پیغام کا حامل ہے کہ کامل حقیقت قریب قریب ناقابل دریافت ہے۔ اس کے کھڑے کھڑے سر پستان حق کی کشش کو واضح کرتے ہیں کہ حق سب سے زیادہ پرکشش ہوتا ہے مگر اسی رعایت سے اس تک رسائی بھی آسان نہیں ہوتی۔
اس مجسمے کے ممالیاتی غدود ایک اور پہلو بھی اجاگر کرتے ہیں جو کہ جسم کا فحاشی سے تعلق ہے۔ جیسا کہ مذکور ہے کہ یہ مجسمہ ایک ماں کی یادگار کے طور پر ایک عبادت گاہ میں لگایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ مسیحیوں میں بتوں کی پوجا نہیں ہوتی چنانچہ یہ مجسمہ مسیحی قبرستان کی ایک عبادت گاہ میں حصول برکت کے لیے رکھا گیا ہے۔ اس مجسمے کی مدد سے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ جنسی اعضاء فحاشی کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ جسم تو جمالیاتی پہلووں کو اجاگر کرتا ہے نیز جنسی اعضاء کا تعلق افزائش اور خوشحالی سے ہے۔
اچنبھے کی بات ہے کہ ماں جیسی پاکیزہ ترین ہستی کے جنسی اعضا کو چھپانے کی کوشش نہیں کی گئی؟ کیا ایک لمحے کے لیے بھی تصور کیا جا سکتا کہ ایسے سنجیدہ موقع پر جہاں فن کار کی ساری کاوش ستائش و فہمائش کی بجائے آرائش و زیبائش میں سمٹ آئی ہو، وہاں اسے جنسی لذت کا خیال کیسے آ سکتا ہے؟ اور خصوصاً جب کہ وہ اپنے جذبوں کا اظہار نہ کر رہا ہو بلکہ ولی عہد نے ایک اہم فرض اس کے سپرد کیا ہو۔ ایسے مقام پر صرف ایسے لوگوں کا ذہن جنس آلود ہو سکتا ہے جو جمالیاتی احساس سے عاری اور چھچھورے پن کا شکار ہوں۔
برہنہ جسم دیکھنے اور دکھانے کے لیے بڑی فنکارانہ قوت، سنجیدگی اور گہرے اخلاقی و روحانی احساس کی ضرورت ہے۔ جسم اور بالخصوص جنسی اعضاء کو پاک سمجھنا غالباً سب سے مشکل مسئلہ ہے جو انسانی ضمیر کے سامنے آ سکتا ہے۔ جسم کو روح کے برابر پاکیزہ اور لطیف محسوس کرنا ایک ایسا مقام ہے جو فرد اور قوم دونوں کو تہذیب کی انتہائی بلندی پر ہی پہنچ کر حاصل ہوتا ہے۔
مجسمہ ساز نے یہاں بجائے غیر ضروری تقدس پیدا کرنے کے ایک بےساختگی دی ہے۔ وہی بےساختگی اور شگفتگی جو طمانیت کا اعادہ کرتی ہے۔ حالانکہ مجسمہ حرکت نہیں کرتا مگر سکون کا تحرک ضرور پیدا کرتا ہے اور یہ سکون اور ہم آہنگی ہی انسانی ترقی کا استعارہ ہے۔
یہاں پریشان کن بات لذت کا تصور اور گندگی ہے۔ جنس اور جنسی اعضاء ہمیشہ لذت سے جڑے رہے ہیں اور رہبانیت پسند معاشروں میں دنیاوی لذت کی اکثر چیزیں بالعموم ناپسندیدہ ہی گردانی جاتیں ہیں چنانچہ جنس بھی امر ممنوعہ سمجھی جاتی ہے۔ حالانکہ سچائی اور حکمت کا جس طرح کامل اظہار اس فن پارے نے کیا ہے وہ شاید ایک ہزار وعظ بھی نا کر پائیں تب بھی اکثریت کے نزدیک یہ مجسمہ فحاشی و گندگی کا غماز ہو سکتا ہے۔
ایک فرد کی حیثیت سے ، وہ عورت اپنے واہموں کا شکار ہوسکتی ہے، اس کی نظر اس کی انتہائی شائستگی کی وجہ سے پرے ہے، جو دور خلا میں سچائی کی تلاش کر رہی ہے، لیکن اس تلاش حق کے باوجود وہ اپنا پردہ نہیں جھٹکتی مبادا وہ خود پہ ایک نظر ہی ڈال سکے۔ اس نے نہ صرف ایک تجریدی معنی میں سچائی کی نوعیت پر سوال اٹھایا بلکہ ہمیں مناہی اور خوف سے نجات دیتے ہوئے یہ جاننے کے لئے اکسایا ہے کہ ہم واقعی میں کون ہیں؟
خیر، آپ غیر ضروری طوالت کو معاف رکھتے ہوئے پہلے پیرے پر غور کریں۔ اگر اس مجسمے کو دیکھتے ہی آپ کے ذہن میں بھی یہی تشکیک پیدا ہوئی تو مبارک ہو، آپ نے اعلیٰ ذوق کی طرف سفر کا آغاز کر دیا ہے۔

قرآن، کے قدیم نسخے، قران کب لکھا گیا؟
قرآن کو بارے میں غیر مذھبی، اور خالص سائینسی تحقیقات کے مطابق ابتدائی قرانی ٹکڑوں میں پرانے انبیا کے بارے آیات تو موجود ھیں لیکن محمد صآحب کے بارے نہیں، مدینہ یا مکہ کا کوئی تذکرہ نہیں کہ معلوم ھو کہ یہ تحاریر کب کی ہیں،،،۔ بعد میں ان سے متعلق مواد بھی ھے۔
تحقیق کے مطابق نسخہ کا میٹیریل کتنا پرانا ھے کا اندازہ لگانے والوں نے اُسے اسلام سے بھی کچھ پہلے کا بھی مانا ھے۔کچھ نے محمد کی ولادت سے پہلے اور کچھ نے قریب و بعد ولادت کاربن ڈیٹنگ کی تواریخ نکالی ہیں۔
اس بارے سچی تحقیق کسی مذھبی یا خاص مسلمان سے کی جانے کی امید رکھنے والے بیوقوف ھونگے کیونکہ وھاں ایمان کی بنیاد پر تحقیق کی جائیگی جو کہ سائینسی رویہ یا طریقہ نہیں ھے ،،اسکے لئے بےلاگ بے ایمان سائینسی لوگ ھی مدد دے سکتے ھیں۔

۔
ھمیشہ سائینس میں بھی مستشرقیں و ملحدین وغیرہ سے مدد لینا پڑتی ھے۔کیونکہ ان سے ھمیں بغیر ایمان کے سچی تحقیق کی امید ھوتی ھے۔۔
برمنگھم کی لائیبریری میں موجود تین چوتھائی سے کم حصہ والے اس قرانی نسخوں اور موجودہ یا بعد کے قرآنی نسخوں کی طوالت اور آیات و مضامین میں مماثلت موجود ھے۔
ابوبکر کے بارے کافی خیال کیا جاتا ھے کہ اصل مصنف وہ بھی ھو سکتے ھیں۔ کیونکہ وہ ہی محمد کے قریب ترین ساتھی رھے ھیں۔
پھر سب سے اھم بات یہ ھے کہ عثمان نے سارے دوسرے نُسخے کیوں جلائے؟ اگر فرق نہیں تھا؟ یہ بات ایسی ھے کہ اس کو کسی صورت بھی رد کرنے والے مسلمان سے مزید بحث کرنا احمقانہ ھوگا۔۔یہاں اُسکا اور تحقیق کا میدان الگ ھوجاتا ھے۔
معلوم ھوتا ھے عثمان کے دور میں ایسے نسخوں مین بہت زیادہ فرق تھا جسکی وجہ سے اُن نسخون کو جلا دیا گیا۔۔تاھم اس سے پہلے یا بعد میں کچھ اور نسخے جن کے مضامین الگ تھے وہ کچھ لوگوں نے کہیں چھپا دئیے کسی مٹی کے یا آھنی مرتبان میں محفوظ کر دئیے ۔۔جو مختلف قریبی ممالک کی کھدائیوں میں بار بار دریافت ھوئے ھیں۔
یمن سے خاص طور پر کئی نمونے ملے۔۔۔یمن سے کیوں مِلے؟ اس سے پتہ چلتا ھے کہ یمن کے اُن ادوار کے بادشاھوں کا بھی اس میں حصہ ھوگا۔۔۔جنہوں نے پہلے مسلمانوں کو پناہ دی ۔۔یا مِلکر یہ قرآنی منصوبے بنائے۔۔
سائینسی سکالرز کے مطابق ایسے قرآنی نسخوں میں جو کہ کسی جانور کی کھال پر لکھے ملتے ھیں۔ بسا اوقات ایک تحریر کے نیچے سے اور مختلف مضمون و معانی کی تحریر جا بجا ملتی ھے جس سے پتہ چلتا ھے۔ کہ مضامین میں ترامیم تھیں،،اسی لئے عثمان کے دور میں سب کو مِلا جُلا کر جو قرانی ترتیب بنائی گئی اسے نافذ کرنے کی زبردستی کوشش کے نتیجے میں باقی انفرادی قرآنی نمونے جلا دئیے گئے۔۔اور ممانعت کی گئی کہ باقی طرح کے قرآنی نمونے نہ استعمال ھوں،
برمنگھم یونیورسٹی لندن انگلینڈ میں عرب ممالک سے قدیم پارچات کی کھدائیوں کے دوران ملنے والے اس جزوی قرآن، کے بارے تحقیق کی گئی تو مختلف کارب ڈیٹنگ نتائج معلوم ھوئے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریڈیو کاربن ایکسلریٹر یونٹ کے ذریعہ کئے گئے یہ ٹیسٹ ، بتاتے ہیں کہ یہ ٹکڑے ، جو بھیڑوں یا بکریوں کی کھال پر لکھے گئے تھے ، قرآن کریم کی قدیم زندہ عبارتوں میں شامل تھے۔ یہ ٹیسٹ بہت سی تاریخوں کی تاریخ فراہم کرتے ہیں ، جس میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ
سنہ 568 سے 654
تک اسکی عمر ھو سکتی ھے
یونیورسٹی کے عیسائیت اور اسلام کے پروفیسر ڈیوڈ تھامس نے کہا ، "وہ اسلام کے اصل بانی چند سالوں میں ہمیں اچھی طرح سے واپس لے جاسکتے ہیں۔
پروفیسر تھامس کے مطابق ، فولیوز کی ڈیٹنگ کا بھی بہت اچھی طرح سے مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ قرآن پاک لکھنے والا شخص شاید زندہ رہتا تھا اور حضرت محمد (ص) کی تبلیغ سنتا تھا۔
واقعتا. جس شخص نے یہ لکھا تھا وہ محمد کو اچھی طرح سے جان سکتا تھا۔ شاید وہ اسے دیکھتا ، شاید اس نے اسے تبلیغ کرتے ہوئے سنا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اسے ذاتی طور پر جانتا ہو – اور یہ واقعی اس کے ساتھ قابو پانا کافی سوچ ہے۔
،،
محقق کی اس تحقیق سے کاتیبین وحی یا مصنفین قرآن کی جانب وجہ جاتی ھے۔میرا ذاتی خیال اور تحقیق کے بتاتی ھے۔ کہ ابوبکر یعنی ابن قحافہ کا حسہ بہت زیادہ ھوگا۔جبکہ عمر نے بعد میں کچھ مضامین کو شامل کروایا جن میں شراب کی ممانعت وغیرہ شامل ھے۔
برمنگھم کے ان مخطوطات میں دو اوراق ہیں۔تحقیقی نگار نے صرف 33 ممضامین یا جملوں کا بعد کے قرآنی نسخون سے موازنہ کیا تو معلوم ھوا کہ قران کے آدھے سے کچھ زیادہ جملے یا آیات نامکمل ، ٹوٹے پھوٹے، یا مضمون کی کافی تبدیلی والے یا مختلف ھیں۔
برمنگھم کے ان نسخوں پر دو سکالرز سے لیکچرز کی درخواست کی گئی۔۔یہ 2015 کا واقعہ ھے۔
اسے برمنگھم فریگمینٹس شو کا نام دیا گیا۔۔
روسی سکالر ایفین ریزوان۔۔۔۔۔نے
بتایا کہ
“The very early dating of all these fragments-before the reign of Uthman-casts doubt on *both the Islamic tradition” *refer to the next section
“The fact that the folios were kept for centuries in an iron box, underground can partly explain the early radiocarbon dating”
“Parchment was an expensive material (the skin of an entire animal was used to produce the big folio). Monastic and state scriptoria, located on the territory of Greater Syria, Antiochia, al Hira and Alexandria areas, could store this valuable material (including the donations of the pious laity).
یعنی یہ شام سے مِلے کسی جانور کی مکمل کھال پر لکھے گئے ہیں،اور کسی آھمی مرتبا میں بہت لمبا عرصہ تک چھپائے گئے۔
۔
These stocks became part of the loot captured by the Arabs in the first years of the conquest. Captured leaves were used for writing the Quran.”
اب مسئلہ یہ ھےکہ جانور کی کھال جس پر لکھا گیا وہ تو بہت پرانی ھے کیوں کہ مسلمانوں نے جب شام کو تاراج کیا اور لُوٹا تو یہ پارچات یعنی اَن لکھے پارچات انکے ھاتھ لگے۔۔۔اب ان پارچات پر کب لکھا گیا یہ معلوم نہیں۔۔ ظاھر محمد کے زمانے میں لمبی تحاریر لکھنے کے لئے عربوں کے پاس مہارت موجود نہیں تھی۔
Conclusion; is that we cannot know when the writing took place as the carbon dating only gives a time line to the animal skin, not the writing, and the parchments were written on at a much later date.
Emilio Platti; “pointing out differences to the Sana codex-unquestionably the oldest manuscript (705), which therefore means that this Birmingham fragment is subsequent to the oldest manuscript (Sana).”
جبکہ دوسرے محقق ایمیلیو پلاٹی کے مطابق صنا یا صنعا لکھائی کا طریق قدیم ترین اسلوب 705 عیسوی کا ھے۔۔
جبکہ ایک اور محقق ڈاکٹر جے سمتھ کے مطابق کاربن ڈیٹنگ سے یہ نسخے اسلام سے بھی پہلے کے معلوم ھوئے ھیں۔
اور یہ درآمدہ پرانی کہانیوں کو بدل کر لکھا گیا ھے۔اور بہت سی آیات بائبل اور انجیل وغیرہ سے کچھ تبدیلی کیساتھ یہان لکھ دی گئی ھیں۔ لیکن کسی میں بھی مدینہ، مکہ۔۔اور محمد کا ذکر حیرت انگیز طور پر نہیں موجود ھے۔
Dr. Jay Smith; the verses found on the Birmingham text pre-date Islam, examples and are plagiarised stories;
Sura 18:17-31; = the 7 sleepers of Ephesus (Metaphrastes & Surag 521 A.D.)
Sura 19: 91-98 = Proto Evangelium of James (145 A.D.)
Sura 20: 1-40 = the story of Moses (1400 B.C.)
None of the verses cover Mohammed, Medina, or Mecca, and there is nothing to do with the Caliphs7
۔۔۔۔
برٹش لائبریری کے ڈاکٹر محمد عیسیٰ کا کہنا ہے کہ واضح لکھائی میں حجازی لکھائی میں لکھے گئے یہ نسخے یقینی طور پر پہلے تین خلفا کے زمانے کے ہیں یعنی 632 اور 656 کے عرصے کے۔ ڈاکٹر محمد عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ مسلمان اس وقت اتنے امیر نہیں تھے کہ وہ دہائیوں تک کھالوں کو محفوظ کر کے رکھتے اور قرآن کی ایک مکمل نسخے کے لیے کھالوں کی بڑی تعداد درکار تھی، یہ نسخہ 3000 سے زیادہ مشرق وسطیٰ کے دستاویزات کے مسٹر منگانا مجموعے کا حصہ ہے جو 1920 کی دہائی میں جدید کےعراق کے شہر موصل سے پادری الفونسے منگانا لائے تھے،
برمنگھم یونیورسٹی میں ملنے والے قرآن کریم کے صفحات 1370 سال پرانے ہیں اور یہ ایک زمانے میں مصر میں فسطاط میں واقع دُنیا کی قدیم ترین مسجد عمر بن عاص میں رکھے ہوئے تھے۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ماہرین کو تقریباً یہ یقین ہو گیا ہے کہ یہ صفحات پیرس میں فرانس کی نیشنل لائبریری ’ببلیوتھک نیشنل دی فرانس‘ میں رکھے قرآن شریف کے صفحات سے ملتے ہیں۔
۔

لائبریری اس بارے میں قرآن کے تاریخ دان اور کالج دی فرانس میں معلم فرانسوا دریچو کا حوالہ دیتی ہے جنھوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ برمنگھم میں ملنے والے صفحات اور پیرس کی لائبریری میں رکھے ہوئے صفحات قرآن شریف کے ملتے جلتے نسخے کے ہیں۔
برمنگھم یونیورسٹی کی دستاویزت میں قرآن کے صفحات تلاش کرنے والے محقق البا فدیلی کا بھی یہی کہنا ہے کہ پیرس اور برمنگھم یونیورسٹی میں موجود صفحات ایک ہی نسخے کے ہیں۔
پیرس کی لائبریری میں رکھے ہوئے صفحات کے بارے میں علم ہے کہ یہ فسطاط میں مسجد عمر بن عاص کے قرآن شریف کے نسخے کے ہیں۔
پیرس کی لائبریری کے صفحات انیسویں صدی کے اوائل میں نپولین کی فوج کے مصر پر قبضے کے دوران وہاں تعینات وائس کونسل ایسلین دی چرول یورپ لائے تھے۔
پروفیسردریچو کا کہنا ہے کہ ایسلین دی چرول کی بیوہ نے یہ نسخہ اور کچھ اور قدیم دستاویزات برٹش لائبریری کو سنہ 1820 میں فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن یہ پیرس کی نیشنل لائبریری کو مل گئے اور جب سے اب تک یہ وہیں محفوظ ہیں۔
اسی دوران کچھ حصے نکال لیے گئے جو بعد میں فروخت کر دیے گئے۔ قیاس یہی ہے کہ متعدد بار فروخت ہونے کے بعد یہ صفحات ایک عراقی پادری ’ایلفاس منگانا‘ کے ہاتھ آئے۔ وہ مشرق وسطی میں نوادرات اکٹھا کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ جایا کرتے تھے جن کا خرچہ برطانیہ کا کیڈبری خاندان اٹھاتا تھا۔
پروفیسر دریچو کا کہنا ہے کہ اس بات کے کوئی سرکاری شواہد موجود نہیں رہے لیکن اس طرح مسٹر منگانا کو فسطاط کے خزینے کی چند دستاویزات ملی ہوں گی۔ منگانا کو انہی گراں قدر علمی خدمات کے عوض ’لیجن آف آنر‘ کا اعزاز دیا گیا۔
۔۔
اب ان دلائل اور تواریخ کے بعد ھم اصل منشا کی جانب چلتے ہیں، جس میں قرآن کے بارے میں دعوی جات کی فہرست بنائیں اور ھر ایک کا شافی جواب بھی تلاش کریں، لیکن ھمارا رویہ ایمانی نہیں ھوگا درسی و تدریسی و تحقیقی ھوگا۔کیونکہ پہلے بھی لکھ چکا ھُوں کہ ایمان کے ذریعے کسی بھی معاملے میں تحقیق جھوٹ کی ملاوٹ لازمی رکھتی ھے۔
۔۔۔
آئیے اب سوالوں کی فہرست بناتے ہیں۔
قران کب بنایا گیا،
قران کب لکھا گیا
قرآن نبی پر اترنے کے دعوے کو ھم چھوڑ دیتے ھیں اور اسے سچ مان لیتے ھیں، تاکہ جھگڑا کھڑا نہ ھو کیونکہ ھمارے پاس کوئی ایسا طریقہ نہیں ھے کہ ھم معلوم کرسکیں کہ واقعی وحی کوئی چیز ھوتی ھے اور محمد پر وحی نازل ھوتی رھی، یا انہوں نے دوسروں کی مدد سے قرآنی آیات تشکیل دیں۔
ھم تحقیق کرتے ھیں کہ
قران کب بنایا گیا۔۔
قرآن کب لکھا گیا
قران کی ترتیب کیا ایسی ھی اتری یا تبدیل ھوئی
قران کی ترتیب کیوں بدلی؟ کس نے بدلی؟ کب بدلی؟
کیا قرانی نسخے جو بھی دریافت ھوئے ھیں ان میں بہت جگہ جو فرق موجود ھے وہ کیا بتاتا ھے؟
ابتدائی قران میں کیا کچھ نہ تھا اور کیا کچھ بعد میں شامل کئے جانے کا امکان ھے؟
پیٹریشیا کرون میری طرح یہ سوال اٹھاتی ھیں کہ۔۔
Patricia Crone, a widely acknowledged expert on early and medieval Islam:wrote !
We can be reasonably sure that the Quran is a collection of utterances that [Muhammad] made in the belief that they had been revealed to him by God … [He] is not responsible for the arrangement in which we have them. They were collected after his death—how long after is controversial!
یعنی ھم شواھد کی مدد سے یہ نتیجہ تو نکال سکتے ھیں کہ قرآنی لکھت محمد کے مطابق اُن پر اترنے والی آیات ہیں، لیکن محمد، اُس ترتیب کے ذمے دار نہیں ہیں جس میں یہ اب موجود ھے !۔۔
یعنی قران کی آیات اور پاروں اور سورتوں کی ترتیب محمد کی بنائی ترتیب کسی صورت نہیں ھوسکتی،،۔۔یہ کب بنائی گئی ؟ کیوں بنائی گئی؟یہ ھے اگلے سوالات !۔۔۔
اوپر کے سوالوں میں سے دوسرے سوال کا جواب کہ قرانی کی یہ ترتیب ممکنہ طور پر کب بنائی گئی کا جواب محققین نے ڈھونڈ لیا ھے اور برمنگھم کے نسخے اور فرانس میں موجود نسخے کے تقابل سےمعلوم ھوتا ھے کہ محمد کی موت کے بعد قران کو ترتیب دیا گیا کیونکہ اس سے پہلے یہ سہولت موجود نہ تھی کہ ھزاروں جانوروں کی کھالوں پر اسے لکھ کر محفوظ کیا جا سکتا ، یہ ھنر پہلے عربوں کے پاس نہیں تھا ، جب عربوں نے پہلے رسول کے اخری وقت اور بعد موت کے دوسرے ممالک پر قابضانہ حملے کئے تو مال و متاع کے ساتھ وھاں سے مختلف ھنر بھی انکے ھاتھ لگے، کھالیں محفوظ کرنے کا ھنر اور محفوظ شُدہ کھالیں مِلیں جن پر لکھا جا سکتا تھا۔کچھ لوگوں نے اپنے طور یہ کام کیا۔لیکن ھر ایک متن مختلف تھا۔ جیسے برمنگھم کے نسخے میں مدینہ مکہ محمد وغیرہ کے بارے کوئی معلومات نہیں ہیں۔
تحقیق کاروں کے نزدیک سب سے پرانا مکمل کے قریب نسخہ عثمانی قران کے طور پر مشہور ھے۔عثمان کا دور محمد کے مرنے کے 20 سال بعد کا دور ھے۔۔
اسی قرآنی نسخے کو تاشقند نسخہ یا ثمرقند نسخہ بھی کہتے ہیں، یہ مسخہ اصلی نسخے کے ایک بٹا تین حصے کے برابر محفوظ ھے۔
دوسرا قرآنی نسخہ صنا نامی نسخہ ہے۔جسکی کاربن ڈیٹنگ 578 سے 669 تک ہے۔۔
۔Results from radiocarbon dating from a Sana Quran parchment
indicate that the parchment has a 68% probability of belonging to the period between AD 614 to AD 656. It has a 95% probability of belonging to the period between AD 578 and AD 669 (Behnam Sadeghi; Uwe Bergmann, “The Codex of a Companion of the Prophet and the Qur’ān of the Prophet,” Arabica, Volume 57, Number 4, 2010, p.348.)
The Sana palimpsest is not only significant because it is one of the oldest Qurans in existence. It’s also significant because the top layer (the text written over what was erased) is the text of the standard Uthmanic version of the Quran. Beneath this standard Uthmanic version (the part that was erased) is a non-Uthmanic version of the Quran.
یہاں اب نہایت ضروری بات یہ ھے اوپری سطح کو مِٹا کر دیکھا گیا کہ نیچے کی سطح پر غیر عثمانی ورژن کا قرآن تھا جسے مِٹا کر اوپر کی سطح پر عثمانی طرز کا قرآن لکھا گیا ھے۔اب یہ سائینسی دریافت ثبوت کے ساتھ موجود ھے۔کوئی مخالفانہ بیان نہیں ھے۔
۔۔۔
اسلامی نکتہ نظر والے محقق اس بارے مندرجہ ذیل رائے رکھتے ھیں۔
Muhammad Mustafa Al-Azami, Professor Emeritus at King Saud University, argues that the following list of manuscripts “have been conclusively dated to the first century A.H.”
- A copy attributed to Caliph Uthman bin Affan. Amanat Khizana, Topkapi Saray, Istanbul, no.1.
- Another copy ascribed to Uthman bin Affan. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no.208. This copy has some 300 folios and it is missing a portion from both ends.
- Another ascribed to ‘Uthman bin ‘Aflan. Amanat Khizana, TopkapiS aray, no. 10. It is only 83 folios and contains notes written inthe Turkish language naming the scribe.
- Attributed to Caliph ‘Uthman at the Museum of Islamic Art, Istanbul. It lacks folios from the beginning, middle and end. Dr. al-Munaggid dates it to the second half of the first century.
- Attributed to Caliph ‘Uthman in Tashkent, 353 folios.
- A large copy with 1000 pages, written between 25-31 A.H. at Rawaq al-Maghariba, al-Azhar, Cairo.
- Attributed to Caliph ‘Uthman, The Egyptian Library, Cairo.
- Ascribed to Caliph ‘Ali bin AbI Talib on palimpsest. Muzesi Kutuphanesi, Topkapi Saray, no. 36E.H.29. It has 147 folios.
- Ascribed to Caliph ‘Ali. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no.33. It has only 48 folios.
- Ascribed to Caliph ‘Ali. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no. 25E.H.2. Contains 414 Folios.
- Ascribed to Caliph ‘Ali. Raza Library, Rampur, India, no. 1. Contains 343 Folios.
- Ascribed to Caliph ‘Ali, San’a’, Yemen.
Quran kept at the al-hussein mosque in Cairo, Egypt. Some believe it goes back to Uthman.
Quran kept at the al-hussein mosque in Cairo, Egypt. Some believe it goes back to Uthman.
- Ascribed to Caliph ‘Ali, al-Mashhad al-Husaini, Cairo.
- Ascribed to Caliph ‘Ali, 127 folios. Najaf, Iraq.
- Ascribed to Caliph ‘Ali. Also in Najaf, Iraq.
- Attributed to Husain b. ‘Ali (d. 50 A.H.), 41 folios, Mashhad,Iran.
- Attributed to Hasan b. ‘Ali, 124 folios, Mashhad, Iran, no. 12.
- Attributed to Hasan b. ‘Ali, 124 folios. Najaf, Iraq.
- A copy, 332 folios, most likely from the early first half of the first century. The Egyptian Library, Cairo, no. 139 Masahif.
- Ascribed to Khudaij b. Mu’awiya (d. 63 A.H.) written in 49 A.H. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no. 44. It has 226 folios.
[#21 is missing in al-Azami’s list.]
- A Mushaf in Kufic script penned in 74 A.H. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no.2. It has 406 folios.
- A copy scribed by al-Hasan al-Basri in 77 A.H. The Egyptian Library, Cairo, no. 50 Masahif.
- A copy in the Museum of Islamic Art, Istanbul, no. 358. According to Dr. al-Munaggid it belongs to the late first century.
- A copy with 112 folios. The British Museum, London.
- A copy with 27 folios. The Egyptian Library, Cairo, no. 247.
- Some 5000 folios from different manuscripts at the Bibliotheque Nationale de France, many from the first century. One of them, Arabe 328(a), has lately been published as a facsimile edition.
Al-Azami overstates that these have been “conclusively dated to the first century A.H.” For example, the manuscripts from Topkapi can be dated to the second century A.H. (Islamic Awareness). Several of the manuscripts attributed/ascribed to Uthman probably did not belong to him.
Nevertheless, considering that Muhammad died around 632 AD, these are still old Quran manuscripts.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر ان اسلامی محقق کا دعوی ھے کہ ان مختلف ٹکڑوں میں موجود قرآنی صفحات محمد کی موت کے فوری بعد یا اسی صدی کے قرآنی ٹکڑے ہیں۔
۔۔
اس وقت جو قدیم نسخے کہیں بھی موجود ھیں انکے نام اور تعارف نیچے درج کرتا ھُوں
۔۔۔ پہلا قرآنی نسخہ اسوقت برمنگھم میں موجود ھے۔جو جیسے کہ پہلے بھی بتایا ھے۔ کاربن ڈیٹنگ میں 568 سے 645۔۔۔اور بعض کے مطابق 669 ویں صدی کے قریب ھے۔ اسکی لکھائی حجازی، یا صنا طرز کی ھے۔۔۔
- Birmingham Quran Manuscript
Year Written: c.568 AD – 645 AD
Language: Arabic
Script Type: Hijazi
Current Location: University of Birmingham, Birmingham, England
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا نسخہ جرمنی مین موجود ھے۔ یہ بھی حجازی یا صنا لکھائی میں لکھا گیا ھے۔۔
- Tübingen Fragment
Year Written: c. 649 AD – 675 AD
Language: Arabic
Script Type: Hijazi Current Location: University of Tübingen, Tübingen, Germany
The manuscript has been in the university’s possession since the 19th century when first Prussian Consul to Damascus, Johann Gottfried Wetzstein, acquired several ancient Arabic manuscripts. The research into the fragment’s age was conducted as part of a project funded by the German Research Society (DGF) and the corresponding French institution: Agence National de la recherché (ANR).
یاد رھے کہ کاربن ڈیٹنگ کی سچائی 95 فیصد تک ھوتی ھے۔
تیسرا قرآنی نسخہ یمن سے مِلا اور صنا کہلاتا ھے۔
- Sana’a Manuscript
Year Written: c.671 AD
Language: Arabic
Script Type: Hijazi
Current Location: Great Mosque of Sana’a, Yemen
۔۔۔۔۔
چوتھا قرانی نسخہ
پیریسینو پیٹروپولیٹینس کہلاتا ھے۔
ساتوین یا آٹھویں صفی عیسوی میں لکھاگیا۔۔ اور لکھائی حجازی ہے۔۔ساٹھ اوراوراق پر مشتمل ہے۔اور لندن ویٹیکن کے خلیلی نواردات میں موجود ھے۔۔ - Codex Parisino-Petropolitanus
Year Written: c. late 7th to early 8th century
Language: Arabic
Script Type: Hijazi
Current Location: 70 folios at Bibliothèque nationale de France, Paris; 26 folios at the National Library of Russia in Saint-Petersburg, Russia; 1 folio in the Vatican Library; and 1 folio in Khalili Collection in London
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچواں قرآنی نسخہ کُوفی لکھائی میں ہے اور اس کے بارے غلط مشہور رہا کہ سب سے پرانا قرآنی نسخہ ہے۔۔اس کی کاربن ڈیٹنگ سے یہ 8 ویں صدی کے بعد کا نسخہ ھے۔اور ترکی کے عجائب گھر میں موجود ھے۔
- Topkapi Manuscript
Year Written: c. early to mid 8th century
Language: Arabic
Script Type: Kufic
Current Location: Topkapi Palace Museum, Istanbul, Turkey
۔۔۔۔
چھٹا قرآنی نسخہ ازبکستان میں موجود ھے اور ترکی کے نسخے کی طرح ایمان لانے والے اسے سب سے قدیم سمجھتے تھے مگر یہ بھی 9 ویں صدی کے قریب کا لکھا گیا نسخہ ھے۔ - Samarkand Kufic Quran (Uthman Quran)
Year Written: c.765 AD – 855 AD
Language: Arabic
Script Type: Kufic
Current Location: Hast Imam Library, Tashkent, Uzbekistan
۔۔۔ - Blue Quran نیلا قران نمبر سات،،،،
Year Written: c. late 9th century to early 10th century نویں اور دسویں صدی میں لکھا گیا۔
Language: Arabic
Script Type: Kufic اسکا رسم الخط کُوفی ھے۔
Current Location: Most of it is located in the National Institute of Art and Archaeology Bardo National Museum in Tunis, Tunisia; 67 folios in the Musée de la Civilisation et des Arts Islamiques in Raqqada, Tunisia; 1 folio at the Los Angeles County Museum of Art in California, USA; and the other folios are scattered worldwide at various museums
یہ نسخہ تیونس میں محفوظ ھے۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
سُنی فرقے والے یہ مانتے ہیں کہ قران ابوبکر کے زمانے میں لکھا گیا جو کہ 632 سے 634 کا زمانہ ھے۔۔
تاھم محققین متفق ھیں کہ عثمان کے دور میں جو قرآن عثمان کی نگرانی میں ترتیب دیا گیا وُہ ھی بچا رھا اور باقی مختلف و متعدد نسخے جلانے کا حکم دے دیا گیا تھا۔
جبکہ ایک معروف ترین محقق جون وانزبرگ کے مطابق قرآن کی ترتیب محمد کی موت کے 200 بعد کہیں جا کر قائم کی گئی۔
صناع ، مخطوطے کے بےشمار ٹکڑوں پر لکھے گئے ٹیکسٹ میں 5000 مختلف تبدیلیاں پائی گئیں ھیں۔
جس سے معلوم ھوتا ھے کہ عثمان کے زمانے تک کوئی جاری سکرپٹ موجود نہیں تھا مختلف اسلوب ملے جلے تھے۔۔
گرڈ پیوئن نامی ایک ماھر نوادرات و قدیمی مخطوطات کو یمن کی حکومت نے ایک بہت لمبا پروجیکٹ دیا تھا جس میں یمنی قرآن کے پندرہ ھزار صفحات کو ایک ایک لفظ پڑھ کر پرکھ کر بہتر کرنا شامل تھا۔اسکے کام اور تحقیق سے ابن وراق نامی سکالر نے قرآن پر کافی مواد لکھ رکھا ھے۔ جسمیں میں نے اسلام کیوں ترک کیا بھی شامل ھے۔
ماھر ِ مخطوطات گرڈ پیوئن کے بقول اسنے جو نتائج اب تک نکالے ھیں وہ یہ ھیں
،،،
میرا نظریہ یہ ھےکہ قرآن اصل میں بہت سارے اقوال و بیانات و کہانیوں کا ایسا مجموعہ ھے جسے محمد کے دور میں بھی ٹھیک اور مکمل سمجھا نہیں گیا تھا۔
لکھے ھوئے کلمات اسلام سے بھی کئی سو سالوں پرانے معلوم ھوئے ھیں۔
خود اسلام چلن کے اندر بہت زیادہ متضاد خیالی و متضاد اعمالی پائی جاتی ھے۔
قرآن خود کو کہتا ھے کہ و شفاف، واضح، اور مبین و کُھلا کُھلا ھے، لیکن ھر پانچواں چھٹا کلمہ بے تُکا معلوم ھوتا ھے۔
اندازے کے مطابق قران کا پانچواں حصہ بے معنی و بے تعلقی کا شکار ھے۔اور اسی وجہ سے ھمیشہ سے قرآنی آیات کی تشریح میں شدید اختلافات ھیں جو مبین اور کُھلا کُھلا ھونے کے خلاف دلیل ھے۔اگر اسکو عربی مین بھی ایسی دقت سے سمجھنے کا سوال اٹھتا ھے تو پھر اسے ترجمہ نہیں کیا جا سکتا۔
جو اسکے خود اٹھائے گئے نکتے کہ قران شفاف ھے۔ واضح ھے خواہ مچھر جتنی چھوٹی بات بھی ھو کھول کھول کر بیان کرتا ھے۔ تو خود عربی علما بھی تذبذب کا شکار ھوتے ھیں، جس سے قرآن کی سچائی پر کافی اعتراضات اٹھتے ھیں، جبکہ ایمان لے انے والوں کو آیات کی جو بھی تشریح سمجھائی جاوے وہ اس پر مطمئن رھیں گے،
۔جیسے قرانی حروف مقطعات کا مسئلہ ھے آجتک کوئی بھی ان کی کوئی واضح توجیہہ اور مطالب نہیں بتا سکتا۔
اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ھے کہ ان کوڈ ورڈز کو اُس پرانے زمانے میں شاید سمجھا جاتا ھو لیکن اسلامی تاریخ میں ان حروف کو اُس وقت بھی نہ سمجھا گیا کے موضوع پر احادیث موجود ھیں،،
اغلب خیال یہ ھے کہ چونکہ محمد نے اپنی تحریک کو وسیع کرنے کے لئے دوسروں کو ساتھ مِلانا تھا تو اسی غرض سے انہوں نے یہودیوں، انصاریوں، ، مُشرکوں، عیسائیوں وغیرہ کو خوش کرنے کے لئے ایسے مشترک الفاظ قرآن میں شامل کروائے جن سے اُن گروھوں کی پزیرائی اور نمائیندگی بھی ھو جائے۔
بعض آیات کے منسوخ ھونے کا ذکر بھی تاریخ میں ملتا ھے جس سے پتہ چلتا ھے۔اُن آیات کے بنانے کا مقصد پورا نہ ھونے کی وجہ سے اُنہیں نکال دیا گیا۔
قران کے حروفِ مقطعات، کافروں ، یہودیوں اور مختلف گروھوں کو ساتھ ملانے کے لئے بنائے گئے۔۔کہ دیکھو آپکی ریپریزینٹیشن بھی ھے۔ جیسے الف لام میم۔۔۔ میں پہلے خدا کی ان بیٹیوں کے ناموں کو بعینہُ استعمال کرنے کی بجائے
اعزی ،،الف
لات،،،لام
منات۔۔۔میم۔۔۔۔
بنائے گئے۔۔۔ آیات کی منسوخی ، والے واقعات اسی جانب روشنی ڈالتے ھیں۔جب مخصوص گروہ ان آیات پر راضی نہ ھوئے۔ اسلام کے ابتدائی دنوں میں یہ کوششین رھیں کہ جیسے ممکن ھو سب کو شامل کیا جائے۔۔۔کیونکہ قرآن بنانے والے مصنفین وغیرہ کی ٹیم دوسرے قریبی اور دور کے ممالک کے حالات ، ٹریڈ ٹُورز کے سبب جانتے تھے۔۔اور اس خطے میں بھی قبائل کو جور کر کوئی اتحادی ریاست بنانا چاھتے تھے۔اس لئے پہلے بظاھر مشرکین جو کبھی مشرکین نہیں تھے کو ساتھ ملنے کے لئے کوششین کی گئین۔ اور انکی دلچسپی کے نام شامل کئے گئے۔۔پھر۔۔۔ یہودیوں کو شامل کرنے کے لئے موسی کی تعظیم کی گئی۔۔پھر عیسی کی تعظیم کی گئی کہ عیسائی شامل ھوں۔اگر اسلام پہلے انبیا کو جھوٹا کہتا تو عیسائی یہودی لوگوں میں سے وہ جو ھمہ وقت روحانی تبدیلی کی خواھش رکھتے ھین کم تعداد مین اسلام میں شامل ھوتے۔۔یہ بات غور کر کے سمجھی جا سکتی ھے۔
۔۔۔
سب سے بڑی دلیل جس کا کوئی جواب کسی اھل ایمان کی طرف سے شافی طور پر نہیں دیا جا سکتا وہ یہ ھے۔۔کہ قران اپنے بارے کہتا ھے کہ ۔۔ ھم چھوٹی سے چھوٹی بات کھول کھول کر بیان کرتے ھیں۔تاکہ مخاطب یہ نشانیاں سمجھ سکیں۔۔ لیکن آپ انکے معانی نہ سمجھتے ھیں نہ مسجھا سکتے ھیں۔ اور پڑھے جاتے ھیں جیسے کوئی منتر تنتر ھوں
2000 سال کے بعد بھی یہ حروف مقطعات کا نہ سمجھا جانا اور پھر ایک دو نام نہاد لبرل جدید و قدیم بزرگان کی جادوگری سے کوئی نہ کوئی معنی ان سے برآمد کرنے کی کسی بھی کوشش پر اھل ِ ایمان کا خوش ھونا تو بالکل منطقی ھے۔ کہ اھلِ ایمان ھر اُس بات کو سراھنے میں خوشی محسوس کرتے ھیں جو اس زمانے میں انکے مذھب کی اچھائی ثابت ھو۔۔۔ خواہ وہ۔۔۔چین سے علم پانے کی جھوٹی حدیث ھو۔۔۔ یا صفائی نصف ایمان کا عملی مظآھرہ فی المعاشرت الاسلامیہ ھو۔۔۔۔۔۔۔۔بالکل ایسے جیسے علی مشکل کُشا کو اپنے قتل سے بچاؤ کا علم تھا نہ ملکہ۔۔۔لیکن وہ دوسروں کے لئے مشکل کُشا ہیں۔
جب قرآن کہتا ھے وہ دنیا میں بھی فلاح پائیں گے اور آخرت میں بھی تو۔۔۔ تین خلیفہ تو قتل ھوئے اور بہت ذلیل طریقے سے مارے گئے۔۔ عائشہ کی اولاد تک نہ ھوئی۔۔بیوگی میں زندگی گزری۔۔۔پتہ نہیں کونسی فلاح تھی۔۔۔ جنگ جمل میں علی و عائشہ آمنے سامنے تھے۔۔۔
al-Baqarah ʾAlif Lām Mīm الم
Āl Imrān ʾAlif Lām Mīm الم
al-Aʿrāf ʾAlif Lām Mīm Ṣād المص
Yūnus ʾAlif Lām Rā الر
Hūd ʾAlif Lām Rā الر
Yūsuf ʾAlif Lām Rā الر
Ar-Raʿd ʾAlif Lām Mīm Rā المر
Ibrāhīm ʾAlif Lām Rā الر
al-Ḥijr ʾAlif Lām Rā الر
Maryam Kāf Hā Yā ʿAin Ṣād كهيعص
Ṭā Hā Ṭā Hā طه
ash-Shuʿārāʾ Ṭā Sīn Mīm طسم
an-Naml Ṭā Sīn طس
al-Qaṣaṣ Ṭā Sīn Mīm طسم
al-ʿAnkabūt ʾAlif Lām Mīm الم
ar-Rūm ʾAlif Lām Mīm الم
Luqmān ʾAlif Lām Mīm الم
as-Sajdah ʾAlif Lām Mīm الم
Yā Sīn Yā Sīn يس
Ṣād Ṣād ص
Ghāfir Ḥā Mīm حم
Fuṣṣilat Ḥā Mīm حم
ash-Shūrā Ḥā Mīm; ʿAin Sīn Qāf حم عسق
Az-Zukhruf Ḥā Mīm حم
Al Dukhān Ḥā Mīm حم
al-Jāthiya Ḥā Mīm حم
al-Aḥqāf Ḥā Mīm حم
Qāf Qāf ق
Al-Qalam Nūn ن
۔۔
اب دیکھیں جن مسلمان علما نے کچھ ڈھونڈ لانے کی ٹھانی تو کیا ڈھونڈا
«الم» جیسے حروف مقطعات ہیں جو سورتوں کے اول میں آئے ہیں۔ ان کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض تو کہتے ہیں ان کے معنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں اور کسی کو معلوم نہیں۔ اس لیے وہ ان حروف کی کوئی تفسیر نہیں کرتے۔ قرطبی رحمہ اللہ نے سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین سے یہی نقل کیا ہے۔ عامر، شعبی، سفیان ثوری، ربیع بن خیثم رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ابوحاتم بن حبان رحمہ اللہ کو بھی اسی سے اتفاق ہے۔
بعض لوگ ان حروف کی تفسیر بھی کرتے ہیں لیکن ان کی تفسیر میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں۔ علامہ ابوالقاسم محمود بن عمر زمحشری رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں اکثر لوگوں کا اسی پر اتفاق ہے۔ سیبویہ نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز میں «الم السجدة» اور «هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنْسَان» پڑھتے تھے ۔ [صحیح بخاری:891]
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «الم» اور «حم» اور «المص» اور «ص» یہ سب سورتوں کی ابتداء ہے جن سے یہ سورتیں شروع ہوتی ہیں۔ انہی سے یہ بھی منقول ہے کہ «الم» قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ قتادہ اور زید بن اسلم رحمہ اللہ علیہم کا قول بھی یہی ہے اور شاید اس قول کا مطلب بھی وہی ہے جو عبدالرحمٰن بن زید اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سورتوں کے نام ہیں اس لیے کہ ہر سورت کو قرآن کہہ سکتے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے قرآن کا نام «المص» ہو کیونکہ جب کوئی شخص کہے کہ میں نے سورۃ «المص» پڑھی تو ظاہر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے سورۃ الاعراف پڑھی نہ کہ پورا قرآن۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ شعبی، سالم بن عبداللہ، اسماعیل بن عبدالرحمٰن، سدی کبیر رحمہ اللہ علیہم یہی کہتے ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ «الم» اللہ تعالیٰ کا بڑا نام ہے۔ اور روایت میں ہے کہ «حم»، «طس» اور «الم» یہ سب اللہ تعالیٰ کے بڑے نام ہیں۔ سیدنا علی اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما دونوں سے یہ مروی ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے اور اس کا نام بھی ہے۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ قسم ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ اس کے معنی «أَنَا اللَّهُ أَعْلَمُ» ہیں یعنی ”میں ہی ہوں اللہ زیادہ جاننے والا“۔ حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی یہ مروی ہے۔
سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے الگ الگ حروف ہیں۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ تین حرف «الف» اور «لام» اور «میم» انتیس حرفوں میں سے ہیں جو تمام زبانوں میں آتے ہیں۔ ان میں سے ہر ہر حرف اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی بلا کا ہے اور اس میں قوموں کی مدت اور ان کے وقت کا بیان ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کے تعجب کرنے پر کہا گیا تھا کہ وہ لوگ کیسے کفر کریں گے ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ اس کی روزیوں پر وہ پلتے ہیں۔ «الف» سے اللہ کا نام، «الله» شروع ہوتا ہے اور «لام» سے اس کا نام «لطیف» شروع ہوتا ہے اور «میم» سے اس کا نام «مجید» شروع ہوتا ہے اور «الف» سے مراد «آلَاء» یعنی نعمتیں ہیں اور «لام» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «لُطْف» ہے اور «میم» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «مَجْد» یعنی بزرگی ہے۔ «الف» سے مراد ایک سال ہے «لام» سے تیس سال اور «میم» سے چالیس سال۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:28/1]
امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ان سب مختلف اقوال میں تطبیق دی ہے یعنی ثابت کیا ہے کہ ان میں ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو۔ ہو سکتا ہے یہ سورتوں کے نام بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نام بھی، سورتوں کے شروع کے الفاظ بھی ہوں اور ان میں سے ہر ہر حرف سے اللہ تعالیٰ کے ایک ایک نام کی طرف اشارہ بھی، اور اس کی صفتوں کی طرف اور مدت وغیرہ کی طرف بھی ہو۔ ایک ایک لفظ کئی کئی معنی میں آتا ہے۔
بات نکلے گے تو پھر دور تلک جائے گی۔۔۔۔ لبرل یا دھریہ یا پہلے جو مسلمان ھوتے تھے۔۔۔ایسے لوگ جناب غامدی صاحب کے بیانات سےخوش ھوتے ھیں۔
کہ دیکھو جی اسلام کا کتنا چھا چہرہ سامنے لاتے ھیں۔
لیکن سوال تو یہ ھے کہ پچھلے 30 سال سے وہ یہی کرتے ھوئے کتنے شدت پسند مسلمانوں، اور طالبان۔۔اور ختم نبوت کے فسادیوں،،،وغیرہ کو اپنے جیسا بےضرر مسلمان بنا سکے ھیں؟؟
سوال تو کرنا ھی ھوگا کہ انکی اس مسلسل کوشش اور انکے مسلسل کتابی لیکچرز ور ویڈیوز سے انکی فاونڈیشن تو چل گئی لیکن زمینی حقائق کیا ھیں؟ کونسی بستی ھے جس میں مسلمان پہےل سے بہتر ھوئے اور رحمت کا نمونہ بن گئے؟
جب غامدی جی سے پوچھا جائے کہ حور کا لالچ کیوں؟ تو ھنس دیتے ھیں۔۔ بات گول کر دیتے ھیں۔۔ ڈھکے انڈوں والی آنکھوں والی عورتوں کو حور کہا جاتا ھے جی۔۔وہ اصلی نہیں ھونگی۔بس خیال ہی ھے۔۔یا آپکی بیویاں ھی ھونگی۔۔حالنکہ صاف لکھا ھے۔۔۔ لم یطمس ھُن۔۔۔وہ کنواری عورتیں ھونگی جنکی آنکھیں بڑی بڑی غلافی ھونگی۔۔۔عرب میں ھمیشہ سے بڑی آنکھوں والی عورتوں کو پسند کیا جاتا ھے۔۔میک اپ بھی ایسا کیا جاتا ھے کہ آنکھیں بڑی بڑی لگیں،،،تو ایک ربڑ کو آپ کتنا کھینچ سکتے ھیں؟
جب پڑھے لوگ کہین کہ دیکھو جی علی نے کہا تھا کہ ایک ذرہ پھٹ جائے تو کائنات پھٹ جائے ۔۔یہ اٹامک فشن کا علم علی کو تھا۔۔۔۔ تو کیا واقعی علی کو یہ علم تھا؟ کیا واقعی علی کو سائینسی مساوات سے معلوم تھا یا ابو طالب نے میتھ سکھایا تھا یا اللہ نے کوئی فشکس کا فرشتہ انکے لئے ایسے روز علم لاتا تھا جیسے طاھر القادری 40 سال سے کسی بزرگ کی کلاس میں جاتے ھیں۔ اور پھر کافرون کی گود میں کینیڈا میں امن پاتے ھیں۔امان پاتے ھیں۔۔۔اور غامدی جی ملائیشیا میں جان بچاتے ھیں۔
اور اس جملے سے انسانیت کو کیا فائدہ ؟ کہ
من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ
۔۔۔
2000 سال سے یہی بتایا جاتا ھے کہ ان حروف کے معانی اللہ کو ھی معلوم ھیں۔۔زیادہ چالاک لوگ کہتے ھیں کہ اللہ انکے معانی کسی آنے والے زمانے میں کھولے گا۔۔
جاری فتوی میں سے ایک کے مطابق
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1129-1050/SN=1/1440
”الٓم“ ”عسق“ ”حم“ ”یس“ وغیرہ حروفِ مقطعات کہلاتے ہیں، ان کے متعلق جمہور صحابہ و تابعین اور علمائے امت کے نزدیک راجح یہ ہے کہ یہ حروف رموز اور اسرار ہیں، جس کا علم سوائے خدا تعالی کے کسی کو نہیں ، اور ہو سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم بطور ایک راز دیا گیا ہو جس کی تبلیغ امت کے لئے روک دی گئی، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان حروف کی تفسیر و تشریح میں کچھ منقول نہیں (معارف القرآن) اس لئے آپ ان الفاظ کے معانی اور تفصیلات کے درپے نہ ہوں۔ حروف مقطعات کے سلسلے میں مزید تفصیل کے لئے معارف القرآن (۱/۱۰۶، ۱۰۷) کا مطالعہ کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی اللہ نے قران اتارا نبی پر۔۔۔اور نبی نے اللہ سے مطلب نہ پوچھا کہ بھائی جان۔۔۔اسکا مطلب بھی تو میں نے لوگوں کو سمجھانا ھے وہ بھی بتائیے۔۔۔ پر اللہ نے کہا۔۔۔تُو کہ۔۔۔ میں اللہ خوب جاننے والا ھوں۔۔ایک تو بات بات پر اللہ یہی کہتا ھے کہ میں اللہ خوب جاننے والا ھوں درست جواب کیوں نہیں دیتا کہ پھڈا ھی نہ ھو۔۔جھگڑا ھی نہ پڑے۔؟ مہدی کے بارے کچھ نہیں کہا۔۔صاف کہتا ھے مہدی انا ھے یا نہیں آنا ھے۔۔۔۔چکر بازی کیوں؟
نماز کی حکم کوئی 89 بار دیا۔۔۔ لیکن پڑھنے کا طریق نہیں بتایا ؟کیوں؟ کوئی بھی مسلمان جواب گھڑے گا کہ نماز تو رسول جی پڑھتے تھے اس لئے یہ سب کو معلوم تھا۔۔۔اس لئے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی۔۔نہ ھے۔۔۔واہ کیسا جواب ھے۔۔۔73 فرقے۔۔۔ ھر ایک کہتا ھے حدیث و روایت میں نماز ایسے پڑھنی ھے۔۔ شیعوں کی نماز سنیوں دیو بندیوں احمدیوں کے لئے پتھروں ٹھیکریوں سے ٹکر مارنے والی احمقانہ نماز ھے۔۔غرض ھر ایک کا اپنا انداز و تشریح ھے اللہ کو مسلمانوں کے بیچ جھگڑا کرانے کا شوق کیوں ھے؟؟
اب دیکھئیے۔۔۔ کہ تفسیر کرنے والے آپس میں ھر بات پر راضی نہیں۔۔۔کچھ پر راضی ھیں۔۔اور دور دور کی کوڑی لاتے ھیں۔۔جیسے۔۔۔کسی ایمان لانے والے کی تشفی کےلئے کتنی بظاھر خوش امید تصویر تشریح پیش کی گئی ھے۔۔دیکھیں۔۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ کے اس فرمان پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے جو تفسیر کی ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک لفظ، ایک ساتھ، ایک ہی جگہ ان سب معنی میں ہے اور لفظ امت وغیرہ جو کئی کئی معنی میں آتے ہیں جنہیں اصطلاح میں الفاظ مشترکہ کہتے ہیں۔ ان کے معنی ہر جگہ جدا جدا تو ضرور ہوتے ہیں، لیکن ہر جگہ ایک ہی معنی ہوتے ہیں جو عبارت کے قرینے سے معلوم ہو جاتے ہیں ایک ہی جگہ سب کے سب معنی مراد نہیں ہوتے اور سب کو ایک ہی جگہ محمول کرنے کے مسئلہ میں علماء اصول کا بڑا اختلاف ہے اور ہمارے تفسیری موضوع سے اس کا بیان خارج ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
دوسرے یہ کہ امت وغیرہ الفاظ کے معنی بہت سارے ہیں اور یہ الفاظ اسی لیے بنائے گئے ہیں کہ بندش کلام اور نشست الفاظ سے ایک معنی ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں لیکن ایک حرف کی دلالت ایک ایسے نام پر ممکن ہے جو دوسرے ایسے نام پر بھی دلالت کرتا ہو اور ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہ ہو نہ تو مقدر ماننے سے، نہ ضمیر دینے سے، نہ وضع کے اعتبار سے اور نہ کسی اور اعتبار سے ایسی بات علمی طور پر تو نہیں سمجھی جا سکتی البتہ اگر منقول ہو تو اور بات ہے لیکن یہاں اختلاف ہے اجماع نہیں ہے اس لیے یہ فیصلہ قابل غور ہے۔
اب بعض اشعار عرب کے جو اس بات کی دلیل میں پیش کئے جاتے ہیں ایک کلمہ کو بیان کرنے کے لیے صرف اس کا پہلا حرف بول دیتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے لیکن ان شعروں میں خود عبارت ایسی ہوتی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے۔ ایک حرف کے بولتے ہی پورا کلمہ سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن یہاں ایسا بھی نہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک حدیث میں ہے کہ جو مسلمان کے قتل پر آدھے کلمہ سے بھی مدد کرے [سنن ابن ماجہ:2620، قال الشيخ الألباني:ضعيف جدا] مطلب یہ ہے کہ «اقْتُلْ» پورا نہ کہے بلکہ صرف «إِقْ» کہے مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: سورتوں کے شروع میں جو حروف ہیں مثلاً «ق»، «ص»، «حم»، «طسم الر» وغیرہ یہ سب حروف «هِجَا» ہیں۔
بعض عربی دان کہتے ہیں کہ یہ حروف الگ الگ جو اٹھائیس ہیں ان میں سے چند ذکر کر کے باقی کو چھوڑ دیا گیا ہے جیسے کوئی کہے کہ میرا بیٹا «ا ب ت ث» لکھتا ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام اٹھائیس حروف لکھتا ہے لیکن ابتداء کے چند حروف ذکر کر دئیے اور باقی کو چھوڑ دیا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:208/1]
سورتوں کے شروع میں اس طرح کے کل چودہ حروف آئے ہیں «ا ل م ص ر ك ہ ي ع ط س ح ق ن» ان سب کو اگر ملا لیا جائے تو یہ عبارت بنتی ہے۔ «نَصٌّ حَكِيمٌ قَاطِعٌ لَهُ سِرٌّ» تعداد کے لحاظ سے یہ حروف چودہ ہیں اور جملہ حروف اٹھائیس ہیں اس لیے یہ پورے آدھے ہوئے بقیہ جن حروف کا ذکر نہیں کیا گیا ان کے مقابلہ میں یہ حروف ان سے زیادہ فضیلت والے ہیں اور یہ صناعت تصریف ہے ایک حکمت اس میں یہ بھی ہے کہ جتنی قسم کے حروف تھے اتنی قسمیں باعتبار اکثریت کے ان میں آ گئیں یعنی مہموسہ مجہورہ وغیرہ۔ سبحان اللہ ہر چیز میں اس مالک کی حکمت نظر آتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ان دلائل اور ابحاث کے بعد بنیادی سوال کی جانب لوٹتے ھین کہ موجودہ دور کے بظاھر بڑے لبرل مسلمان سکالرز اس مذھبی وکٹ پر کس جانب شاٹس کھیلتے ھیں۔۔جیسے غامدی صاحب اور پروفیسر رفیق اختر صاحبان نے اسلامی کتب کا مطالعہ کر کے ان میں سے ممکنہ دلائل کو ترجمہ کر کے جدید ذرائع انٹرنیٹ وغیرہ پر پیش کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ھے اس سے لوگوں میں یہ غلط تاثر پھیلتا ھےکہ جیسے یہ اصحاب خود کسی تحقیق کے نتیجے میں کوئی سائینسی منطقی دلائل لے آئے ھوں جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ھے۔۔ ان دونوں اصحاب نے ھمیشہ پرانی اسلامی کتب سے حوالہ جات دئیے ھیں اور کوئی نئی بات نہیں کہ ھے۔ غامدی جی تو خود امین اصلاحی کے شاگرد ھیں اور انہیں کے اقوال و اعتقاد و تفاسیر سے متاثر ھیں۔
قران کے حروفِ مقطعات، کافروں ، یہودیوں اور مختلف گروھوں کو کرنے کے لئے بنائے گئے۔۔کہ دیکھو آپکی ریپریزینٹیشن یا نمائیندگی بھی ھے۔ جیسے الف لام میم۔۔۔ میں اسلامی خدا ، اپنے سے منسوب ان بیٹیوں کے ناموں کو بعینہُ استعمال کرنے کی بجائے حروف مقطعات استعمال کر کے اُس گروہِ مشرکاں کو ساتھ ملانے کی کوشش کرتا ھے۔
بالکل ایسے ھی کوئی بھی مذھبی ھمیشہ
ہمیشہ اپنے عقیدے کو سچا ثابت کرنے کے دلائل ڈھونڈتا ھے۔مطلق سچائی کی جانب نہیں چلتا۔ یہ لازمی فرق ایک متکلم اور فلسفی کے بیچ ھوتا ھے جو ملحوظ رھے
اب یہ بحث ختم ھو جانی چاھئیے کہ قران کیا کسی خدا نے اتارا یا بنایا یا ترتیب دیا گیا۔کیونکہ ماننے والے نے کسی طرح بھی یہ نہیں ماننا کہ قرآن کی ترتیب بدلتی رھی، الفاظ بدلتے رھے،،، متن بدلتا رھا، موضوعات بھی بدلے،،کیونکہ اس سے خدائی ؤھی اور قرآنی حفاظت کے وعدے پر سوال اتھے گا اور ایمان باطل ھو جائے گا۔۔یہ مجبوری ھے۔
،،،
رفیع رضا





جمہوریت کی سیکھ
"کیا ذبح ہونے والا جانور آ گیا ہے؟” یہ سوال سعودی ولی عہد کے ذاتی محافظ اور ہِٹ ٹیم کے سربراہ، ماہر عبدالعزیز المطرب کی جانب سے پوچھا جاتا ہے۔ یہ واقع بتاتے ہوئے اقوام متحدہ کی خصوصی تفتیش کار برائے ماورائے عدالت قتل، ایگنس کیلامارڈ کی معاون، برطانوی وکیل، ہیلینا کینیڈی کی آواز سے دہشت جھلکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کسی کی آواز میں خوف کو سننے کی ہولناکی، اور یہ کہ آپ ایسے زندہ شخص کی آواز سن رہے ہیں جسے چند ہی لمحوں میں ذبح کیا جانے والا ہے، کی سرسراہٹ آپ کی ریڑھ کی ہڈی سے گزرتی ہے۔ آپ انہیں ہنستے ہوئے سن سکتے ہیں۔ وہ مزہ کر رہے ہیں۔ وہ وہاں انتظار کر رہے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ جو شخص اندر آنے والا ہے اسے ذبح کر کے اس کی لاش کو ٹکڑوں میں کاٹا جائے گا۔
مطرب فرانزک پیتھالوجسٹ صالح الطبیقی سے پوچھتے ہیں، "کیا ان کی لاش کسی بیگ میں رکھنا ممکن ہو گا؟” "نہیں، وہ بہت بھاری اور لمبے ہیں”۔ دونوں خشوگی کے جسم کو چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹنے کی افادیت پر تبادلہ خیال کرتے ہیں، الطبیقی کے مطابق یہ کام "آسان” ہوگا۔ "ان کا جوڑ جوڑ علیحدہ کٹ جائے گا۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر ہم پلاسٹک کے تھیلے لے کر ان کے جسم کو ٹکڑوں میں کاٹ لیں تو یہ جلدی ہو جائے گا۔ ہم ان میں سے ہر ایک کو الگ لپیٹ دیں گے۔” الطبیقی مزید کہتے ہیں، "میں نے کبھی بھی گرم جسم پر کام نہیں کیا ہے، لیکن میں آسانی سے اس کو کاٹ لوں گا۔”
یہ ساری گفتگو سعودی صحافی جمال خشوگی کو بہیمانہ طریقے سے قتل کرنے سے ٹھیک پہلے تقریبا اس وقت کی ہے جب وہ استنبول میں واقع سعودی قونصلیٹ کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ جمال کو اپنے بیٹے کو میسیج کرنے کو کہا جاتا ہے جس میں ان کے بیٹے کو تاکید کی گئی ہو کہ اگر وہ چند دنوں تک گمشدہ رہیں تو یہ بات کسی کو نا بتائی جائے جس پر وہ انکار کر دیتے ہیں۔ "جلدی کرو۔ ہماری مدد کرو تاکہ ہم بھی آپ کی مدد کرسکیں کیونکہ بالآخر ہم آپ کو واپس سعودی عرب لے جائیں گے اور اگر آپ ہماری مدد نہیں کرتے ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوگا۔ یہ کام اچھے سے ہونے دیں۔”
خشوگی ایک پرسکون شخص سے، خوف کے احساس تلے دبتے ہوئے، سراسیمہ اور مضطرب شخص کے طور پر سنائی دیتے ہیں- یہ جانتے ہوئے کہ کچھ مہلک واقع ہونے والا ہے، ان کی آواز میں در آنے والا خوف آخری حد تک پہنچ جاتا ہے۔ ‘کیا آپ مجھے زبردستی انجیکشن دینے جارہے ہیں؟’ جس پر انہیں ‘ہاں’ کہا جاتا ہے۔ "یہ کسی سفارت خانے میں کیسے ہوسکتا ہے؟” اس کے فورا بعد ان کے منہ پہ دم گھونٹنے والا تھیلا چڑھا دیا جاتا ہے۔ خشوگی کی مزاحمت جلدی ہی دم توڑ جاتی ہے کیونکہ انہیں اعصاب مختل کر دینے والا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ ان کے آخری الفاظ ہوتے ہیں، "مجھے دمہ ہے ایسا مت کرو، میرا دم گھٹ جائے گا۔” تبھی ماہر المطرب کہتے ہیں کہ ‘اسے کاٹ دو’، ‘اسے اتار دو ، اسے اتار دو۔ اس کے سر پر رکھو۔ اس کے سر کو اس میں لپیٹو.’ شاید یہی وہ لمحہ ہے جب جمال کا سر کاٹ کر ان کے دھڑ سے الگ کر دیا جاتا ہے۔
الطبیقی اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ جب وہ پوسٹ مارٹم کر رہے ہوتے ہیں۔ "میں انسانی لاشوں کو کاٹتے ہوئے اکثر ہیڈ فون پہ موسیقی سنتا ہوں اور کبھی کبھی تو میرے پاس کافی اور ہاتھ میں سگار بھی ہوتا ہے۔ اب کی بار زندگی میں پہلی دفعہ مجھے زمین پر ہی کسی انسان کے ٹکڑے کرنا پڑیں گے، بصورت دیگر تو اگر آپ قصائی بھی ہیں تو آپ جانور کو کاٹنے کے لٹکا دیتے ہیں۔” الطبیقی ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔ وہ بظاہر غیر مطمئن سے لگتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لاش کو ٹھکانے لگانے کے واضح مقصد کے ساتھ ، الطبیقی کو آخری لمحے میں شامل کیا گیا تھا۔ الطبیقی کہتے ہیں، "میرے براہ راست منیجر کو معلوم نہیں ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ کسی پریشانی کی صورت میں مجھے کوئی نہیں بچائے گا۔”
ایک اور شخص جو اس منظر نامے میں پریشان محسوس ہوتا ہے وہ قونصل جنرل محمد العتیبی ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ ملک واپسی پہ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو بکواس بند رکھیں اور کاروائی میں رکاوٹ نا ڈالیں۔ انہیں اس لیے یہ سننا پڑا ہے کیونکہ وہ ٹیم کو اپنا کام کرنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں، "یہ کام باہر جا کر کرو۔ آپ کا یہ کام مجھے کسی مصیبت میں پھنسا دے گا۔” اسی دوران، اگلے ۳۰ منٹ تک، پوسٹ مارٹم کرنے والے آرے کی ہڈیاں اور گوشت کاٹتے ہوئے آواز آتی ہے۔
جمال واشنگٹن پوسٹ کے صحافی تھے اور سعودی حکومت کی مطلق العنانیت کے سخت مخالف تھے۔ وہ سعودی ولی عہد کی ایک ایسی آمرانہ شبیہہ دنیا کو دکھا رہے تھے جسے سعودی حکومت یقینی طور پر کبھی پروجیکٹ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ان کی تحاریر نے ولی عہد کو برافروختہ کردیا اور وہ اپنے ساتھیوں سے جمال کے مسئلے کے بارے میں کچھ کرنے کو کہتے رہے۔ استنبول میں، سعودیوں کو خشوگی کے بارے میں "کچھ کرنے” کا موقع مل گیا۔
ایگنس کیلامارڈ نے اقوام متحدہ میں پیش کی گئی اپنی حتمی رپورٹ میں یہ نتیجہ نکالا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہ جرم ریاستی قتل کے علاوہ کسی بھی اور طریقے سے بیان کیا جا سکے۔ اپنے آخری الفاظ میں، جمال کی منگیتر خدیجہ چنگیز نے ان کے قتل کی حقیقی اہمیت سے خبردار کرتے ہوئے کہا، "یہ نہ صرف میرے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لئے المیہ ہے، ان تمام لوگوں کے لئے جو جمال کی طرح آزادانہ سوچتے ہیں اور جنہوں نے ان جیسا جمہوری مؤقف اختیار کیا۔”
میں ظالموں سے آزادی کی جدوجہد کبھی نہیں چھوڑوں گاحالانکہ میں زندگی بھر جیل کا قیدی رہوں گا۔یہ الفاظ نوبل انعام یافتہ، لیو ژیاؤبو ایک چینی ناقد، لکھاری، پروفیسر اور انسانی حقوق کے کارکن کے ہیں جو چینی کمیونسٹ پارٹی کے یک جماعتی حکومتی نظام کے خلاف تھے۔ ژیاؤبو کو دسمبر 2008ء میں نمائندہ جمہوریت کے لئے آواز بلند کرنے پر حراست میں لیا گیا اور ایک سال بعد ان کو 11 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ژیاؤبو کے آخری سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزرنے کا باعث بننے والا "جرم” منشور 08 تھا۔ "موجودہ سیاسی نظام اس حد تک پسماندہ ہوچکا ہے کہ تبدیلی سے گریز نہیں کیا جاسکتا،” انہوں نے یک جماعتی حکمرانی کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے منشور میں کہا۔ یہ منشور 1949 میں چین کی آزادی کے بعد سے چھپنے والا پہلا منشور تھا۔
2010 میں ، لیو کو "چین میں بنیادی انسانی حقوق کی طویل اور عدم تشدد کی جدوجہد” کے سبب امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ ایوارڈ کی تقریب میں ان کی نمائندگی خالی کرسی نے کی کیونکہ تب ان کو جیل میں قید دوسرا سال تھا۔ ناصرف ان کو بلکہ ان کی شریک حیات لیاؤ ژیاء کو بھی حراست میں لے لیا گیا جو تاحال قید تنہائی کاٹ رہی ہیں۔
ژیاؤبو دوران حراست جگر کے کینسر کا شکار ہو گئے۔ چینی حکومت نے ان کے علاج کے لیے کی گئی درخواستوں کو رد کر دیا اور ان کو تب تک مسلسل جیل میں رکھا گیا تاوقتیکہ کہ حکومت کو ان کی بیماری کے ناقابل علاج ہونے کا یقین نہیں ہو گیا۔ ذاتی درخواستوں کے علاوہ بین الاقوامی دباؤ بھی اس سلسلے میں ناکافی رہا۔ بالآخر ان کی موت سے صرف چند ہفتے پہلے حکومت نے انہیں جیل سے نکال کر ہسپتال پہنچایا جہاں ان کا کینسر آخری سٹیج پر تشخیص ہوا۔ بین الاقوامی برادری بار بار انہیں علاج کی خاطر ملک سے باہر بھیجنے پر زور دیتی رہی مگر چینی حکومت مصر رہی کہ ان کا تسلی بخش علاج ملک میں ہی ہو سکتا ہے۔
چند دن بعد چائنا میڈیکل یونیورسٹی کے شینیانگ فرسٹ اسپتال نے جگر کے کینسر کے باعث ان کی موت کی اطلاع دی۔ "مجھے اس حکومت سے نفرت ہے ،” مصنف اور سیاسی کارکن ٹینائچی مارٹن لیاؤ، جو 30 سال سے ژیاؤبو کی دوست رہی ہیں، نے کہا۔ انہوں نے کہا کہ صرف غم ہی نہیں، غم و غصہ ہے۔ ژیاؤ جیسے شخص کے ساتھ کوئی حکومت ایسا سلوک کیسے کرسکتی ہے؟
20 اگست 2020 کو، روسی شہر ٹومسک سے ماسکو جانے والی پرواز کے دوران ایک شخص منہ کے بل جہاز کے فرش پہ جا گرتا ہے۔ اندیشہ ہے کہ اسے بعید الاثر زہر دیا گیا ہے۔ طیارے کی ہنگامی لینڈنگ کے بعد انہیں کوما کی حالت میں اسپتال داخل کیا جاتا ہے۔ یہ خبر پھیلنے کے چند ہی لمحوں میں وفاقی سیکیورٹی اداروں کے اہلکار اسپتال کے کمرے کو گھیر لیتے ہیں کیونکہ زہر خورانی کا شکار ہونے والا شخص الیکسی ناوالنی ہیں جو روسی صدر پیوٹن کے سب سے بڑے ناقد ہیں۔ ان کی جان کو درپیش خطرے کے پیش نظر جلد ہی انہیں علاج کی خاطر جرمنی منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں سے وہ صحت یاب ہو کر روس واپس لوٹتے ہیں۔
جرمن تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ انہیں ملٹری گریڈ زہر ایک ایسے روسی خفیہ ڈیتھ اسکواڈ نے دیا تھا جو 3 سال سے اس مشن پہ تھِا۔ یہی زہر برطانیہ میں پناہ گزین، برگشتہ روسی جاسوس سرگئی سکرپل اور ان کی بیٹی کو بھی دیا گیا تھا۔ جنوری 2021 کے وسط میں ناوالنی کو روس واپس پہنچتے ہی حراست میں لے لیا گیا۔ جس تھانے میں انہیں رکھا گیا تھا وہیں پہ عدالت لگاتے ہوئے انہیں اس رات جیل کی سزا سنا دی گئی۔ حالانکہ ان کی اس سزا پہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی سمیت دیگر ممالک نے زبردت تنقید کی مگر روسی حکومت کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی۔ بلکہ اس کے جواب میں انہیں بیگار کیمپ میں بھیج دیا گیا۔
ناوالنی نے ایک باضابطہ شکایت میں حکام پر نیند سے محروم رکھنے، تلاوت کے لیے قرآن فراہم نا کیے جانے اور تشدد کا الزام عائد کیا ہے۔ ناوالنی کے ایک وکیل نے ان کی صحت کی خرابی کی نشاندہی کی جبکہ جیل حکام نے ناوالنی کی جانب سے سویلین طبیب سے متعلق درخواستیں رد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی صحت "اطمینان بخش” ہے۔ کچھ دن کے بعد، چھ ڈاکٹروں، جن میں ناوالنی کی ذاتی معالج ، اناستاسیا واسیلییوا، اور سی این این کے دو نامہ نگار شامل تھے، کو جیل کے باہر سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب انہوں نے ناوالنی سے ملنے کی کوشش کی جن کی صحت تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکریٹری جنرل، ایگنس کیلامارڈ نے صدر ولادیمیر پوتن پر الزام لگایا ہے کہ ناوالنی کو جیل میں تشدد اور غیر انسانی سلوک کے ذریعے آہستہ آہستہ قتل کیا جا رہا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ناوالنی کو فوری طور پر طبی امداد کی ضرورت ہے۔ ناوالنی کی ذاتی ڈاکٹر، واسیلییوا اور تین دیگر ڈاکٹروں ، جن میں امراض قلب کے ماہر بھی شامل ہیں، نے جیل کے عہدیداروں سے یہ کہتے ہوئے انہیں فوری طبی رسائی دینے کا مطالبہ کیا کہ "ہمارا مریض کسی بھی لمحے دم توڑ سکتا ہے”، اس کا مطلب ہے مہلک دل کا دورہ یا بڑھتے ہوئے طبی خطرے کی وجہ سے "کسی بھی لمحے” گردوں کی ناکامی۔ تاہم، روسی حکام کی طرف سے غیر ملکی حکومتوں کی روسی صدر پر تنقید کی سرزنش کرتے ہوئے کریملن کے ترجمان دمتری پیسوکوو نے کہا کہ جیل کے حکام ناوالنی کی صحت کی نگرانی کر رہے ہیں۔ یہ صدر کی ذمہ داری نہیں ہے۔
اگر آپ چند ہفتے پہلے بیلارس کے 26 سالہ حکومت مخالف صحافی، رومن پروٹاسیوچ کی ایک بین الاقوامی پرواز سے اغوا کی سازش، شمالی کوریائی رہبر اعلی کم جونگ ان کے وزن میں کمی سے پریشان سرکاری صحافت اور پاکستان میں مخالف رائے کا گلا گھونٹے جانے سے پریشان ہیں تو یقین کیجئے کہ یہ مماثلت صرف اتفاقی نہیں ہے۔ کچھ دیگر مماثلتوں میں حکومتی ڈھانچہ بھی شامل ہے۔ سعودی عرب میں 88 برس سے، چین میں 72 برس سے اور روس میں 104 سال سے ایک ہی نقطہ نظر سوار بر اقتدار ہے۔ بعینہٖ، پاکستان میں پچھلے 74 سال سے، شمالی کوریا میں 73 برس سے اور بیلارس میں آزادی سے لے کر آج تک ایک ہی ادارہ حکومت پہ قابض ہیں۔
چنانچہ اگر پاکستان دوست ممالک کی پیروی کر رہا ہے تو کیا قیامت آ گئی؟ اگر ہمارے نظریاتی رہنما، سعودی، جمال خشوگی کے جسم کے ٹکڑے کر کے غائب کر سکتے ہیں تو پاکستانی شہر منڈی بہائوالدین میں لاپتہ صحافی سید سلیم شہزاد کی کٹی پھٹی لاش ملنے میں کیا قباحت ہے؟ اگر دوست ملک چین، لیو ژیاؤبو کو جیل میں رکھ کر موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے تو پاکستانی دانشوروں کی جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل کیوں قابل اعتراض ہیں؟ اگر روسی حزب اختلاف کے رہنما الیکسی ناوالنی کو جبری مشقت کے کیمپ میں سست موت دی جارہی ہے تو کیوں پاکستانی اختلافی آوازیں قانون کی حکمرانی اور جمہوریت وغیرہ کا فضول مطالبہ کریں؟ آخرکار، شمالی کوریا کے چینی، بیلارس کے روسی اور پاکستان کے سعودی، چینی اور روسی، سب کے مشترکہ، نقش قدم پہ چلنے میں حرج ہی کیا ہے؟
نقل۔۔۔۔سرقہ۔۔پلیجر ازم ۔۔۔اور شاعری
سوشل میڈیا خاص طور پر اور باقی میڈیا اور کتابوں میں چھپی شاعری کو چوری کرنے کے بہت سے طریقے اردو شاعری میں رائج کئے گئے۔اور پھر ان طریقوں کو ادبی اصطلاحی نام بھی عطا ہوئے۔جیسے کلاسیکی تتبع۔۔۔روایت سے جُڑنا۔وغیرہ
،،
تین عظیم آرٹسٹس 18ویں صدی میں ھو گزرے جنہوں نے ملتے جلتے الفاظ میں آرٹ کی چوری یا اکتساب یا اثر کو بیان کیا ھے۔
اِگور سٹراوِنسکی، پابلو پِکاسو، ٹی ایس ایلیٹ ان تینوں نے یہی کہا ھے کہ آرٹ یعنی پینٹنگ، فوٹو گرافی، شاعری ڈرامہ وغیرہ کو کمزور اور کمتر آرٹسٹس توڑ مروڑ کر اپنا لیتے ھیں۔
جبکہ عظیم و اعلی آرٹسٹس ھُو بہو اپنا لیتے ھیں۔ جیسے آپ نے دیکھا غالب نے بیدل کی اتنی تعریف کی اور پھر اسکا شعر اپنا لیا۔۔۔
بوئے گُل ، نالہِ دل، دُودِ چراغِ محفل
ہر کہ از بزم تو برخاست، پریشاں برخاست
اسی طرح فیض نے ساحر سمیت کئی شعرا کا کلام بغیر واوین کے استعامل کیا ھے۔۔
یہ تو بڑے شعرا کی بات تھی۔۔
اب ھمارے ارد گرد روز ایک دوسرے کے اشعار سے متاثر ھو کر شاعری کرنے کو یہ کہہ کے اخلاقی بتایا جاتا ھے کہ کلاسیکی شعرا بھی ایسا ھی کرتے تھے اور ایک ھی زمین میں سب کوششیں کرتے تھے۔۔۔یعنی کلاسیکی شعرا اگر لونڈوں کی تعریف میں غزلیں کہتے تھے تو اب بھی یہی کرنا چاھئیے
عجیب احمق گاؤدی مسلمان معاشرے سے پالا پڑا ھے جو برائی کو اچھائی کا سرٹیفیکیٹ ،،خود ھی دیتا ھے اور سارے چور اور نقال اس نقالی کو مزید اخلاقی سند جاری کرتے ھیں۔۔کہ واہ واہ جناب کیا نقل کی !
میں اس معاملے میں سطحی باتیں نہیں کرنا چاھتا اور اس نقل کی سائیکی کی تہہ میں پہنچنا چاھتا ھُوں۔۔اسے ایک سنجیدہ تحریر کے طور پر پڑھیں
،،،
واپس چلتے ھیں۔ اقبال نے مغربی شاعری کے ترجمے کئے۔۔۔ اور بہت جگہ حوالے دئیے اور کئی جگہ کچھ نہ بتایا، کسی جگہ نیا لفظ ایجاد کیا "ماخوذ "، یعنی نقل کے لئے اگر ھُو بہو نقل نہ کیا تو اُسے ماخوذ کہہ دیا۔جس سے مُراد یہ ھے کہ انکی اس شاعری کا ماخذ کوئی اور ھے۔جو لوگ اقبال کو عظیم شاعر یا فلسفی وغیرہ کہنے میں جلدی کرتے ہیں انکو سوچنا چاھئیے کہ کوئی بھی عطیم لکھاری عظیم فلسفی لازمی طور پر اوریجنل ھوتا ھے وُہ دوسروں کے ترجمے نہیں کرتا نہ دوسروں سے اکتساب کر کے ماخوذ کی ٹرم ایجاد کرتا ھے۔دنیا بھر میں عظیم ادیب دانشور شاعر پینٹر پائے جاتے ہین لیکن مجال ہے کہ کسی عطیم شاعر کے ھاں ایسا کوئی ماخوذ یا اکستساب یا ترجمہ کا عندیہ بھی مِلے۔۔اس لئے آپ پاکستانی مسلمان ذرا ھتھ ھولا رکھا کریں ھیرو ھوتے ھیں زبردستی نہیں بنائے جاتے۔ آپ غلطی پر ھیں۔
۔۔۔
انگریزی ادب میں سرقہ چوری نقل پلیجرازم کی کئی قسمیں بیان ھوئی ھیں۔۔ھم پہلی قسم کی بات کر رھے تھے۔۔۔کہ جس میں ھُو بہو لفظ بہ لفظ چوری کر لینا ،لیجانا اور بیان کردینا شامل ھے۔۔
۔۔
جیسے غالب کا شعر اوپر بیان ھوا ھے غالب نے کہا
بوئے گُل نالہِ دل ، دُودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
،،
ایک دو الفاظ کے علاوہ تمام مفہوم و منظر وھی ھے جو بیدل کے فارسی کلام میں ھے۔۔اس سرقے یا چوری یا نقل کو کلوننگ پلیجر ازم کہتے ھیں۔کلوننگ کا لفظ پاکستان میں تب مشہور ھوا جب سائینسدانوں نے بھیڑوں کی کلوننگ کی جس میں ایک بھیڑ کے ڈی این اے سے اُسی جیسی بھیڑ لیباریٹری میں بنائی گئی۔پس کسی ادب پارے کےبنیادی ڈھانچے یا منظر ڈی این اے کو نقل کرنا ادب میں چوری کہلاتا ھے۔
اس میں کسی نثر کا پورے کا پورا پیرا گراف شامل کرنا ،
ھُو بہو نقل میں شمار کیا جاتا ھے۔جیسے کراچی میں غالباً چار پروفیسران پر عدالتی مقدمے ھوئے اور انہیں چور گردانا گیا انہوں نے طلبا کے مقالہ جات کو اپنے مقالہ جات ظاھر کیا۔ پاکستان اور ھندوستان میں مقالہ جات کا سرقہ بہت عرصے سے جاری ھے ، بہت سے نام نہاد ایوارڈ یافتہ پاکستانی ھندوستانی پروفیسران کی کتابیں اور مقالہ جات ھرگز انکے اپنے نہین بلکہ انکے طالب علموں کی کوشیں ھوتی ھیں،،جیسے ساختیات،،اور پس ساختیات وغیرہ ڈبل چربے ھیں یعنی انگریزی کے چربے اور پھر لکھا کسی نے شائع کسی اور نے کروایا۔ بیسیوں خبروں میں سے ایک خبر آپ پڑھیں
معطل ہونے والے اساتذہ میں سب سے بڑا نام اسلامک سٹڈیز فیکلٹی کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر جلال الدین احمد رومی کا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے مشرق وسطٰی کے مختلف عربی مصنفوں کی تحریریں چرا کر تحقیقی مقالہ تیار کیا اور اس مقالے کی مدد سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے پروفیسر اور فیکلٹی کے ڈین کے عہدے پر ترقی حاصل کی۔
معطل ہونے والے دوسرے اساتذہ میں کیمیسٹری ڈپارٹمینٹ کے چیرمین پروفیسر ڈاکٹر سعید آرائیں اور ان کی اہلیہ پروفیسر ڈاکٹر نجمہ سلطانہ شامل ہیں جو پہلے فیکلٹی آف فارمیسی کی ڈین بھی رہ چکی ہیں۔ دونوں نے ترقی پانے کے لیے دوسرے سکالروں کے مضامین چراکر تحقیقی مضامین لکھے۔
اسلامک سٹڈیز فیکلٹی کے ڈین ڈاکٹر رومی پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اپنی مدت ملازمت بڑھانے کے لیے جعل سازی کے ذریعے اپنے شناختی کارڈ کے ریکارڈ میں چار سال عمر کم کرائی تھی۔
کراچی یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر رئیس علوی نے بتایا کہ ان اساتذہ کے خلاف کارروائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہدایت پر کی گئی ہے۔
اسی طرح ایک اور واقعے میں،،
وزارت مذہبی امور کی جانب سے جمع کردہ مقالوں کی تعداد 100سے زائد تھی،جن میں سے جیتنے والوں میں ڈاکٹر عامر طاسین اور آسیہ اکرام کا نام بھی تھا۔جنہیں صدرپاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے انعامات و ایوارڈ سے نوازہ تھا۔بعد ازاں معلوم ہوا کہ مقالہ جات کی شائع ہو ے والی کتاب میں ڈاکٹر عامر طاسین اور آسیہ اکرام کا مقالہ لفظ بہ لفظ ایک ہی جیسا تھا۔
جس کے بعد ایگیزیکٹیو ڈائیریکٹر مجلس علمی فاؤنڈیشن اوررکن بورڈ آف گورنر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، معروف مذہبی اسکالر ومحقق ڈاکٹرعامرطاسین نے وزارت مذہبی امور کو ایک خط لکھا اور انکشاف کیا تھا کہ میرا مقالہ غائب کرکے اسلام آباد کی آسیہ اکرام کوبھی صدارتی ایوارڈ اور انعام سے نوازا گیا ہے۔ڈاکٹر عامر طاسین نے 31 مارچ کو مذکورہ خط وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری اور سیکرٹری مذہبی امور کے نام لکھ کر انکوائری کرنے کی درخواست کی تھی۔
۔۔
مزید اسلامی جمہوریہ میں تحقیق چوری کا معاملہ دیکھیں۔
لاہور: پنجاب یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کا مقالہ چوری کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ سنٹر فار انٹیگریٹیڈ ماؤنٹین ریسرچ کے سربراہ ڈاکٹر صفدر علی شیرازی کے مقالے میں 40 فیصد چربہ سازی کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے سی آئی ایم آر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر صفدر شیرازی پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نےایک ہی مقالہ دو مختلف ریسرچ جرنلز میں مبینہ طور پر شائع کرایا ہے جبکہ اس تحقیقی مقالے میں 40 فیصد چربہ سازی کی گئی ہے۔
تعلیمی زاویہ کو دستیاب دستاويزات کے مطابق ڈاکٹر صفدر علی شیرازی نے انڈین پنجاب کی موسمیاتی تبدیلی پر لکھے گئے ریسرچ پیپر کو من و عن پاکستانی پنجاب کی موسمیاتی تبدیلی سے منسوب کیاجس میں صرف شہروں کے نام تبدیل کیے گئے اور باقی ماندہ تحقیق انڈین پنجاب سے متعلق بھارتی پروفیسر کی تحقیق ہے۔
۔۔۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے بعد اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے 30 پروفیسرز پر بھی چوری شدہ مقالے جمع کرانے کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ملک بھر سے چوری شدہ مقالوں کے حوالے سے سینکڑوں شکایات موصول ہوچکی ہیں۔ لیکن کسی کے خلاف بھی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔ ذرائع کے بقول ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ارشد علی نے استعفیٰ بھی دباؤ پر دیا ہے۔ جبکہ سرقہ ثابت ہونے پر نہ صرف پی ایچ ڈی کی ڈگری واپس لے لی جاتی ہے بلکہ ملازمت سے بھی فارغ کردیا جاتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دوسروں کے مقالے چوری کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والوں کے معاملات سامنے پر عالمی سطح پر بھی ملک کی بدنامی ہورہی ہے۔
،،،،،،،،،،،
اوپر تو صرف چند خبریں شامل کی ھیں وگرنہ زمینی صورتِ حال اس سے کہیں بُری ھے۔۔
کینیڈا میں ایک متشاعر تسلیم الہی زلفی نے ادھر ادھر سے شاعری لیکر کئی مجموعے چھپوائے اور اُسے اسلام آباد پنڈی کے احمق شُعرا و ادیبوں رحمان حفیظ وغیرہ نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔اسی ٹور میں اس فراڈ شخص تسلیم الہی زلفی نے مختلف پاکستانی شاعرات کو اُلّو بنایا کچھ سے رقم اینٹھی کچھ سے اپنے حق میں تشہیری پروگرام کروائے ۔۔۔اور لالچ دیا کہ وہ کینیڈا میں انکے لئے عالمی مشاعرہ کروائے گا۔ متاثرین کی لمبی فہرست میں حبیب جالب کی بیتی بھی شامل ھیں، اسناتھ کنول نامی لاھور کی شاعرہ بھی اور بہت سے ایسے لوگ بھی جنہوں نے شرم کے مارے اپنی ذاتی کہانی نہیں کھولی۔ اسی طرح تسلیم الہی زلفی نے ایک من گھڑت کتاب ،،فیض بیروت میں۔۔۔کے نام سے چحاپی جو مکمل جھوٹ کا پلندہ ھے،،،تسلیم الہی کی کوئی ملاقات کبھی فیض سے ھوئی ھی نہیں، اشفاق حسین کینیڈآ نے مکمل حوالوں سے اس کتاب کو افسانہ ثابت کیا ھے اور میں نے ماڈرن تکنیک سے وہاں شائع شُدہ فوٹو کو جعلی ثابت کیا جس میں تسلیم الہی فراڈیہ ، فیض کے ساتھ کھڑا ہے۔
خیر میں نے اوپر پہلی قسم کی نقالی یا کلوننگ پلیجرازم کی بات کی ھے آئیے دوسری قسم پر گفتگو کرتے ھیں
،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چربہ ، چوری، نقالی کی دوسری قسم مکس ازم پلیجرازم کہلاتی ھے، اس میں "بنیادی منظر” ، "خیال” یا "ارادے” کو تھوڑی تبدیلی سے بیان کر کے چوری کی جاتی ھے۔ ،
جیسے،،،
اقبال کا شعر دیکھیں
میں جو سر بسجدہ ھوا کبھی تو زمیں سے یہ آنے لگی صدا
ترا دل تو ھے صنم آشنا، تجھے کیا مِلے گا نماز میں
۔۔۔
اب دیکھیں اقبال کا شعر کہاں سے برآمد ھوا؟
بہ زمیں چو سجدہ کردم ز زمیں ندا بر آمد
کہ مرا خراب کردی ،تو ، بہ سجدۂ ریائی
(فخر الدین عراقی)
یعنی اقبال کے وھم و گمان میں بھی یہ خیال نہیں آ سکتا تھا کہ سجدہ کرنے پر ان سے یہ تخاطب ہوگا ۔ اقبال کو یہ خیال و منظر مکمل طور پر عراقی نے دیا۔ جس میں اقبال نے قدرے تبدیلی ، یعنی مکسزم پلیجرازم کا استعمال کیا ھے۔(اور ھاں کہیں نہیں کہا کہ یہ ماخوذ ھے، وہ لوگ جو جلدی سے کہتے ھین اقبال نے ترجمے کئے تو ساتھ لازمی بتایا کہ ماخوذ ھے )
خیر اقبال کی تو کوئی 36 نظمیں اور بےشمار اشعار دوسروں کے اشعار کا ترجمہ ہیں یا مکسزم سرقہ کا شکار ھیں۔ کثرت سے خوشحال خان خٹک کی شاعری اور دوسری پشتو انقلابی شاعری کے ترجموں سے اقبال نے بہت فائدہ لیا۔۔ساری کی ساری تراکیب و نظریات لے لئے۔۔ جو ان کے وھم و گمان میں بھی نہیں تھے۔۔۔جیسے ۔۔۔ستاروں پر کمند ڈالنے والے جوان۔۔۔
حوالوں کے لئے یہ اشعار یاد رکھئیے
،،،،
علامہ اقبال خوشحال خان خٹک کی شاعری سے کیسے مرعوب ھوئے۔ ترجمہ کیا۔۔نظریہ لیا۔۔۔خیال لیا۔۔۔۔۔مضمون لیا۔۔۔
چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
د خوشحال سلام په هغه شا زلمو دے
کمندونه چې د ستورو په اسمان ږدي
خــــــوشحال خٹک
۱. محبت مجهے ان جوانوں سے هے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اقـــــبال
۲. ځه هغه شهباز شه چې یې ځای په سردرو وي
نۀ لکه د کلي کارغۀ ګرځه غم د نس کا
خوشحــــــال خٹک
٢. نہیں ہے تیرا نشیمن قیصری سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
اقـــــــبال
۳. د کارغۀ لايق خو باز دی يا شاهين دی
پۀ دا څۀ چې د کلاغ په سر کلاه شي
خوشحال خٹک
۴. برہنہ سر نو عزم بلند پیدا کریہاں
فقط سر شاہین کے واسطے ہے کلاہ
اقبـــــــال
۵. و اغېارته لکه کانړی موم و يار ته
پۀ سختۍ او پۀ نرمۀ کې هغه زۀ يم
خوشحــــال
۵. ہو حلقہ یاران تو بریشم کی طرح نرم
روزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
اقـــــبال
۶. د شهباز او د عنقا برابر نه دی
مچ او ماشی که الوځي پۀ وزرو
خوشحـــال خٹک
۶. پرواز ہے دونوں کا اسی فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
اقـــــبال
۷. د مردۍ او نا مردۍ تر مېنځ ميل نۀ دی
تفاوت يې يا پۀ زړۀ دی يا پۀ کام
خوشحــــال خٹک
۸. الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذان اور مجاہد کی اذان اور
اقبـــــال
۹. کۀ کوشش کا پۀ اخلاص زۀ یې ضامن يم
کۀ کامران پۀ خپل مراد نۀ شي سړی
خوشحال خٹک
۹. ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہو چیتے کی آنکھ جس کی
اقــــــبال
۱۰. يا عاشق شه يا شهيد شه چې یادیژی پۀ بدلو پۀ سندرو
پۀ ښاغلو جهان ارت دی په نامردو باندی تنګ
خوشحال خٹک
۱۰. شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
جرات ہے نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے
اے مرد خدا ملک خدا تنگ نہیں ہے
اقــــــبال
۱۱. دا سړی چی فريشته ده هم شيطان دی
کۀ سړی د خپل عمل وته نګران شي
کۀ جنت لره څوک بيايي کۀ دوزخ له
بله نۀ وينم پۀ مينځ کې خپل اعمال دي
خوشحال خٹک
۱۱. عمل سے بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اقــــــبال
۱۲. لۀ بتانو اميدوار يې پۀ خپل خدای يې نا اميده
لږ وښايه تۀ ما ته، نوره څۀ دہ کافري؟
خوشحال خٹک
۱۲. بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نا امیدی
مجھے بتاؤ تو سہی، اور کافری کیا ہے
اقــــــبال
۱۳. ځان ژوندی پۀ زمکه ښخ کړه لکه تخم
کۀ لویي غواړې د خاورو پۀ مقام شه
رحمــــــان بابا رح
۱۳. مٹاو اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے
کہ دانہ خاک میں ملکر گل گلزار ہوتا ہے!
،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اسکے علاوہ اقبال پر مضامین میں، مَیں بہت جگہ باقی سرقہ شدہ خیالات یا شاعری بیان کرچکا ھُوں یہ مضمون صرف اقبال پر نہیں ھے۔اس لئے آگے چلتے ھیں،،۔۔
اب تک دو قسموں کے سرقہ جات کی بات ھوئی اور امثال دیں۔اب آئیے تیسری قسم کی طرف، تیسری قسم کونسی ھوتی ھے
تیسری قسم کے سرقے میں سورس بیسڈ چوری ھوتی ھے۔ یعنی پرائمری سورس کا حوالہ تو دیا جاتا ھے لیکن جو مواد لیا جاتا ھے وہ سیکنڈری سورس سے لیا ھوتا ھے۔۔یا سیکنڈری سورس کا حوالہ ھوتا ھے مگر پرائمری سورس کوئی اور ھوتا ھے۔۔
جیسے قرآن کو اگر کتاب ھی سمجھا جائے، جو کہ ھے، تو اس کے اندر کہانیاں یا افسانے بائبل سے آئے لیکن بائیبل کی اپنی کہانیاں قدیم ھندوستان چین عراق اور مایان کلچر اور زرتشتی مذاھب سے مزکور ھیں۔
مثلاً قرآن میں آیت ھے کہ اے مسلمانو تم پر روزے ایسے فرض کئے گئے جیسے بنی اسرائیل پر فرض کئے گئے۔۔یعنی یہ سرقہ سورس بتا کر اختیار کیا گیا
،،،،،
اوپر بیان کئے گئے لفظ بہ لفظ سرقوں کی مثال ، ایک مقدمہ تھا جو نوشی گیلانی اور منور جمیل نامی شاعری کے مابین تئیس سال تک چلا۔
منور جمیل کا دعوی تھا کہ دونوں کتابیں جو نوشی کے نام سے چھپی ھیں وہ تمام منور جمیل کی اپنی شاعری ھے نوشی کی نہیں۔اور نوشی نے مزکر کی جگہ مونث استعمال کر کے اپنا لی ھے۔
اسی طرح ناقدین کے نزدیک ریحانہ قمر کی شاعری سو فیصد انکی اپنی شاعری معلوم ھی نہیں ھوتی۔ کیونکہ آجتک کسی نے نہیں بتایا کہ کسی بھی شعر پر کوئی تنقیدی رائے ریحانہ قمر نے دی ھو۔ وہ شاعری کے بنیادی محاسن پر گفتگو تک کرنے سے معزور ھیں وہ خود شاعرہ کیسے ھو سکتی ھیں ! ریحانہ قمر نے کبھی کُھل کر اپنی صفائی ثبوت کے ساتھ نہیں دی کہ چلیں مجھ سے مخلتف مصرعوں پر گرہیں لگوا کر دیکھ لیں۔
بعض اور لوگوں پر الزامات لگتے رہتے ہیں مگر بہت سے معاملوں میں پسند نا پسند کا دخل ہوتا ہے متذکرہ شاعر یا شاعرہ ھرگز متشاعر یا متشاعرہ نہیں ھوتے۔ جیسے ماھین ملک مکمل شاعرہ ہیں اور آپکے مصرع پر فی البدیہہ گرہ لگاسکتی ہیں۔ ناحق الزام لگانا بہت بد اخلاقی ہے۔ ثمن شاہ کے بارے بھی ثبوت لوگ لاتے رہے کہ وہ ادھر ادھر سے کلام ٹھیک کرواتی رہی ہیں۔ جودرست معلوم ھوتا ہے۔
۔۔
پلیجر ازم کی اگلی قسم ایکسیڈنٹل پلیجر ازم کہلاتا ھے ، یعنی اتفاقیہ سرقہ ۔یہ اتفاقیہ سرقہ دو طرح سے ھو سکتا ھے پہلا غیر محسوس طور پر سرقہ یعنی کسی ادب پارے سے بہت مانوس ھونا اس میں اتنا محو ھونا کہ اپنی تخلیق میں اسکے استعمال کو خود بھی محسوس نہ کرنا۔۔اور دوسرا وہ جس میں معلوم ھے تو ھو، لیکن سخت رشک کی بدولت اس خیال یا لفظ یا منظر کو اختیار کر لینا۔
بعض میں صرف مضمون کو لے لینا شامل ھوتا ھے۔
جیسے میں چونکہ ایکٹوازم کے تابع بار بار شعر مین خدا کے ناحق خوف یا ڈر کو بیان کرتا ھُوں جو مذھب نے ناحق انسان پر مسلط کیا ھے تو اس خیال کو کہ خدا اصل میں خوف ناک ھستی نہیں بلکہ مذھب نے خوفناک اُسے ظاھر کیا ھے جو جھوٹ ھے اس بات کو کئی نئے شعرا بیان کرتے ھیں۔۔یہ سرقے کی فکری قسم ھے۔
بعض اوقات بعض شعرا کسی کے بہت بُودے کچے بیانیہ شعر میں چُھپے اچھے تبدیل شُدہ خیال کو بہتر کر کے اپنا لیتے ھیں۔
میں بھی ایسا کرتا ھُوں کیونکہ مجھے ایسے شاعر پر سخت غصہ آتا ھے اور میں اسکا شعر بہتر کر کے پوسٹ کر دیتا ھُوں لیکن میرا ارادہ دیکھا اور لے اُڑا کا نہیں ھوتا ۔ بلکہ مایوس ھوتا ھُوں کہ اس شاعر نے کیوں اس شعر پر محنت نہیں کی ، شاید میرا شعر دیکھ کر اسے سمجھ آئے۔ لیکن بعض احمق اس عمل سے یہ نتیجہ نکالتے ھیں کہ جیسے میں نے انکے شعر پر ھاتھ صاف کر دیا ھے۔ مجھے ایک دو نے تو کہہ بھی دیا ،،جیسے عمران اعوان نامی کچا سا شاعر ھے مگر جب اس نے یہ کہا تو میں نے فرینڈ لسٹ سے اٹھا کر باھر دے مارا۔ جسکی گردن میں سریہ اس سرئیے کی دوری سمت کہاں تک گئی ھے ھمیں کیا معلوم ، ایسوں کو چھوڑ دینا بہتر ھے
کچھ شعرا بعض اچھے شعرا سے بہت متاثر ھوتے ھیں، ایسے فینز بھی چاھتے نہ چاھتے ھوئے اپنے پسندیدہ شعرا کی نقالی میں انہی کی زمین میں اسی قافئیے میں ویسے ھی مضامین باندھنے لگتے ھیں۔ جو سرقہ ھی ھے۔۔
میری ایک بہت پرانی غذل ھے جس کی ردیف ھی انوکھی ھے اور اس ردیف میں میرے سوا کسی نے کوئی غزل نہیں لکھی۔۔۔
- یہ جان و مال یہ گھر بار بھی کلیشے ھے *
یہ جان و مال یہ گھر بار بھی کلیشے ھے
یہ میری "مَیں” یہ مرا یار بھی کلیشے ھے
بس ایک یہ ترا انکار ھی کلیشے نہیں
اسی طرح مرا اصرار بھی کلیشے ھے
نہیں ھے ریگِ رواں کا کوئی وجود اگر
تو بُلبُل و گُل و گُلزار بھی کلیشے ھے
یقین کر یہ جو سایہ ھے یہ خیالی ھے
وُہ اس لئے کہ یہ دیوار بھی کلیشے ھے
نہ آئینہ کہیں موجود ھے نہ عکس اِس کا
یہ میری آنکھ کا زنگار بھی کلیشے ھے
یہ استعارے ، تراکیب اور تشبیہیں
یہ ناقدان کا معیار بھی کلیشے ھے
فراقِ یار بھی جعلی ، وصال یار بھی جُھوٹ
وُہ اس لئے کہ یہ دلدار بھی کلیشے ھے
فقیر و فُقر ندارد، سگانِ دھر بھی گُم
گلیم و جُبّہ و دستار بھی کلیشے ھے
دُکان ِ محض سے گاھک بھی کیا خریدے گا
ریال و درھم و دینار بھی کلیشے ھے
شکست و فتح بھی عنقا ھے لشکروں کی طرح
کمان و نیزہ و تلوار بھی کلیشے ھے
نہیں کہیں کوئی صحرا، ، کوئی بھی قیس نہیں
قیاسِ لیلیءِ درکار بھی کلیشے ھے
کوئی زلیخا نہیں اور کوئی نہیں یُوسف
یہ سارا مصر کا بازار بھی کلیشے ھے
طلسمِ ھوش رُبا کا کوئی جواز نہیں
امیر حمزہ و عیّار بھی کلیشے ھے
نہ شاہِ وقت ، نہ شہزادیاں نہ کوئی غلام
اور اُن کے ساتھ یہ دربار بھی کلیشے ھے
بہشت و دوزخ و برزخ کا ذکر کُفرِ عظیم
گُناہ گار و خطا کار بھی کلیشے ھے
نہ وُہ مدینہ ، نہ مکّہ، نہ غارِ ثَور و حِرا
نفاق و مومن و کُفّار بھی کلیشے ھے
وجود ِ کوہِ ندا کا اُدھر ثبوت نہیں
اِدھر یہ کوچہءِ مسمار بھی کلیشے ھے
بچا نہیں ھے کنارہ کوئی جُگالی سے
اسی طرف نہیں، اُس پار بھی کلیشے ھے
اب یہ غزل خاص طور پر پاکستانی مذھبی لوگوں کو بہت تکلیف دہ معلوم ھوئی اور انٹرنیٹ پر جا بجا 15 سال پہلے اس حوالے سے مجھے بُرا بھلا کہا گیا۔
چند سال پہلے ایک شاعر افتخار حیدر جی نے کوئی نظم لکھی جس میں کلیشے کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔ کسی نے کہا کہ بھائی رفیع رضا کی غزل موجود ھے۔۔آپ اپنی نظم پر نظر ثانی کریں۔ موصوف مجھ پر چڑھ دوڑے کہ میں نے انکی نظم کا چربہ غزل میں کیا ھے۔۔اور میری بات سننے سے پہلے ھی بھاگ گئے کہ دیکھو انٹرنیٹ پر ایک دھائی پہلے سے مخالفین یہ غزل لکھ چکے ھیں اور مجھے گالیاں دے چکے ھیں۔ چربہ میں نے نہیں کیا آپ نے غلطی سے کر لیا ھوگا۔۔ بعد میں دیکھا بیچارہ غریب ریٹائیرڈ مسکین صورت آدمی ھے تو میں نے دوستی کا ھاتھ بڑھایا تاھم اسکے دل کی مذھبی کدورت وھیں موجود ھے۔۔ شیعہ کبھی دھریہ نہیں ھو سکتے۔
سرقے کی سب سے پہلے قسم ، ھُو بہو سرقہ یا کسی کی تصنیف پر قبضہ خود ھی کرلینا یا عوام کی غلطی کی وجہ سے آپ کے نام وہ آرٹ لگ گیا تو مشہوری ایسے ھونے پر کہتے جانا کہ ھاں یہ کلام میرا ھے۔ اس قسم کا چربہ پاکستانی شاعر نزیر قیصر اور بھارتی شاعری قیصر الجعفری کے مابین ھوا ،،،جس میں نزیرقیصر کے نام میں لفظ قیصر اور جعفری صاحب کے قیصر ھونے کا فائدہ پاکستانی میڈیا نے جسے تحقیق کی عادت ھی نہیں، غزلیں نزیر قیصر کو دے دیں۔اور مشہور غزلیں دیں جو گائی گئی تھیں اور ریڈیو ٹی وی پر نزیر قیصر کا نام چل رھا ھے۔ جو بہت افسوسناک بات ھے۔
نزیر قیصر اب تک اپنی ایسی متنازعہ شاعری کا کوئی ثبوت نہیں دے سکے صرف زبانی دعوے کرتے ھیں۔ جبکہ وہ غزلیں نزیر قیصر کے مزاج کی بھی نہیں ھیں۔جیسے
تمھارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے
میں ایک شام چُرا لُوں اگر بُرا نہ لگے
قیصر الجعفری۔۔یا۔۔نزیر قیصر۔۔۔
اسی طرح
دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے۔۔۔
ان دونوں غزلوں کے بارے شمس الرحمن فاروقی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ قیصر الجعفری کی ہیں۔
لیکن نزیر قیصر منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ہیں
ھمارے پاکستان کا کلچر بڑا بوسیدہ ہے یہاں سچی بات پوچھنے اور کہنے والے کو بدتمیز کہا جاتا ھے،،،مجحے شاید سب سے بدتمیذ شاعر کہا جاتا ہے مگر میں سچ پوچھنے سے نہیں رُک سکتا کوئی کیوں نہیں پوچھتا نزیر قیصر سے ۔۔؟ وحید احمد، حفیظ اللہ بادل،،امداد آکاش یہ سب کیوں خاموش ہیں؟۔۔
میرے ایک مشہور شعر کا ایک مصرع نزیر قیصر کی ایک کمزور غزل کے مصرعے جیسا ھے۔لیکن میں کسی صورت اپنے مصرعے سے دستبردار نہیں ھو سکتا۔
میں سامنے سے اُٹھا اور لو لرزنے لگی
چراغ جیسے کوئی بات کرنا چاھتا تھا
رفیع رضا
اور اگلی قسم کا چربہ ایسا دلچسپ ھے کہ آپ نے اسے چربہ نہ سمجھا ھوگا۔۔مگر چربہ ھی ھے۔۔وہ ایسے کہ مثال کے طور پر ایک منظر ھے جس میں دیوار ھے۔
اب اس دیوار اور تصویر پر مبنی منظر کے اشعار ھونگے جن میں لازمی تصویر ،،اور اپنی تصویر کے ھونے کی بڑائی کسی صورت ظاھر ھوگی۔۔یہ پاکستان کے شعرا میں کوئی 15 برس پہلے سے مقابلہ جاری ھے۔۔
میرا نوجوانی کا ایک شعر دیکھیں
لہو تصویر سے نکل آیا
کیل دیوار میں لگایا تھا
رفیع رضآ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم جو دیوار پہ تصویر بنانے لگ جائیں
تتلیاں آ کے ترے رنگ چرانے لگ جائیں
ندیم ناجد
ایک تصویر جو کمرے میں لگائی ہوئی ہے
گھر کی ٹوٹی ہوئی دیوار چھپائی ہوئی ہے
راشد امین
ایک دیوار سے اتری تصویر..
ساری دیواروں سے آہیں نکلیں
کونین حیدر
تم میری تصویر بنا کر لائے ھو
یعنی میں دیوار سے لگنے والا ھوں
قمر جلالوی
زخمِ دیوار بتاتا ہے منیر
ایک تصویر یہاں تھی پہلے
منیر سیفی
عین دیوار کے ظاھر ھونگے
میرے تصویر ھٹا دی گئی ہے
ندیم بھابھہ
یہ جو دیوار پہ تصویر ہے یہ کچھ بھی نہیں
وہ جو تصویر میں دیوار ہے کیا ٹینشن ہے
ادریس بابر
ﺗﺮﯼ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮨﭧ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﻟﯿﮑﻦ
ﻧﻈﺮ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ
تہذیب حافی
ﺍﯾﮏ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﻮ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﻣﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﺭﮨﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﻣﺠﮭﮯ.
کاشف غائر
اس کی تصویر پھینک دی ہے مگر
کیل دیوار میں گڑی ہوئی ہے
عمار اقبال
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﭨﺎﻧﮏ ﺩﯼ ﺍﭘﻨﯽ
ﻭﺭﻧﮧ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮔﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﮭﯽ
ﺳﺮﻓﺮﺍﺯ آﺭﺵ
میرا تصویر سے معاملہ ہے
مجھے دیوار کی خبر کم ہے
محمد عامر۔
میں نے تصویر دیکھ لی تیری ۔۔
اور پھر ناچنے لگا کمرہ ۔۔
راشد امام
اس نے دیوار پہ تصویر لگائی تیری.
تو نے دیوار سے دیوانہ لگا رکھا ہے
عبدالقادر تابان
جو چپ چاپ رہتی تھی دیوار پر
وہ تصویر باتیں بنانے لگی
عادل منصوری
ایک کمی تھی تاج محل میں
میں نے تری تصویر لگا دی
کیف بھوپالی
کبھی دیوار سے تصویر اُتاری تھی کوئی
اب کہیں دیکھوں تو چبھتی ہے کوئی کیل مجھے
سعید شارق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب میرا شعر دیکھیں
میری دیوار پر لگا ، واپس
وُھی تصویر مہربانی کی
رفیع رضا
،،،،،،،،،،،،
اوپر کے شعر آپ نے دیکھ لئے۔۔ اپ دوبارہ ان پر غور کریں تو معلوم ھوگا کہ تمام شعرا نے دیوار کو ظآھر دیوار اور تصویر کو واقعی ظاھری تصویر استعمال کیا ھے
اور میرے شعر کو دیکھیں؟
میری دیوار پر لگا ، واپس
وُھی تصویر مہربانی کی
رفیع رضا
اپنی تعریف برحق کرنے کی کوشش کر رھا ھُوں کہ میں کسی کی شاعری کے خیال سے آسانی سے متاثر نہیں ھوتا ، میرے شعر میں نہ تو ظاھری دیوار کا ذکر ھے نہ ھی ظاھری تصویر کا۔بلکہ جو منظر بنایا ہے وہ استعاراتی تلازمہ ہے۔
باقی آپ کی پسند و ناپسند آپکا معاملہ ھے۔
اوپر کے اشعار میں زیادہ تر شعرا نے ایک دوسرے کی نقالی میں دیوار اور تصویر کا منظر بنایا ھے۔ ندیم بھابھہ نے بے جا تعلی کا شعر بنایا جسکا کوئی مفہوم معلوم نہیں ھوتا۔ کیا دیوار پر بھابھے کی تصویر اس لئے لگائی گئی ھے کہ پیچھے دیوار پر کوئی داغ تھا یا پلستر اُکھڑا تھاَ؟ تو اس کی مرمت کر لیتے۔
سرفراز آرش نے تو بہت ھی بڑی تعلی باندھی۔۔۔ دیوار گرنے والے تھی میری تصویر لگائی تو اب نہیں گِرے گی۔۔ اُف یہ بھی شاعری کہلاتی ھے؟
ویسے راز کی بات بتاؤں، صوفیا کے نزدیک تصویر۔۔۔یہ عالم موجود ھے اور اصل غیر موجود ھے۔۔
اب واپس اوپر جائیں اور پھر وہ اشعار پڑھیں تو جانیں گے۔۔ کون صوفی ھے ! کون صوفی کے بھیس میں سیاسی ھے!
خیر یہ تو اجتماعی پلیجر ازم ھے۔۔سب ایک دوسرے کا سرقہ فرما رھے ھیں۔
،،،،،،،،،،،
آج انگلینڈ میں بیٹھے خود کو ندیم بھابھہ کی طرح درویش ظاھر کرتے حضرت علی ارمان جی کی ایک تازہ غزل نظر سے گزری اور میں نے نہیں بلکہ بہت سے دوستوں نے یہی بات نوٹ کی جو بالکل درست اور برحق ھے کہ علی ارمان کی غزل ، اصل میں بہت اعلی شاعر ذو القرنین حسنی کی ایک نظم سے متاثر ھو کر کہی گئی ھے۔
یہ متاثر ھو کر کہنا ،، بالکل اقبال والی حرکت ھے ۔۔ جیسے ستاروں سے آگے کمند ڈالنا۔۔۔بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانا۔۔۔جیسے سجدہ کرنے پر زمین سے صدا آنا ،،جیسے اقبال کی نظم بہار ھو کہ خزاں ، لا الہ اللہ سے متاثر ھو کر بشیر الدین محمود صاحب کی نظم ۔۔ھے دستِ قبلہ نما لا الہ الا اللہ۔۔۔یا مرزا صآحب کی نظم سے اقبال نے ارادہ پکڑا؟
۔
یا پحر میری غزل۔۔۔گھر بار بھی کلیشے ھے،،، کی بنیاد پر نظم میں کلیشے ھر چیز کو کہنا۔۔وغیرہ متاثر ھو کر شعر کہنے کی امثال ہیں۔
دونوں کی شاعری یعنی حسنی کی نظم اور علی ارمان کی غزل تصویر میں لگا دی ھے۔یاد رھے علی ارمان ، بھابھہ اور امیر حسین جعفری کے بہت سگے ھیں۔اور یہ ایک دوسرے کے لئے مہم چلاتے ھیں۔ فتوے لیتے ھیں فتوے دیتے ھیں۔ جیسے دو لخت شعر کے بارے امیر حسین جعفری کا کہنا کہ انڈیا اور پاکستان سے کوئی بھی اُن سے پوچھ لے فلاں شعر دو لخت نہیں ھے
جبکہ خود جعفری جی کی اپنی بےوزن نظم کی میری کی گئی تقطیع کے بعد بھی اخلاقی جرات کا نہ ھونا کہ غلطی مان لیں۔ کہ یہ رن آن لائن کی فحاشی نہیں بلکہ عروض کا بلاد کار ھے۔
کون لوک او تُسیں ۔۔۔۔؟۔۔
میرے اس مضمون کے پوسٹ کرنے کے بعد افتخار جعفری جو پاکستان کے سرکاری آئینی مسلمان شیعہ شاعر ہیں، نے مجھے اسلامی گالی دی اور کہا غیرت ہے تو غزل کب لکھی تھی بتاوں،،، سو اس میں غیرت بےغیرتی کہاں سے آ گئی۔۔ ایسا رویہ پاکستانی معاشرے کے اخلاقی انحطاط کا عکاس ہے۔۔چاھیئے تو یہ کہ بتا دیں اگر یا نہیں تو انداز ے سے بتا دیں نطم کب لکھی۔۔۔۔ ؟ اور یوں بھی نظم سے متاثر ہو کر غزل نہیں کہی جاتی یہ اُلٹا طریق ہوتا ہے۔ یعنی غزل سے متاثر ہو کر نظم ضرور کہی جاتی ہے۔۔
پلیجر ازم کی اگلی قسم ، موزیک یا پیچورک نقالی کہلاتی ہے
اس میں کسی سورس کے الفاظ و خیالات کو توڑ کر اپنے الفاظ سے اُسی چیز کو بیان کیا جاتا ھے،،درحقیقت اقبال کے ماخوذ کا تعلق اسی قسم کے پیچ ورک یا موزیک سے ھے جس میں بنیادی خیال کو ذرا بدل کر بیان کر دیا جاتا ھے،،،جیسے اقبال نے میٹلڈا می مشہور حمد میں لفظی تبدیلی تو کی مگر بنیاد خدا سے دُعا کی ہی رکھی۔۔۔
I. “God make my life a little light”
By Matilda Barbara Betham-Edwards (1836–1919)
GOD make my life a little light
Within the world to glow;
A little flame that burneth bright,
Wherever I may go.
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
God make my life a little flower,
That giveth joy to all,
Content to bloom in native bower
Although its place be small.
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
God make my life a little song
That comforteth the sad;
That helpeth others to be strong,
And makes the singer glad.
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
God make my life a little staff,
Whereon the weak may rest,
That so what health and strength I have
May serve my neighbours best.
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
God make my life a little hymn
Of tenderness and praise;
Of faith—that never waxeth dim,
In all His wondrous ways.
مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو
۔۔۔۔
یہاں اقبال نے بنیادی خیال بچے کی خدا سے رھبری کی دعا کو قائم رکھا ھے،
۔۔۔مزید میں یہ پہلے لکھ چکا ھُوں حوالے کے لئے شامل کر رھا ھُوں
۔۔۔
مثلاً
بھارتری ہری کہتا ہے
Wanting to reform the wicked with nectar sweet advice, is like trying to control an elephant with the pith of a lotus stem, or cutting a diamond with delicate petals of the Shireesh flower, or sweetening the salty ocean with a drop of honey. The creator has provided only one means for hiding one’s ignorance
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
(بھرتری ہری( اقبال
پس اقبال کافی حد ترک ایک اچھے شاعر مترجم تھے اور انہین اسی حیثیت سے جانا جائے تو سچی تاریخ مرتب ہوگی۔پاکستان میں اقبال کی شاعری پڑھنے والے ایسی باتوں سے بالکل واقف نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ایسا اشعار اور نظمیں خود اقبال کی ذاتی فکر کا پھل ہیں جبکہ یہ درست نہیں اصل میں ایسی نظمیں اور بےشمار اشعار مختلف مشہور اور اہم شعرا و فلسفیوں کی اصل کاوشیں ہیں جنکو اقبال نے خوبی سے شاعری میں یا نثر میں ترجمہ کیا ہےجس کا انکا کریڈٹ ملنا چاہئیے۔
ایک سروے جو میں نے 2010 میں پاکستان میں کیا تھا ایک ہزار افراد سے پوچھا کہ اقبال کی نظم ، لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، کیا اقبال کی اپنی فکری کاوش ہے یا کسی اور کی شاعری کا ترجمہ یا اکتساب؟
جواب میں پورے ایک ہزار کا یہی جواب تھا اقبال کی اپنی فکر کا پھل یہ نظم ہے۔۔ جبکہ تاریخی سچائی یہی ہے کہ اقبال نے ترجمہ و اکتساب کیا تھا۔انکی اپنی فکر صرف شعر کی بنت اور اسے خوبصورت بنانے میں صرف ہوئی۔
پس میرا اصرار ہے کہ تاریخی سچائی کو عین پوری سچائی ہی سے بیان کیا جائے۔۔ اس سے اقبال سے منسوب بہت سے جھوٹے دعوے ختم ہوں گے اور ہم ایک اچھے شاعر کی شاعری کا ماخذ جان کر اسکی شاعری کے ہنر کی تعریف کر سکیں گے۔
لیکن عجب قصہ ہے کہ وہ نسل جو اقبال کا سرکاری الاپ الاپتی رہی ہے وہ کچھ سننے کو تیار نہیں ہےاور دھمکی گالی، فتوی بازی، ذاتی دشنام پر اتر آتی ہے۔
سنسکرت کے اُس عظیم شاعر بھارتری ہری کی کچھ اور شاعر دیکھیں کیسی نئی اور خوبصورت ہے۔ آج کی اردو شاعری کیسے اسکے سامنے ماند ہے۔آئیے دیکھیں۔
The clear bright flame of a man’s discernment dies:
When a girl clouds it with her lamp-black eyes.
[Bhartrihari #77, tr. John Brough; poem 167] …
عقل مند کے ساتھ خطرے میں کود جانا بے وقوف کے ساتھ سیر کو نکل جانے سے بہتر ہے۔
(بھرتری ہری)
عقل ہے محوِ تماشائے لب بام۔۔۔۔۔کا منبع معلوم ہوگیاَ؟
دشوار گزار پہاڑوں پر درندوں کی صحبت بہتر لیکن بےوقوف کی صحبت راجہ اندر کے محل میں بھی ناقابل برداشت ہے
(بھرتری ہری)
’’جو شخص عورت کو کمزورکہتا ہےوہ بلاشبہ عورت کی فطرت سے ناواقف ہے.”
(بھرتری ہری)
اسی طرح ، اقبال ، خوشحال خان خٹک سے سخت متاثر تھے اور اس بات کا ثبوت ان کےکئی اشعار میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اقبال نے ان کو بہت دھیان سے پڑھا ہے اور خوشحال خان خٹک کی عظمت کی اگر بات کی جائے تو اقبال بہتر جاننے والوں میں سے ہیں، اقبال کے بہت سے اشعار دراصل خوشحال خآن خٹک کی شاعری کا ترجمہ ہیں، اقبال کہتے ہیں۔
خوش سرود آن شاعر افغان شناس
آنکه بیند باز ګوید بې هراس
آن حکیم ملت افغانیان
آن طبیب علت افغانیان
راز قومی دید و بیباکانه ګفت
حرف شوخی رندانه ګفت
علامہ اقبال نے خوش حال خان کی وصیت کو اپنی زبان میں یوں پیش کیا ہے
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جوڈالتے ہیں کمند
اڑاکرنہ لائیں جہاں بادکو
مغل شاہ سواروں کی گرد سمند
اس طرح بہ زبان فارسی بھی علامہ اقبال نے خوش حال خان کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے
خوش سروداں شاعر افغان شناس
ہر چہ بیند بازگویدے ہراس
آں حکیم ملت افغانیاں
آں طبیب علت افغانیاں
راز قوے دیدوبے باکانہ گفت
حرف حق بازوخئی رندانہ گفت
اقبال کے خط کے ایک پیرا گراف کا فورینزک تجزیہ
عطیہ فیضی کے نام اقبال کے خط سے اقتباس
ایک انسان کی حیثیت سے مجھے مسرت کے حصول کا حق حاصل ہے۔اگر معاشرہ یا فطرت میرے اس حق سے انکار کریں گے تو میں دونوں کے خلاف بغاوت کروں گا۔میرے لئے صرف ایک ہی چارہ ہے کہ میں اس بدبخت ملک کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دوں یا مَے خواری (شراب نوشی) میں پناہ ڈھونڈوں جس سے خود کشی آسان ہو جاتی ہے۔ کتابوں کے یہ مردہ بے جان اور بنجر اوراق مسرت نہیں دے سکتے اور میری روح کے اعماق میں اس قدر آگ بھری ہوئی ہے کہ میں ان کتابوں کو اور ان کیساتھ ہی معاشرتی رسوم و روایات کو بھی جلا کر خاکستر بنا سکتا ہوں۔‘‘
اقبال اس میں اپنا استحقاق بتاتے ہیں کہ اُنہیں لذت و خوشی (جسمانی تلذذ) کی خواہش ہے جو انہیں ویسی میسر نہیں جیسی وُہ فینسٹیسائز کرتے ہیں، یعنی اقبال کو پہلی بیوی سے جسمانی جنسی تلذذ ملنے کے باوجود وہ کچھ ایسا چاہتے ھیں جو صنف مقابل کے بارے میں انکے خیالات میں موجزن ہے۔
یہاں وُہ خانگی ادب آداب کی کمی کی شکایت نہیں کرتے بلکہ اصل میں میاں بیوی کے باہمی تعلق میں جسمانی کشش اور ذہنی کم آہنگی کی شکایت کرتے ہیں۔
وہ صاف صاف کہتے ہیں وہ سرخوشی کے انسانی حق کے تحت چاہتے ھیں کہ انکی جنسی (فطری) جبلت کو ویسی تسکین ملے جیسی وہ چاہتے ہیں۔
فطرتی اعتبار سے اور سماجی پابندیوں کی وجہ سے جنسی اختلاط کی آزادی اُس وقت ہندوستان میں ایسے میسر نہ تھی کہ اقبال اُس سے متمتع ہوتے ، خاص طور پر جب وہ جرمنی میں دوران تعلیم یہ فطری آزادی دیکھ آئے تھے انہیں ہندوستان میں ایک مدقوق گھر میں اپنی بیوی سے وہ رغبت نہ تھی جو انہیں جرمنی میں بآسانی وافر میسر تھی۔۔۔ اسی لئے اقبال نے معاشرہ یا فطرت کے خلاف بغاوت کے حق کو استعمال کرنے کی دھمکی دی۔۔
وہ اپنی ذاتی ناخوشی کی وجہ سے ملک ہندوستان کو بدبخت کہنے لگے۔۔۔ یعنی جب کسی خطے میں آپ کے مطلوبہ حقوق میسر نہ ہوں تو آپ اپس خطے کو بدبخت کہنے کا حق رکھتے ہیں۔ یہ اہم نکتہ ہے کیونکہ اقبال، کہہ چکے تھے کہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ بھی کہہ چکے تھے کہ جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اُس کھیت کے ہر خوشہِ گندم کو جلا دو۔۔۔۔۔۔ پس وہ ملک کو بدبخت کہنے پر مائل ہوگئے کیونکہ یہاں انکی ذاتی انفرادی انسانی تلذذ کی راہ بند معلوم ہوتی تھی۔۔ وہ اپنی بیوی کو چھوڑدینا چاہتے تھے لیکن انکے والد یہ نہین چاہتے تھے۔۔ جبکہ انکے دو بچے بھی تھے ۔۔۔
انہوں نے لکھا کہ اگر وہ ملک نہ چھوڑ سکے تو خود کو شراب میں اتنا غرق کر دیں گے کہ اسکا زہر ان کی جان لے لے۔۔۔ اس سے معلوم ہوتا ہے وہ کبھی شراب کثرت سے نہیں پیتے تھے کہ جسکا نقصان جگر کو ہونا شروع ہو جائے۔۔ اگر پیتے تھے تو بہت اعتدال کے ساتھ، جس میں طبی طور کوئی مضائقہ نہیں ہے۔۔
چونکہ اقبال عملی ملازمت نہیں کرتے تھے اس لئے مطالعہ اور لکھنے میں وقت صرف ہوتا ، اب اس مایوسی کی صورتِ حال میں انہیں اپنا مطالعہ کا کام بھی بے معنی لگنے لگا۔۔
وہ کہتے ہیں میں ان کتابوں کو اس ملک کی روایات سمیت جلا کر راکھ کر دوں گا میرے اندر اتنی تشنگی کی آگ بھری ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ یہ خظ عطیہ فیضی کے نام ہے جو جرمنی میں دوران تعلیم اقبال کے بہت قریب رہیں۔ رومانی تعلقات کے بعد وطن واپسی اور پرانے فرسودہ خاندان میں واپس آ کر رہنا اسی طرح مشکل ہوتا ہے جیسے آج بھی پاکستان سے کسی کا بیرونِ ملک رہ کر پاکستان میں واپس جا کر رہنا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے۔۔ بالکل یہی اپ سیٹ معاملہ اقبال کو پیش آیا تھا۔ اور اس کے پیچھے عطیہ فیضی سے انکو جو جسمانی اور ذہنی امیدیں وابستہ تھیں انکو پورا کرنے کے لئے اقبال شدید ترین بیتابی کا شکار ہوگئے ۔۔۔ ایسے خطوط آج بھی عاشق کی طرف سے محبوب کو لکھے جاتے ہیں۔ میں خود ایسی کیفیات سے بار بار گزرا ہوں، بہرحال اقبال ایک انسان تھے اور ان کی ایسے ذہنی و جسمانی تلذذ کی خواہش بالکل جائز تھی۔
انہی دنوں میں عطیہ فیضی کے ایک اور عاشقِ صادق شبلی نعمانی بھی عطیہ فیضی کو خط میں کہتے ہیں کہ ۔۔۔ جیسے مغلیہ شہنشاہوں کے قصیدوں میں انکو سایہ خدا کہا جاتا ہے ویسی غزلیں تو میں تمھارے لئے کہتا رہتا ہوں۔۔۔تاہم۔۔۔میرے جسم کا ہر رونگٹھااور ہر موئے بدن تمھارے لئے میری طرف سے ایک شعر ہے۔۔۔۔۔ یہاں شبلی بھی شدید جنسی تشنگی سے بھرے بیٹھے ہیں۔
دانشور ظہور ندیم لکھتے ہیں ۔
’’اقبال کی ازدواجی زندگی ہمیشہ ناہموار اور نا آسودہ رہی ہے ۔ ایک سے زائد شادیوں کی ایک وجہ یہ بھی تھی ۔ عطیہ فیضی نے کہیں ذکر کیا ہے کہ اقبال کی ذہنی صلاحیت اور اعتماد جو لندن کے قیام میں تھا وہ ہندوستان واپس لوٹ جانے پر ویسا نہیں رہا تھا ۔
متوسط طبقے کا کوئی شخص اگر وسیع مطالعے کی بنیاد پر اپنی فکری سطح میں کوئی غیر معمولی تبدیلی لے آئے اور اسے حسبِ منشا سماجی ماحول نہ ملے تو وہ دوبارہ قنوطیت کی طرف لوٹ جاتا ہے ۔ اقبال کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ سے واپسی کے بعد وہ ذہنی طور پر منتشر اور مایوس نظر آتے ہیں ۔ آخرکار وہ اپنی فکری سطح کو محدود کر لیتے ہیں اور پھر انہوں نے ایسے اشعار تخلیق کئے جو انکی سوچ کے تضاد کی عکاسی کرتے ہیں ۔ محدود سے محدود تر ہوتے ہوئے آخرکار وہ ایک تنگ نظر مسلمان شاعر بن کر رہ جاتے ہیں ۔”
علامہ شیخ محمداقبال صاحب نے 1897 میں مرزا غلام احمد قادیانی کے ہاتھ پر برضا و رغبت خود ہی بیعت کرکے جماعت عالیہ احمدیہ مسلمہ میں شمولیت اختیار کی تھی اورپھر1935 تک احمدی رہے لیکن 1935 میں جب قائد اعظم محمد علی جناح نے گول میز کانفرنس کیلئے اپنے وفد کا سربراہ ایک دوسرے احمدی سر چوہدری محمد ظفر اللہ خان کو نامزد کیا تو اس بنا پر علامہ اقبال صاحب ناراض ہوگئے اوراپنی سیاسی وجوہات کی بنا پر جماعت سے کچھ دوری دکھائی اور کچھ مخالفانہ باتیں بھی کیں لیکن اس کے باوجود اپنے ایک بھتیجے مکرم شیخ اعجاز احمد صاحب اور ان کے بیٹے کو جماعت کی بیعت کرنے کے لئے کہا تھا اور پھر انہیں اپنے دو بچوں کا سرپرست بھی مقرر کیا تھا ۔
1931 میں سر شیخ محمداقبال صاحب نےکشمیر کمیٹی کی صدارت کے لئے امام جماعت عالیہ احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کا نام خود پیش کیا جو کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے صاحبزادے تھے ۔ یہ تمام کاروائی آپ کتاب ‘‘ انوار بشیر ‘‘ پہلا ایڈیشن مطبوعہ 1993 از پاکستان ۔ دوسرا ایڈیشن مطبوعہ 2007 از برطانیہ ۔ تیسرا ایڈیشن مطبوعہ 2010 از جرمنی کے صفحات پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔
علامہ اقبال صاحب نے اپنی تحریرات میں اپنے بھائی مکرم شیخ عطا محمد صاحب کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ وہ احمدی تھے ۔ علامہ اقبال صاحب کے ایک بیٹے مکرم مظفر اقبال صاحب 1982 میں لندن میں فوت ہوئے ( یہ ان کی تیسری بیوی محترمہ مختار بیگم صاحبہ میں سے تھے ) جو کہ تادم حیات احمدی مسلمان رہے اور پھر یہی نہیں بلکہ خود علامہ اقبال صاحب کے والد محترم مکرم شیخ نور محمد صاحب بھی احمدی تھے ۔ یہ تمام باتیں تاریخ پاکستان کا حصہ ہیں لیکن افسوس کہ آج کا پاکستانی مورخ انہیں لکھتے ہوئے ڈرتا ہے ۔
بہرحال ’’ ایک روایت کے مطابق علامہ اقبال نے ….. مرزا غلام احمد قادیانی کے ہاتھ پربیعت کی تھی –‘‘
( ” اقبال اور احمدیت ” تصنیف : بشیر احمد ڈار)
1953ء کے فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت ( منیر انکوائری رپورٹ) میں خواجہ نذیر احمد چیئرمین سول اینڈ ملٹری بورڈ آف ڈائریکٹرز نے یہ بیان ریکارڈ کروایا کہ :-
’’اقبال نے 1893ء میں قادیان جا کر مولانا غلام محی الدین قصوری کے ہمراہ سلسلہ احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔‘‘
عدالت میں بیان دینے کے بعد جب خواجہ نذیر احمد صاحب کی بعد میں قصوری صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی تو انہوں نے بیعت کے سن کی تصحیح فرما دی – اور بتایا کہ علامہ اقبال نے میرے ہمراہ قادیان جا کر 1893ء میں نہیں بلکہ ــــــــــ 1897ء میں بعیت کی تھی – اس پر خواجہ نذیر احمد صاحب نے اگلے روز درخواست دیکر عدالت کے ریکارڈ میں سن کی تصحیح کرادی – ( بحوالہ: ” پاکستان ٹائمز ” لاہور 14 نومبر 1953ء) ۔
سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ آپ ادھر ادھر کے حوالہ جات تلاش کرنے کی بجائے وہ کتب پڑھیں کہ جو خود علامہ اقبال کے عزیزواقارب نے تحریر کی ہیں مثلا
علامہ اقبال کے بڑے احمدی بھائی مکرم ومحترم شیخ عطا محمد صاحب کے بیٹے مکرم شیخ اعجاز احمد صاحب نے ‘‘ مظلوم اقبال ‘‘ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے ۔ یہ وہی شیخ اعجاز احمد صاحب ہیں کہ جن کو علامہ اقبال صاحب نے اپنے آخری ایام میں اپنے بچوں جناب جسٹس جاوید اقبال صاحب اور بیٹی منیرہ اقبال صاحبہ کا سرپرست مقررکیا تھا ۔
اسی طرح اس خاندان میں اور کون کون احمدی ہیں اس کا ذکر پاکستان کےجسٹس جناب جاوید اقبال صاحب نے اپنی خودنوشت حیات کتاب ‘‘ اپنا گریباں چاک ‘‘ میں کیا ہے ۔ اب لوگ خود تو کوئی تحقیق کرتے نہیں بلکہ ‘‘ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ‘‘ کے مصداق ہمیں الزام دیتے ہیں کہ ہم لوگ کیوں حقائق سے پردہ اٹھا رہے ہیں ۔
اقبال نے جہاں انگریز شُعرا سے اکتساب کیا وہاں فارسی شعرا سے خیالات لا کر اپنی شاعری اُستوار کی۔۔۔۔ مثلا 1289 میں فوت ہونے والے مشہور شاعر فخر الدین عراقی کا شعر ہے
بہ زمیں چو سجدہ کردم، ز زمیں ندا برآمد
کہ مرا پلید کردی، ازیں سجدۂ ریائی
(فخر الدین عراقی)
کہ میں نے سجدہ کیا تو زمیں سے آواز آئی تُو نے ریاکاری سے بھر پور سجدے سے زمین کو پلید کر دیا۔
بالکل یہی خیال اقبال نے چُرا کر، جس کو اقبال پرست اکتساب اور نئی زبان ، مصرع مین جان ڈال دی کہہ کر ملفوف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ یہ چوری ہی ہے۔۔ خیر۔۔۔اقبال نے شعر کہا۔۔ اور میں اس شعر کا کافی شائق رہا ہوں جب تک مجھے عراقی کے اصل ماخذ کا پتہ نہین چلا تھا۔۔۔
میں جو سربسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
اقبال
بات یہ ہے سچ کو سچ کی طرح سے لکھیں جھوٹے مت بنیں ۔ یہ مت کہیں اقبال نے دوسرے مصرعے کی تبدیلی سے شعر میں جان ڈال دی۔ فخرالدین کا شعر بے مثال ہےاور اس میں کسی خاص مذہب کی جانب اشارہ نہیں۔ اقبال کا نماز کا لفظ اور صنم کا لفظ ، اسلامی مقامی خیال تک محدود ہے۔ اس لئے کم درجے کا ہے جبکہ فخر عراقی کا شعر بڑا اور خاکسساری سے پُر ہےاور اصلی سچے خیال کا عکاس معلوم ہوتا ہے۔۔
اقبال مغربی ادبیات سے پورے طورپر آگاہ تھے۔ انھوں نے ’’بانگِ درا‘‘ میں درجن بھر امریکی اور برطانوی شعرا:جیسے لانگ فیلو، ایمرسن، ولیم کوپر، ٹینی سن، براؤننگ، سیموئیل راجرز اور دوسروں کی نظموں سے اخذ و ترجمہ کیا ہے۔ ورڈز ورتھ کا انھوں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا اور ۱۹۱۰ء میں اپنی انگریزی بیاض میں لکھا تھا کہ ورڈز ورتھ نے انھیں الحاد سے بچایا۔ اسی طرح ملٹن کا بھی ذوق و شوق سے مطالعہ کیا۔ اپنے ایک مکتوب محررہ مارچ ۱۹۱۱ء میں یہ بات درج کی کہ ’’ملٹن کی تقلید میں کچھ لکھنے کا ارادہ مدت سے ہے اور اب وہ وقت قریب معلوم ہوتا ہے کیوں کہ ان دنوں وقت کا کوئی لحظہ خالی نہیں جاتا جس میں اس کی فکر نہ ہو۔‘‘ شیکسپیئر کو انھوں نے منظوم خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ گوئٹے سے بھی اقبال کا گہرا تعلق ہے۔ کیا مغربی ادبیات کے اس حصے سے آگاہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اقبال پر مغربی جدیدیت کے اثرات تھے؟ جواب ہاں اور ناں دونوں میں ہوگا۔ ۔ دراصل اقبال نے مغربی ادبیات سے اخذ و استفادے کا عمل اپنے ابتدائی دور میں شروع کیا اور ۱۹۱۰ء تک ان کا شعری مائنڈ سیٹ متشکل ہو چکا تھا۔ اپنے ابتدائی دور میں اقبال کا مغربی ادبیات سے تعلق تقلیدی ہے، انھوں نے کئی مغربی نظموں کو پورے کا پورا اور کہیں مغربی نظموں کے کچھ مصرعوں کو ترجمہ کیا ہے۔ جیسے’’کوپر‘‘ کے اس مصرعے:
And, while the wings of fancy still are free
کو نظم ’’مرزا غالب‘‘ کا یہ مصرع بنا دیا ہے :
ہے پرِ مرغِ تخیّل کی رسائی تا کجا
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اقبال نے مشرقی ادبیات کی روایت کو کھو جا ہی نہیں تھا اسے مرتّب بھی کیا اسکا بھر پور فائدہ اُٹھایا۔ مغرب کے ساتھ ساتھ مشرق کی شاعری کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبال نے فارسی، عربی، اُردو، سنسکرت، ادبیات کو ایک روایت ٹھہرایا اور اسے اپنی شاعری کی روحِ رواں بنایا۔ ان کے یہاں فارسی شعرا ملّا عرشی، ابو طالب کلیم، فیضی، صائب، مرزا بیدل، عرفی، خاقانی، انوری، سنائی، حافظ، سعدی ، فخر الدین اور سب سے بڑھ کر فکر رومی کے اثرا ت بالواسطہ اور بطور تضمین ملتے ہیں۔ عربی ادبیات سے انھوں نے ہر چند کسی مخصوص شاعر کے اثرات نہیں لیے مگر عربی شعریات کے اصول سادہ بیانی اور صحرائیت پسندی ضرور قبول کیے۔ مولانا غلام رسول مہر نے جب طلوعِ اسلام پر تنقید کی تو اقبال نے جواب دیا کہ ’’میں عربی شاعری کی روش پر بالکل صاف صاف اور سیدھی سیدھی باتیں کہہ رہا ہوں۔‘‘
اردو ادب کے طالب علموں کو معلوم ہونا چاہیے کہ علامہ اقبال کی کئی شہرہ آفاق نظمیں بھی غیر ملکی ادب سے اخذ شدہ ہیں۔ ان میں \’ماں کا خواب\’، \’بچے کی دعا\’، \’ایک مکڑی اور مکھی\’، \’ایک گائے اور بکری\’، \’ایک پہاڑ اور گلہری\’ (ماخوذ ازایمرسن) \’ہم دردی(ماخوذ ازولیم کوپر)، \’آفتاب\’ (ترجمہ، گایتری) \’پیامِ صبح\’ (ماخوذ از لانگ فیلو)،\’عشق اور موت\’ (ماخوذ ازٹینی سن)ِ، \’رُخصت اے بزمِ جہاں\’ (ماخوذازایمرسن) وغیرہ۔
اقبال کو دہریت سے کسی المشہور بہ الہامی کتاب۔۔قرآن وغیرہ نے نہین بچایا۔۔۔۔۔بلکہ۔۔۔۔۔ایک انگریز شاعر نے بچایا۔۔۔۔
مخزن کے پہلے شمارہ ﴿اپریل ۱۹۰۱ء ﴾ میں اقبال کی نظم “کوہستان ہمالہ” کے عنوان سے شائع ہوئی جس پر اڈیٹر کی طرف سے یہ نوٹ ہے۔
شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے قائم مقام پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور جو علوم مشرقی اور مغربی دونوں میں صاحب کمال ہیں، انگریزی خیالات کو شاعری کا لباس پہنا کر ملک الشعراانگلستان ورڈسورتھ کے رنگ میں ہمالہ کو یوں خطاب کرتے ہیں۔
اپنی ابتدائی شاعری میں اقبال نے مغربی شاعروں سے بھر پور استفادہ کیا۔ اس کے متعلق لکھتے ہیں۔
“میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ہیگل، گوئٹے، غالب، بیدل، اور ورڈ سورتھ سےبہت استفادہ کیا ہے۔ ہیگل اور گوئٹے نے اشیاء کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ غالب اور بیدل نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ مغربی شاعری کے اقدار کو سمولینے کے باوجود اپنے جذبہ اور اظہار میں مشرقیت کی روح کو کیسے زندہ رکھوں اور ورڈسورتھ نے طالب علمی کے زمانے میں مجھے دہریت سے بچالیا”
اقبال پر تعمیری تنقید و گفتگو کی اصل وجہ کیا ہے؟
چونکہ پاکستان کی گزشتہ حکومتوں نے اقبال سے منسوب شاعری اور فکرو فلسفہ کو عوام کے درسی نصاب میں زبردستی شامل کر رکھا ہے،اور ایک مخصوص زاوئیے سے اقبال سے ایک خاص شدت پسندانہ مذہبی سوچ منسوب کی ہوئی ہے، جس کے انکاری خود اقبال کے قابل بیٹے جسٹس جاوید اقبال بھی ہیں، اور بے شمار مشاہیر و علماِ تاریخ نے اقبال کی شاعری اور علم و فکر کا جائزہ مختلف نتیجے پر منطبق کیا ہے تو اس لئے یہ ضروری ہے کہ اقبال سے منسوب گمراہ کُن ، اور حکومتی پراپیگنڈے کی بجائے ثبوت اور دلیل کے ساتھ اصل اقبال کو اسکی شاعری ، فکر اور فلسفے میں پیش کیا جائے۔
تاریخ کا پہلا حوالہ علی عباس جلالپوری جیسے عالم کا ہے جس نے اقبال کی فکر اور فلسفے کو ایک متکلم کی سوچ قرار دیا، یاد رہے متکلم ایسا سوچنے والا ہوتا ہے جو اپنے ایمان و عقیدے کی حقانیت کو اولیت دے کر سائینسی اور زمانی مشاہدوں کی تشریح اپنے اُن عقائد کے ذریعے پیش کرتا ہے جن پر اسکا ایمان ہوتا ہے۔
جہاں کہیں ایمان سے باہر کوئی مشاہدہ یا جلوہ ہو تو اُس کے بارے میں خلفشار کا شکار ہو جاتا ہے۔
اقبال کے ذہنی و فکری خلفشار کے مختلف ثبوت اور نمونہ جات، میں اپنے مختصر مضامین میں بیان کرتا رہتا ہوں، ایسا کرنے کا مقصد ہرگز اقبال کی شخصیت، خاندان سے کوئی دشمنی نہیں بلکہ اقبال کی فکری و شاعرانہ اصلیت کا درست جائزہ سامنے لانے کی کوشش ہے،
بعض نابکار میرے ایسے استنباط و دلائل کے جواب میں ذاتی رکیک حملے کرتے ہیں، کچھ کہتے ہیں، اقبال کے پیچھے کیوں پڑ گئے؟ اقبال نے تمھارا کیا بگاڑا ہے؟ کچھ کہتے ہیں تم اقبال جیسا ایک شعر کہہ کر دکھاو تو مانیں
ایسی لایعنی باتیں اور مبازرت بھرے کلمے خود ظاہر کرتے ہیں کہ اس معاشرے کو اقبال کی اصل فکری روش سے متعارف کروانا اور بھی ضروری ہو گیا ہے کیونکہ یہ وُہ پود ہے جو مسلسل جھوٹے رُوپ کے درشن کر کے اقبال کو ناحق ایک مذہبی بزرگ قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے اور اسکی وجہ اسکی وہ درسی معلومات ہیں جو اقبالیات کے شعبے نے خاص حکومتی شہہ پر جھوٹے طور پر اقبال سے منسوب کی ہیں۔
بعض نام نہاد پروفیسران تو ایسے آپے سے باہر ہوئے کہ اقبال کے معزز بیٹے جاوید اقبال کے ساتھ گفتگو کے دوران انکو جھٹلانے کی کوشش کرتے رہے۔ جبکہ جسٹس جاوید اقبال انتہائی لبرل سوچ کے دانشور تھے۔ انکے بقول پاکستان، ہندووں نے بنایا ہے۔ اقبال نے کبھی پاکستان بطور ایک الگ آزاد ملک کے کوئی تصور نہیں دیا تھا۔
افسوسناک بات یہ ہےکہ پاکستان کے ٹی وی ریڈیو اخبارات دن رات اقبال کو مفکرِ پاکستان کہتے ہیں اس طرح ایک چالیس پچاس سال کی عمر تک کی نسل کو گمراہ کر دیا گیا ہے۔
اقبال پر اس لئے بھی سچی تعمیری تنقید لازم ہے کہ اقبال کو ایک بزرگ و مصلح کے طور پر پیش کیا جاتا ہے پس اس حوالے سے کوئی بھی جھوٹ اُن سے منسوب کر دینے سے سننے والا اقبال کے نام سے گمراہ ہوتا ہے۔
مثلآً اقبال سے منسوب ہے کہ ایک قاتل علم دین کے ناجائز عمل کو اقبال نے خوب اچھا کہا اور کہا کہ
’’ترکھاناں دا مُنڈا بازی لَے گیا۔۔اسیں ویکھدے رہ گئے۔‘‘
یعنی یہ بات کہنے والے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ توہینِ رسول کرنے والے کو قتل کرنا اقبال کے نزدیک بہت احسن اقدام تھا۔ لیکن اصل اقبال ایسے قتال پر اسطرح اُکسانے والا معلوم نہیں ہوتا۔
اس مثال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے بیانات و فکر و تشریح سے اقبال کو ایک شدت پسند، قاتل ذہن، ٹھیٹھ مسلمان ، موقع پرست انسان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو ایک غلط بات ہے۔
میری تحقیق و تبصرہ، اقبال بطورِ انسان، بطورِ شاعر، بطورِ مفکر، بطورِ فلسفی یا متکلم ، بطورِ باپ، بطورِ شوہر، بطورِ نثر نگار ، ، اقبال کیسے تھے پر مشتمل ہے۔
مجھے اقبال سے پرخاش نہیں بلکہ اقبال سے منسوب پاکستان حکومتوں اور جعلی یک نظر مقالوں سے پرخاش ہے۔ اور میں ایسے تمام مقالے رد کرتا ہوں جو اقبال کو ایک آفاقی فلسفی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور جو دوسرے مغربی و مشرقی مشاہیر و شُعرا کے کلام پر مبنی اقبال کے کلام کو اقبال کا ہی کلام کہہ کر پیش کرتے ہیں۔
یعنی جیسے مغربی شُعرا کی شاعری کے تراجم والی اقبال کی شاعری، یا مقامی شعرا خوش خان خٹک، رومی، حافظ، اور ہندی شُعرا سے اکتساب و ترجمہ۔ یہ سب باتیں خالص ادبی لوازمات ہیں۔
لیکن میں کسی طرح بھی اس بات پر راضی نہیں ہو سکتا اور نہ آپ کو ہونا چاہئیے کہ جو شاعری مغربی و مشرقی شُعرا سے اکتساب ہے یا ترجمہ ہے یا ماخوذ ہے اُسے خالصتاً اقبال کی اپنی شاعری کا درجہ دے کر مضامین میں انکے حوالے استعمال کئے جاویں۔
میں سمجھاتا ہوں، کہ جب کسی تقریر میں اقبال پر بات کرتے ہوئے اقبال کی اعلی سوچ کی تعریف کرتے ہوئے حوالہ دیا جائے کہ اقبال کہتے ہیں کہ
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہین کمند
تو ۔۔ قارئینِ کرام ! ساری تقریر ہی جھوٹ پر مبنی ہے، یہ اقبال کے الفاظ نہیں ہیں ،یہ خالصتاً پشتو کے شاعر خوشحال خان خٹک کا کلام ہے جس کا ہو بہو ترجمہ اقبال نے کیا ہے۔
یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے کہ آئیں بائیں شائیں کر کے آپ کہہ دیں کہ تو کیا ہوا ،دوسرے شعرا بھی اور زبانوں کے شعرا کی شاعری کا ترجمہ کرتے رہے ہیں۔۔لیکن جناب،دوسرے ایسے شعرا پر مضامین و تقاریر کرتے ہوئے انکے تراجم کو ان کی اپنی تخلیق نہیں قرار دیا جاتا۔
ایک بار تو حد ہی ہو گئی۔ لاہور میں اقبال ڈے پر، کچھ انگریز مدعو تھے۔ کسی بُدھو نے جسے معلوم نہ تھا کہ بچے کی دُعا اقبال کی نظم ، اصل میں انہیں برٹش انگریزوں کی مشہور شاعرہ میٹلڈا ایڈورڈ کی حمد کا ترجمہ ہے۔ اس نظم کو اقبال کی اعلی تخلیقِ ذاتی کہہ کر پیش کیا۔
یہ اس لئے ہوا ہے کہ درسی کتاب میں واضح طور کبھی بھی یہ نہیں لکھا گیا کہ یہ نظم کس شاعرہ کی ہے اور نہ کبھی اُس شاعرہ کی تعریف کی گئی ہے۔ جو ادبی ہی نہیں اخلاقی بددیانتی ہے۔اگرچہ اقبال نے اپنی کتاب میں لکحا کہ یہ ماخوذ ہے۔۔مسءلہ پاکستانیوں کا ہے وہ کیوں لوگوں کو بتانا نہیں چاہتے کہ نطم اصل میں ایک اچھا ترجمہ ہے۔؟!
اقبال کی شکوہ جواب شکوہ کا بنیادی تصور ملٹن کی مشہور زمانہ پیراڈائز لاسٹ اور پیراڈائز ری گین سے لیا گیا ہے ۔ اگر آپ اقبال کی شاعری پڑھ کر ملٹن کی شاعری کا پڑھیں تو آپ بلاجھجک یہ بتا سکتے ہیں کہ اقبال کی شاعری کے بنیادی خیال کہاں سے ماخوذ ہیں۔ اس لئے ہمارے محب وطن پاکستانی بڑے فخر سے یہ کہتے ہیں کہ ملٹن مغرب کا اقبال ہے جبکہ ملٹن کا ظہور اس دنیا میں اقبال سے پہلے ہوئے لہذا یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ اقبال مشرق کا جان ملٹن ہے


ہم جنس پسندی کی تاریخ
سعودی عرب کے سابق گرینڈ مفتی شیخ عبدالعزیز بن باز کے شاگرد رشید، ڈاکٹر سلمان العودہ نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم جنس پسندی کی اس دنیا میں کوئی سزا نہیں ہے اور ہم جنس پسند اس فعل کی وجہ سے اسلام سے خارج نہیں ہوتے- ان کے مطابق اس جرم کی شرعی سزا جو کہ سنگسار کیا جانا ہے، بذات خود لواطت سے بڑا جرم ہے۔

اسی طرح عرب سپرنگ کا آغاز کرنے والے ملک، تیونس کے٨٠ سالہ مفکر راشد الغنوشی نے بھی ایک انٹرویو میں بتایا، "ہم جنس پسندی کو ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ ذاتی پسند ناپسند کا معاملہ ہے- ان کے مطابق ہم جنس پسندی ایک نجی معاملہ ہے اور اس سلسلے میں قانون کا اختیار نہیں ہونا چاہیے چنانچہ اسے جرم نہیں ہونا چاہیے۔
مردوں میں ہم جنس پسندی کی تاریخ نسلوں کی بجائے صدیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ عربی زبان میں اسے لواطت اور انگریزی میں sodomy کہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں ہی اصلاحات میں مذہب کا دخل ہے۔ عربی کا لواطت پیغمبر لوط کے نام سے مشتق ہے جب کہ انگریزی sodomy موجودہ اسرائیل میں بحیرہ مردار کے جنوب مغربی کنارے پر واقع جبل سدوم (Mount Sodom) سے ماخوذ ہے۔
حالانکہ موجودہ دور میں سدوم نام کی کوئی آبادی وہاں موجود نہیں ہے مگر عہدنامہ عتیق (تورات عظیم) اور عہدنامہ جدید (انجیل مقدس) سدوم شہر کی تباہی کی تفصیل دی گئی ہے (دنیا کے تمام مذاہب قابل تعظیم ہیں)۔ یہ وہی شہر ہے جہاں قرآن حکیم نے پیغمبر لوط کی رہائش اور ان کی قوم پہ عذاب کا بتایا ہے حالانکہ اس شہر کے نام کا حوالہ قرآن حکیم میں نہیں دیا گیا۔ اسلام سے پہلے کی ابراہیمی کتابوں میں پیغمبر لوط کا ذکر بہت محدود سا ہے جبکہ قرآن پاک میں پیغمبر لوط کا ذکر نسبتا تفصیل سے آیا ہے۔
جب بھی ہم جنس پسندی کی بات آتی ہے تو عمومی طور پر مردوں کے ہی جنسی رویے کی بات کی جاتی ہے مگر یہ جنسی رویہ عورتوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ عورتوں کے اس جنسی رجحان کو انگریزی زبان میں (Lesbianism) کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ یونانی جزیرے (Lesbos) اخذ کیا گیا ہے۔ اس جزیرے کی وجہ شہرت مشہور یونانی شاعرہ سیفو ہیں جنہوں نے معلوم تاریخ میں پہلی بار اہنی محبوبہ کے بارے میں جذباتی شاعری مرتب کی (شاعری لکھی نہیں جاتی بلکہ ترتیب دی جاتی ہے)۔
اس طرح کے جنسی رویے کو عجیب سمجھا جاتا رہا ہے کیونکہ جنسی عمل کے متعلق عام غلط فہمی اس کے لیے ذمہ دار ہے۔ یہ اس لیے بھی ناقابل قبول لگتا ہے کیونکہ جنسی عمل کو صرف افزائش نسل کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ زمین پہ پائی جانے ذہین ترین مخلوقات (انسان، چمپینزی اور ڈولفن) جنسی عمل تسکین کے حصول کے لیے کرتے ہیں (جس کی وجہ سے کبھی کبھی بچے بھی پیدا ہو جاتے ہیں ورنہ ان کے سیکس کی فریکوئینسی کی نسبت سے ان کی آبادی کو بےقابو ہو جانا چاہیے) یہی وجہ ہے کہ دیگر تمام جانداروں کے جنسی عمل اور نئے بچے پیدا ہونے کا ایک خاص موسم ہوتا ہے جبکہ ان ذہین مخلوقات کے بچے سارا سال پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
بنیادی طور پر ہم جنس پسند رویے کا تعلق بھی جنسی لذت سے ہوتا ہے جو کہ ایک انتہائی ذاتی رجحان ہے یہی وجہ ہے کہ ایسا جنسی رویہ رکھنے والے افراد جنس مخالف کی دستیابی کے باوجود ہم جنسی کا رجحان رکھتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں شادی بھی اس مسئلے کا مستند حل نہیں ہے اور ایسے افراد شادی کے بعد بھی ایسا رجحان رکھتے ہیں بلاشبہ یہ کچھ دب ضرور جاتا ہے مگر ختم نہیں ہوتا کیونکہ ہم جنس پسندی ایک قدرتی رجحان ہے جو ماں کے پیٹ سے ہی پروان چڑھنا شروع ہو جاتا ہے چنانچہ ہم جنس پسندی کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ہے۔
لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم نے جنسی رویوں کو حال ہی میں سمجھنا شروع کیا ہے لہذا ہم جنس پسندی کو روایتی طور پر قابل اعتراض سمجھا جاتا رہا ہے چنانچہ بالکل منطقی طور پر تقریبا ہر مذہب نے اس کے لیے سخت سزائیں تجویز کیں ہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ بالعموم مذہبی پیشوا ہی اس عمل میں پیش پیش رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صوفیانہ روایات سے مزین مردانہ اجارہ داری کی حامل مذہبی قیادت بالعموم نسائی لذت سے محروم رہی ہے کیونکہ تقدس کا تصور زنانہ جنسی لذت سے آلودہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ جنسی گھٹن کی شکار مذہبی قیادت کے لیے دینی تربیت کے لیے مدخول بچے آسان ہدف رہے ہیں۔
اس کے علاوہ بچوں کو خوف زدہ کر کے خاموش رہنے پہ مجبور کر دینا اور ان کے دل میں تقدس کے ہیولے کا ادب (رعب) پیدا کر لینا آسان رہا ہے۔ بچے سمجھتے ہیں چونکہ مذہبی رہنما خدا کے دنیاوی نمائندے ہیں لہذا ان کی ہر بات پہ مطلق فرمانبرداری ضروری ہے چاہے وہ حکم بظاہر ناجائز ہی ہو کیونکہ وہ مذہب کو مقدس ہستی سے زیادہ تو نہیں سمجھتے۔ ماسوائے اس کے بچوں کو سیکس کے موضوع پہ تعلیم کی کمی بھی اس کے لیے ذمہ دار رہی ہے۔
یہ مشق کسی ایک تہذیبب یا مذہب کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تقریبا ہر ثقافت اور مذہب اس حوالے سے شریک لطف رہا ہے۔ قدیم جاپان میں مردوں کی کم عمر لڑکوں سے جنسی لذت حاصل کرنے کے رواج کو Nanshoku کہا جاتا تھا، اس مقصد کے لئے اشرافیہ کے پاس wakashu کہلائے جانے والے لڑکے موجود ہوتے تھے۔ اسی طرح یونانیوں نے بھی لڑکے رکھے ہوئے تھے ارسطو نے اپنی کتاب پولیٹکس میں اس پر بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ Crete کے حکمران آبادی کنٹرول کرنے کے لئے pederasty بچہ بازی/ اغلام بازی کی پزیرائی کرتے تھے۔
چینی تہذیب میں بھی یہ رواج عام تھا۔ شہنشاہ Ai کی آستین پر ایک مرتبہ انکا عاشق سو گیا اس نوجوان کو اٹھانے کے بجائے آپ نے اپنی آستین ہی کاٹ لی۔ یہ دیکھتے ہوئے بعد میں درباری بھی ایک آستین نکال لیا کرتے تھے، اسی وجہ سے چین میں لڑکوں کا شوق رکھنے والوں کے لئے Passion of Cut Sleeves کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔
فارس میں بھی یہ مرض عام تھا، سکندرِ اعظم کو فارس کے حکام نے Bagoas نامی ایک لڑکا بھی تحفہ میں دیا تھا، سکندر کویہ نوجوان بہت عزیز تھا رقص کے مقابلوں میں اسے نچوایا کرتا تھا، اس سے کھلے عام اپنے پیار کا اظہار بھی کردیا کرتا تھا Bagoas Kiss کی اصطلاح یہاں سے نکلی۔ عباسی دور میں خلیفہ الامین نے لڑکوں سے دربار میں رونق لگائے رکھی۔ عثمانی دور کی اشرافیہ بھی یونانیوں سے اس درجہ متاثر تھی کہ حماموں میں تلک نام کے کم عمر لڑکے رکھے جاتے جو مردوں کو نہلانے کے علاؤہ دیگر خدمات بھی سر انجام دیتے تھے۔
بابل کی تہذیب میں بھی مرد کا مرد سے جنسی تسکین حاصل کرنا ایک معمول کا فعل تھا۔ خوش بختی اور اچھی قسمت کے لئے ضروری تھا کہ مذہبی پیشواؤں سے جنسی تعلق قائم کیا جائے۔ مصر کی تہذیب میں بھی یہ ہی چیز جاری رہی تھی۔ انکی تین ہزار سال پہلے کی گلگامش کی کہانی میں بھی بادشاہ گلگامش انکیدو نامی لڑکے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔
آج بھِی افغان معاشرے میں یہ رویہ مباح سمجھا جاتا ہے کہ سماجی شان و شوکت کے لیے نوعمر لڑکے رکھے جائیں۔ یہ رویہ اس حد تک مقبول ہے کہ 2015 میں امریکی جرنیلوں نے اپنے فوجیوں کو ہدایت کی تھِی کہ افغان "بچہ کشی” میں مداخلت نا کی جائے۔ شاید ہی کوئی افغان سردار ایسا ہو گا جس کے حجرے میں امرد موجود نا ہوں۔ ناصرف یہ کہ ان لڑکوں کی ملکیت قابل فخر ہے بلکہ ان کے توارد کے لیے جنگجو سرداروں کی خونی لڑائیاں بھِی عام ہیں۔ یہ لڑکے ناصرف جنسی راحت دیتے بلکہ فنکارانہ ذوق کی تسکین بھی کرتے ہیں جیسا کہ پازیب کے ساتھ رقص وغیرہ۔ اس حوالے سیاسی یا مذہبی وابستگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ مذہبی، متشرع طالبان اور افغان حکومت کے حامی سیکولر سردار، دونوں اس حمام میں ننگے ہیں۔
مذہب میں اس حوالے سے سب سے زیادہ بدنام مسیحی گرجا رہا ہے (پیغمبر عیسی کے ماننے والے عیسائی نہیں بلکہ مسیحی ہیں)۔ میڈیا کے فروغ نے بیسیویں اور اکیسیویں صدی کے دوران مسیحی گرجا کی ہم جنسی پرستی کا پول کھول دیا ہے حالانکہ گرجا پہ ایسے الزامات صدیوں سے لگتے آئے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ بلکہ گرجا میں رہنے والی راہباووں کی بکارت کو محفوظ رکھتے ہوئے ان سے غیر فطری جنسی فعل کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔
بعینہہ، یہودی برادری کی عبادت گاہوں (سینا گوگ) میں ہم جنسی اشتہاانگیزیوں کی شکایات کا انبار ہے۔ بودھ صوفی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ ابھی حال میں ہی تھائی لینڈ کی بودھ خانقاہوں میں نوعمر بودھ بھکشووٗں کے ساتھ عمر رسیدہ بھکشووٗں کی جنسی ذیادتی کا انکشاف ہوا ہے۔ ایک ۱۳ سالہ بھکشو کی شکایت کے مطابق ۵۱ سالہ رہبر بھکشو اسے اپنے ننگے جسم کا مساج کرنے اور اپنے جسم کو چوسنے کا کہتے۔
پاکستان میں یہ روایت اردو کی رعایت سے آئی ہے حالانکہ اردو کی قبولیت عام سے پہلے بھی برصغیر کے مسلمانوں میں عشق افلاطونی (افلاطون کے نزدیک عورت سے محبت فضول ہے کیونکہ عورت سے جنسی عمل صرف نسل آ گے بڑھانے کے لیے ہے جب کہ عشق حقیقی کا حظ صرف نوعمر بغیر داڑھی کے لڑکوں سے ہی اٹھایا جا سکتا ہے) کی مضبوط ثقافت موجود تھی۔
اردو کی اولین تحریر سے بھی ۳۵۰ سال پہلے پیدا ہوئے سلطان علاوالدین خلجی کی اپنے غلام ملک کافور سے محبت پہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ خلجی کے دورِ حکومت میں ایک مبصر ضیا الدین بارانی نے خلجی کے آخری دنوں کا احوال بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ان چار پانچ برسوں میں جب سلطان اپنی یاداشت کھونے لگے تھے تو وہ ملک کافور کے ساتھ گہری محبت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ کچھ ایسی ہی حکایات سلطان محمود غزنوی اور ان کے چہیتے مملوک ایاز کے لیے بھی ہیں۔ تزک جہانگیری میں مغل بادشاہ جہانگیر نے بھی لڑکوں پہ اپنی شبینہ فتوحات کا ذکر کیا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد سرمد پر اپنی تحریر کی ہوئی کتاب ’حیاتِ سرمد‘ میں صوفی سرمد کی اپنے محبوب ابھےچند کے لیے سرمستی عشق کے بارے میں لکھا ہے۔
پنجابی کے نامور شاعر اور لاہور کے صوفی شاہ حسین اور ہندو لڑکے مادھو کے عشق سے کون واقف نہیں ہے؟ اس عشق کی گہرائی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنے محبوب کا نام اپنے نام کا مستقل حصہ بنا لیا اور اب بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ مادھو لال حسین ایک شخص کا نام نہیں تھا بلکہ دو الگ الگ نام تھے۔
اسلامی تصوف میں اس حوالے کی روایت پہلے عرب (شاعر ابو نواس) اور پھر فارس (عمر خیام اور حافظ شیرازی کا مشہور شعر تو ہر کوئی کس لذت سے سناتا ہے کہ اگر وہ شیراز کا ترک لڑکا مجھے مل جائے تو میں اس کے گال کے تِل کے بدلے سمر قند اور بخارا کے شہر اسے بخش دوں) سے وارد ہوئی۔ اس سلسلے میں صوفی سلسلے کی مشہور بزرگ شاہ شمس تبریز اور مولانا روم کا عشق زبان زد عام ہے۔
1244 میں مولانا رومی کی جب شمس تبریز سے ملاقات ہوئی تو ان کی عمر 37 برس اور شمس تبریز کی عمر 60 برس تھی۔ اس وقت تک مولانا رومی ایک مستند و معتبر عالم بن چکے تھے۔ ان کا خطبہ سننے سینکڑوں ہزاروں لوگ جمع ہوتے تھے۔ ان کے شاگردوں کی فہرست طویل تھی۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ایک خوشحال‘ باعزت اور کامیاب زندگی گزار رہے تھے۔ شمس نے رومی کو چھوڑ جانے کا فیصلہ کیا تو رومی نے شمس کی شادی اپنی منہ بولی بیٹی کیمیا سے کر دی۔
یہ حقیقت بھی اہمیت کی حامل ہے کہ جوں جوں رومی شمس سے جذباتی طور پر قریب آتے گئے رومی اپنی بیوی سے رومانوی طور پر دور ہوتے گئے اور شمس بھی اپنی نو بیاہتا بیوی کیمیا سے ازدواجی تعلقات نہ قائم کر سکے۔ اس تعلق کی شرمندگی سے بچنے کے لیے رومی کے بیٹوں نے شمس کو قتل کر دیا۔
اردو غزل کے بادشاہ، ریختہ کے استاد، صوفی ابن صوفی سید محمد تقی (ولد سید محمد متقی جو ایک معروف مزار کے سجادہ نشین تھے) عرف میر تقی میرؔ، جن کو خداۓ سخن کا لقب دیا جاتا ہے، نے شاعری کے اپنے دیوان کے متعلق کہا تھا کہ میرے دیوان میرے معشوق لڑکے کے لکھا گیا ہے۔ ان کے معشوق لڑکے کے حسن کے قصے اور طرحداریوں کے افسانے اس کے خال و خد سے لے کر عشوہ طرازیوں تک چلے جاتے ہیں۔
اسی طرح پرانی دلی کے قدماء میں سے ایک بزرگ شاعر شیخ شرف الدین مضمون نے اپنے محبوب کے بارے میں لکھا کہ میرے محبوب کے چہرے پر داڑھی آ گئی ہے جبکہ میری داڑھی سفید ہو چکی ہے۔ لیکن وہ اب بھی ساری رات مجھ سے مصاحبت کرتا ہے۔ ہندو اردو شاعر رگھوپتی سہائے فراق گورکھ پوری بھی اپنے بیٹے کے عمر کے لڑکے کے عشق میں مبتلا تھے۔ کہتے ہیں کہ فراقؔ گھورکھ پوری کی ہم جنسیت کی وجہ سے ان کے بیٹے نے خود کشی کر لی تھی کہ اس کا باپ اس کے دوستوں سے بھی باز نہ آتا تھا۔)
ایک فقیہ اعظم نے اس رویے کا علاج یہ تجویز کیا تھا کہ اپنے شاگرد کا سر منڈوا دیا تاکہ وہ خوبصورت ہونے کی وجہ سے دوران سبق امام صاحب کی توجہ منتشر نا کروا دیں۔ مگر کیا کیجئے، مسئلہ حل نہیں ہوا اور اس کے بعد استاد محترم اپنے عزیز شاگرد کو اپنی مسند کے عقب میں یعنی اپنی نظروں سے اوجھل بٹھاتے۔ کیا اس سب کے بعد مفتی الشیخ عزیز الرحمان پہ گرفت کی جانی چاہیے؟ جواب آپ کا ہے۔
دو پاکستان
یہ دو وکیلوں کی کہانی ہے۔ ایڈووکیٹ بلال فاروق علوی 20 مئی 2021 کو کراچی سے اسلام آباد آنے والی ائیر بلیو کی پرواز 200 میں اپنے خاندان کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ ایڈووکیٹ علوی نشستوں کی پانچویں قطار میں براجمان تھے۔ دوران پرواز انہوں نے خود سے اگلی یعنی نشستوں کی چوتھی قطار میں ایک نوجوان جوڑے کو دیکھا جو بوس و کنار میں مشغول تھا۔ ایڈووکیٹ علوی کے مطابق وہ حضرات بوس و کنار سے سوا بھی ‘غیر اخلاقی’ حرکات کر رہے تھے جس پر انہوں نے ائیر ہوسٹس کو ان کی شکایت دی۔
بادی النظر میں پاکستانی فضائی حادثوں کے ریکارڈ سے فکرمند ایڈووکیٹ علوی نے سوچا کہ دورانِ پرواز ایسی حرکتیں خدا کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی فضائی سفر میں یہ سوچ کوئی انوکھی بات نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ہوائی حادثوں سے خدائی تحفظ کی خاطر ہوائی جہازوں کے سامنے کالے بکرے کی قربانی اور ہوائی سفر کے دوران موسیقی کی بجائے مذہبی کلام گایا بجایا جاتا رہا ہے۔ یاد رہے کہ جولائی 2010 میں اسی روٹ پر اسی فضائی کمپنی کی اسی منزل کو جانے والی پرواز 202 مارگلہ کے پہاڑوں میں گر کر تباہ ہو گئی تھی جس میں سوار تمام 152 افراد لقمہ اجل ہو گئے تھے۔
ائیر ہوسٹس نے اس نوجوان جوڑے کو ایک دوسرے کو چومنے سے روکنے سے ناکام رہنے پر انہیں ایک کمبل اوڑھا دیا جس کی اوٹ میں وہ اپنی محبت کا اظہار جاری رکھ سکیں۔ ایڈووکیٹ علوی کے مطابق اس جوڑے نے ممانعت پر مزاحمت کرتے ہوئے جواب دیا کہ ان کے ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں کی جانی چاہیے۔ ایڈووکیٹ علوی نے سول ایوی ایشن اتھارٹی پاکستان کو ہوائی جہاز کے عملے کے خلاف، اس جوڑے کو ‘بےحیائی’ سے روکنے سے ناکام رہنے پر، کاروائی کے لیے ایک درخواست دائر کی ہے جس پر سول ایوی ایشن اتھارٹی نے کاروائی شروع کر دی ہے۔
دوسری کہانی ایڈووکیٹ راشد رحمان کی ہے۔ وہ مبینہ توہین مذہب کے ملزم جنید حفیظ کے وکیل تھے۔ جنید حفیظ کے پہلے وکیل قتل کی دھمکیاں ملنے پر فوراً ہی ان کے مقدمے سے دستبردار ہو گئے تھے جس کے بعد ان کا مقدمہ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے علاقائی سربراہ ایڈووکیٹ راشد رحمان نے لیا- وہ اس بات کے قائل تھے کہ ہر ملزم کو حق دفاع حاصل ہے اور سنوائی کا حق بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک ہے۔ انہیں توہینِ مذہب کے اس مقدمے سے دستبردار ہونے کے لیے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں لیکن وہ قانون و انصاف کی سربلندی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم رہے۔
2014 میں سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں راشد رحمان کو واشگاف الفاظ میں کہا گیا کہ آپ (جنید حفیظ کی وکالت کرنے کی سزا کے طور پر) اگلی سماعت تک زندہ نہیں رہ سکیں گے- جس پر انہوں نے جج اور سیکیورٹی اداروں کی توجہ اس جانب مبذول کروائی مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی- چند ہفتوں بعد ہی "نامعلوم افراد” نے ان کے دفتر میں گھس کر عینی شاہدین کے سامنے انہیں قتل کر دیا- اپنی موت سے چند دن قبل راشد نے بی بی سی کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کا مقدمہ لڑنا موت کے جبڑوں میں جانے جیسا ہے۔ بدقسمتی سے ان کی پیشنگوئی حرف بحرف سچ ثابت ہوئی۔
ایڈووکیٹ راشد رحمان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا مگر ایڈووکیٹ بلال فاروق علوی زندہ ہیں۔ سقراط نے کہا تھا کہ اگر میں زندہ رہا تو مر جاؤں گا مگر اگر میں آج مر گیا تو زندہ رہوں گا۔ جیورڈونو برونو نے موت کی سزا قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ مجھ سے زیادہ خوفزدہ ہیں کیونکہ آپ زندہ رہ کہ مر جائیں گے اور میں مر کے زندہ رہوں گا۔ خیر یہ دو وکیلوں سے زیادہ دو پاکستان کی کہانی ہے۔ بحث برطرف، آپ کو کونسا پاکستان چاہیے؟ ایڈووکیٹ راشد رحمان کا پاکستان یا ایڈووکیٹ بلال فاروق علوی کا پاکستان؟
پولیس گردی
بے یار و مددگار، ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے، پانچ بچوں کے باپ 48 برس کے ولیم جینیٹ کو منہ کے بل جیل کے فرش پہ گرایا جاتا ہے اور چند پولیس اہلکار ان کی کمر پہ گھٹنوں سے دباؤ ڈالنے لگتے ہیں۔ ولیم چیخ کر اپنا دم گھٹنے کی شکایت دیتے ہیں مگر پاس کھڑی ایک پولیس افسر انہیں جواب دیتی ہیں کہ انہیں سانس لینے کے قابل رہنا بھی نہیں چاہیے۔
پولیس اہلکار چار منٹ تک ان کے پھیپھڑوں پہ دباؤ ڈالے رکھتے ہیں جس سے ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ان کی موت کے مقدمے کی دستاویزات ظاہر کرتی ہیں کہ ان کے آخری لمحات میں انہیں ہراسانی سمیت گالیاں دیتے ہوئے زدوکوب بھی کیا گیا۔
امریکی ریاست ٹینیسی کے علاقے لیوس برگ کی مارشل کاؤنٹی جیل میں سفید فام ولیم کو بعینہٖ اسی انجام کا سامنا کرنا پڑا جو اب سے چند ماہ قبل سیاہ فام جارج فلائیڈ کو پولیس کے ہاتھوں کرنا پڑا تھا۔
جمعہ کی شام 3 بجے بھارتی صوبے اتر پردیش میں ایک 17 سالہ سبزی فروش نوجوان، فیصل اسلام، کو مبینہ طور پر لاک ڈاؤن کا اجازت شدہ وقت ختم ہونے کے باوجود فٹ پاتھ پر سبزی بیچنے کے الزام میں پولیس تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔ مزاحمت پر دو پولیس اہلکار اس نوجوان کو تھانے لے جاتے ہیں جہاں اسے بہیمانہ سلوک برداشت کرنا پڑتا ہے۔
کوئی بھی درست طور پر نہیں جانتا کہ تھانے کے اندر کیا ہوا مگر 4 بجے ایک فون کال پر اس نوجوان کے والد تھانے پہنچتے ہیں جہاں وہ اپنے نوعمر بیٹے کو آخری سانسیں لیتا ہوا پاتے ہیں۔ نوجوان کو ہنگامی طور پر ہسپتال لے جایا جاتا ہے مگر ڈاکٹر نوجوان کو مردہ قرار دیتے ہیں۔
ابھی سانحہ ساہیوال، صلاح الدین کی پولیس تشدد سے موت، اسامہ ستی قتل، اور ایک شدت پسند تنظیم کے زیرِ حراست کارکنان کی پٹائی کی ویڈیوز کی بازگشت باقی تھی کہ حال ہی میں وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لاک ڈاؤن کی پابندیوں کی خلاف ورزی پر کس طرح گوجرانولہ پولیس کے جوان ایک نوجوان کو بھرے بازار میں تھپڑوں کا نشانہ بناتے ہیں۔
2014 میں ژیل یونیورسٹی کینیڈا کے لاء سکول کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستانی پولیس تشدد کا بدترین مجرمانہ ریکارڈ رکھتی ہے۔ اس تحقیق میں بالخصوص پنجاب پولیس کے تشدد کے طریقہ کار، آلات، ذرائع، اور جواز پر جو روشنی ڈالی گئی ہے اس کے مطابق غیر انسانی تشدد کی تفصیلات اندوہناک ہیں۔
جسمانی تشدد کے علاوہ، نفسیاتی حربے، توہین آمیز رویے، جذباتی شکستگی اور جمالیاتی بدذوقی بھی تشدد کے عمومی ذرائع ہیں۔
حالانکہ ریاست کو طاقت (معاشی، مرئی، اور استحصالی وغیرہ) کے استعمال پر اجارہ داری حاصل ہے مگر پھر بھی کسی ریاستی ادارے کی جانب سے طاقت کے بےدریغ استعمال کا کوئی جواز نہیں ہے اور اسی بلاجواز استعمال پر قابو پانے کے لیے تشدد کے خلاف قوانین متعارف کروائے گئے ہیں۔
اگرچہ پاکستان میں ریاستی تشدد سے بچاؤ کے خلاف کوئی خصوصی قانون تو موجود نہیں ہے تاہم پاکستان میں پولیس تشدد کے خلاف ضمنی قوانین موجود ہیں۔ جیسا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل (2)14 میں تشدد سے بچاؤ کی دستوری ضمانت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اقوام متحدہ کے زیرِ انتظام تشدد سے بچاؤ کے بین الاقوامی معاہدے کا بھی رکن ہے۔ مزید برآں پولیس آرڈر سیکشن (b)156 اور CrPC کا سیکشن 176 بھی تشدد کی ممانعت کرتا ہے اور پولیس کے ایسا کرنے کی صورت میں سزائیں تجویز کرتا ہے۔
تاہم پولیس فورس سے پولیس سروس تک کا بدلاؤ تب تک ممکن نہیں ہے جب تک عوام اپنے حقوق سے باشعور نہیں ہو جاتے۔ یہی حقیقی جمہوریت کی روح بھی ہے۔
ستارہ لکیر چھوڑ گیا، کتاب ڈاؤن لوڈ کریں
رفیع رضا کی شاعری کا پہلا مجموعہ اور اس بارے چند مضامین یہاں موجود ھیں۔
خدا ، مذھبی خدا، قدرتی خدا، بے رحم خدا، کالا پتھر، حجر اسود . عقلی گفتگو
سچائی کیا ھے؟ کیا جھوٹ ھے؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ایک دوست نے پوچھا۔۔۔
۔ خدائے مذھبی کیا ھے ، خدائے قدرتی کیا ھے؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
المختصر بیان کرتا ھُوں
جب ھم کائنات کو دیکھتے ھیں۔ اور پھر دنیا کو اور اپنی زمین پر نباتات و حیوانات کو دیکھتے ھیں،،،، تو سوچتے ھیں کہ آخر انکی ابتدا کہاں سے ھوئی۔
ھم ایسا اس لئے سوچتے ھیں یا ھماری یہ سوچنے کی نہج اس لئے ایسی ھے کیونکہ ھر جاندار کی کوئی ابتدا ھمیں نظر آتی ھے۔۔ہر عمومی پروسس کو ہم بنتے شروع ہوتے دیکھتے ہیں یہ ھمارا روز کا مشاھدہ ھے۔
عام انسان نہیں جانتے کہ پلاسٹک کیسے بنتا ھے، وہ اس پر سوال نہیں اٹھاتے کہ پلاسٹک اور نائیلون کیسے وجود میں آگیا؟ تیل سے بھلا پلاسٹک کیسے بن سکتا ہے وہ نہیں کہتے یہ پاگل پن اور جھوٹ ہے۔۔بس مان لیتے ہیں
وہ سوچتے ھیں فیکٹری میں بنتا ھے اور وہ بس اسی علم پر مطمئن ھیں،لیکن سائینس کسی بھی چیز، کا مشاھدہ مخلتف سطح کے علوم سے کرتی ھے ، عام انسان لاؤڈ سپیکر کی آواز روز سنتا ھےمگر جانتا نہیں یہ کام کیسے کرتا ھے؟ آواز کیا ھے؟ کیسے وائیبریشن والی صوتی لہریں۔۔مائیک کے پردے سے ٹکراتی ھیں۔۔ پھر اس پردے سے آگے جو لرزش پیدا ھوتی ھے اس کے اثر کو کیسے مقناطیسی میدان برقی رو میں منتقل کرتا ھے پھر کیسے وہ برقی پیغام میں منتقل ہوتی ہے آگے منتقل ھو کر پھر کسی سپیکر سے آواز کیسے خارج ھوتی ھے عام انسان کو اسی طرح دنیا کی کروڑوں چیزوں اور اربوں کھربوں کیمائی تعاملات کا علم نہیں ھوتا۔۔
لیکن اُسے ایک علم ھوتا ھے کہ ایک مذھبی خدا ھے جو سب دیکھ رھا ھے اچھے بُرے کو جزا سزا دیتا ھے پتّے ھِلتے نوٹ کرتا ھے بادل لاتا ھے زلزلے لاتا ھے سیلاب لاتا ھے۔ فرشتے رکھتا ھے شیطان سے اسکی لڑائی ھے۔۔۔یہ عام انسان کوصرف پتہ ھی نہیں ھوتا بلکہ وہ اسے ایسا سچ سمجھتا ھے کہ اس کے انکار پر آپ کو قتل کر دیتا ھے۔اپنے بیوی بچوں ماؤں بھائیوں کو قتل کر دیتا ھے کہ اس خدا کا انکار کیوں کیا۔۔۔تاھم آپ کو معلوم ھے کہ یہ عام انسان دنیا کی کروڑوں چیزوں کا علم نہیں رکھتا۔۔ اسے علاج کے لئے ڈاکٹر کے پاس جانا ھوتا ھے سائیکل خراب ھو تو میکینک کے پاس جاتا ھے۔ روٹی کے لئے کسان کا محتاج ھے۔تعلیم کے لئے سکول و استاد کا محتاج ھوتا ھے۔لیکن ایک بات پر اسکے یقین ایمان اور علم ایسے پکّے ھوتے ھیں کہ وہ آپکو کافر مُلحد زندیق بندر خنزیز کہہ دیتا ھے۔ زندگی اجیرن کر دیتا ھے۔
تو صاحبو۔۔۔۔ایسا عام انسان اس لئے ایسا کرتا ھے کیونکہ اسکے دماغ کی برین واشنگ یا بچپن سے تربیت اس مسلّط کردہ ایمان یا غیبی عِلم کے سائے میں ھوتی ھے۔وہ اِس کنویں سے باھر سوچنے سے معزور ھوتا ھے۔!
اُسے کنویں سے باھر جو دکھائیں گے وہ اسے چُلّو بھر پانی کہے گا۔ وہ اپنے موجود کو ھی احسن ترین سمجھے گا۔ وہ دوسروں کو کافر باطل دوزخی کہے گا اور اس پر دل سے یقین رکھے گا اسکا کوئی قصور نہیں ۔۔یقین کریں اسکا اس میں کوئی قصور نہیں وہ چونکہ اس فاسد تربیت سے گزرا ھے جس میں اَن دیکھے پر ایمان فرض ھے اُسے صرف وہ دلائل پسند ھونگے جنکی روشنی میں وہ اپنے ھی عقیدے ایمان مذھب یا علم کو سچا ثآبت کر سکے۔ ھر وہ بات جو اسکے پسندیدہ عقیدےکے خلاف ھوگی وہ کافرانہ ، دھریانہ، بُری، باطل ، گمراہ کُن ھوگی۔
دوسری طرف سائینس ایسا علم ھے جس میں ایمان و عقیدے کے پرچار کی روشنی میں کسی بھی چیز، منظر، مادے، آواز، لہر، موج، پروسس وغیرہ کو نہ صرف پرکھا جاتا ہے بلکہ مشاھدے تجربے اور جزیاتی پیچیدگیوں کی تہوں کو کھنگالنے کے بعد کوئی نتیجہ بھی نکالا جاتا ھے۔ اگر نامعلوم ہو تو کوئی نظریہ قائم کیا جاتا ہے لیکن کوئی زبردستی نہیں کی جاتی کہ اس پر ایمان لانا یقین کرنا لازم ہے۔۔۔پوچھا جاتا ھے کہ آپ کوئی شواھد لائیں کوئی تجربہ کر دکھائیں۔
سائینس نے قدیم ترین فوسلز میں ابتدائے حیات کے شواھد تلاشے اور یہ نتیجہ نکالا کہ شاید ابتدا میں یک خلیاتی حیات۔ کیمیائی تعامل سے پیدا ھوئی ھوگی۔۔پھر اینٹروپی کے نظرئیے کے تحت کثیر خلوی جاندار بنے۔۔اور یوں ارتقائی طور پر موجودہ جانداروں تک وقت پہنچ گیا۔
تاھم اس نظرئیے کے مطابق ابتدائی حیات یا جاندار خلئیے میں ضربی تحریک کیسے پیدا ھوئی؟ یعنی خلیہ خود ھی کیسے مزید خلیوں کو جنم دینے کا کام کرنے لگا؟ یہ سوال، شافی جواب نہیں پا سکا۔ کیونکہ جدید ترین ریسرچ میں بھی کسی ضرباتی خود کار حیاتیاتی خلیہ یا خلیوں کو کسی جینیٹک ھدایت نامے کی تابعداری کرنی لازم ہوتی ہے۔تو جینیٹک کوڈ کیسے آ داخل ھُوا؟
ادھر مذھبی سائنسی یا مذھبی غیر سائینسی نظرئیے کے مطابق ایک خدا ھے جو ھمیشہ سے ھے ھمیشہ رھے گا اور اُس نے زمین بنائی۔۔آسمان بنایا۔۔اور ھوا ۔. پانی اور عناصر بنائے۔۔۔اور حیات بنائی۔۔۔اور وہ اسکو کنٹرول کرتا ھے۔۔ وہ طیش میں زلزلہ لاتا ھے تاکہ لوگ اچّھے ھو جائیں بیماریاں لاتا ھے تاکہ سزا دے۔۔۔سیلاب لاتا ھے تاکہ سزا دے ۔۔۔ بجلی چمکاتا ھے کہ ڈرائے اور آنکھوں سے بینائی لے جائے۔۔۔ یخطف ابصارھُم۔۔۔
اور یہ خدا یعنی یہ مذھبی خدا بہت سی صفات رکھتا ھے جیسے قرآن میں صفاتی نام۔۔جیسے بائیبل میں صفاتی نام ھیں۔
یعنی، رحیم، مہربان، سمیع، غنی، بصیر، نزیر، ودود، باری، مصور، کریم، غفور، مکّار، وغیرہ (اللہ خیر الماکرین)
اپنی صفات کی روشنی میں خدائے مذھبی نے زمین پر حیاتیاتی نظام بنایا۔۔۔ جو ھم دیکھتے ھیں۔ کہ جاندار آکسیجن کے محتاج بنائے۔۔ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ھیں جو درختوں پودوں کو ملتی ھے وہ جذب کر کے واپس آکسیجن بناتے ھیں۔
اسی خدا نے جاندار بنائے۔۔۔ جانور بنائے۔۔۔ جن میں بھیڑیا، کُتے، بھگیاڑ، مگرمچھ، شیر ، چیتے۔۔ نیولے، عقاب، بنائے۔۔۔۔جو گوشت خور ھیں۔ پس اس خدا نے دوسرے جانور بنائے جو گھاس کھاتے ھیں اور انکو یہ گوشت خور کھاتے ھیں۔
اب چونکہ وہ مذھبی خدا رحیم۔بہت رحم کرنے والا ترس کھانے والا۔ مہربان مشفق اور ماں کی درد درد رکھنے والا ھے اس لئے اس نے ایسا نظام بنایا جس میں گوشت خور دوسرے جانوروں کو نوچ نوچ کر کھاتے ھیں۔نوچے جانے والی گائے بھینس بکری ھرن ھاتھی۔۔زرافے، بندر ، وغیرہ ۔۔ درد کی شدت سے چیختے ھیں۔ ایک جانور ماں کے سامنے اسکے بچے کو شیر ، بھیڑئیے نوچ نوچ کھاتے ھیں۔ اب چونکہ خدا بڑا رحیم ھے اور ترس کھانے والا ھے ۔۔۔مخلوق روئے تو اسکو ترس آتا ھے تو اس نے ایسا نظام کیسے بنایا جس میں گوشت خور دوسرے جانداروں کو ضرورت میں اور بلا ضرورت بھی قتل کریں بھنبھوڑیں نوچیں انکی بوٹیاں کاٹ کاٹ کھائیں؟ کیا خدا ترس کھانے والا نہیں؟ آپ تو کہتے ھیں مذھبی خدا ترس کھانے والا مہربان رحیم ھے پھر۔۔۔یہ تکلیف دینے والا نظام کیوں؟ اگر آم ، سیب کیلا کھانے سے پھلوں کو تکلیف نہیں ھوتی تو سب کو سبزی خور ھی بنا دیتا ۔۔ لیکن مچھلی کو مچھلی کھا رھی ھے۔۔ھزاروں قسم کے جانور ایک دوسرے کو قتل کر کے کھاتے ھیں۔ایسا نظام بنانے والا کیسے رحم کرنے والا ھو سکتا ھے۔۔کیسے ماں کی طرح اولاد کے لئے رو سکتا ھے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ ھمارا کنویں جیسا دماغ جو مذھبی تعلیم سے محدود کر دیا ھو گیا اُس نے خیالی مذھبی خدا کی صفات خود بنائی ہوں؟ ترس کھانے کا تصور شاید خود انسانی دماغ کی صفت نہ ھو؟ ایسا کیوں ہے ۔آپ نے کبھی نہ سوچا؟ آپ کہیں گے کہ خدا نے یہ نظام ھی ایسا بنایا ھے۔ تو پھر میں یہی سوال کروں گا ایسا تکلیف دہ نظام کیوں بنایا ھے؟ یا پھر جانداروں کو ایسی حِسّیات ھی نہ دیتا کہ وہ اس ظلم یا کریہہ نظام کو بُرا اور بےرحمانہ سمجھیں۔ یہ صلاحیّت ھی نہ دیتا؟
اگر صلاحیّت بھی دی ھے اور بے رحمانہ نظام بھی بنایا ھے تو یقینی بات ھے کہ وہ رحم پر مبنی نظام بنانے کی صلاحیّت سے عاری تھا۔ورنہ وہ اپنی صفاتِ مہربانی و رحم کی وجہ سے بے رحمانہ نظام نہ بناتا۔۔
یا پھر۔۔ خدا میں یا بنانے والے میں رحم کی صفت موجود ھی نہیں اور ھم اپنے کنویں میں سوچ کر جو صفت اس سے منسوب کر بیٹھے ھیں وہ اسکی نہیں ھماری انسانی صفت ھے !
اس گفتگو سے یہ ثابت ھو گیا ھے کہ خدا کی ایسی صفات جو نرمی مہربانی رحم ترس محبت پر مشتمل ھیں وہ انسان نے بنائی ھیں۔ خدا کی صفات نہیں ھیں۔یا پھر یہ وہ والا خدائے مذھبی نہیں ھے کوئی اور خدائے قدرتی ھے جو ایسی کسی بھی صفت سے عاری ھے
سائینس ھمیں سمجھاتی ھے کہ دیکھو۔۔۔ بجلی کوئی نہیں چمکاتا بلکہ فضا میں موجود گیسیں اور ھوا کا دباؤ اور پانی کے بخارات اور مقناطیسی میدان یہ سب کچھ پیدا کرتے ھیں جسے ھم آسمانی بجلی کہتے ھیں جو مندروں مسجدوں گورو گھروں ، کعبہ ، وغیرہ پر ضرور گِرے گی اگر وھاں خدا کے حملے سے بچاؤ کے حفاظتی ارتھ سسٹم والا آلہ نہ لگائیں!
یعنی خدا کے اپنے گھروں کو بھی اُسی کے غضب یعنی بجلی سے بچانے کے لئے انسان کو آلہ ایجاد کرنا پڑ گیا۔ اس دلیل کے جواب میں مذھبی علما کی آئیں بائیں شائیں دیکھنے والی ھوگی ، وہ کہیں گے انسان کو خدا نے عقل اسی لئے دی ھے۔ مگر بجلی خدا کے حکم سے کسی پر سزا کے لئے گرنے والے پرانے عقیدے کو خود ھی جُھٹلا دیں گے کہ فلاں الہامی کتاب میں جو لکھا ھے وہ اور حوالے سے ھے اور حدیثیں تو خدائی نہیں ھیں بعد کے لوگوں نے بنائی ھیں۔
بائیبل میں بتایا گیا کہ کافروں پر خدا نے بجلی گِرائی۔۔۔ موجودہ احمدی فرقہ کے بانی نے لکھا کہ زلزلہ خدا کی ناراضگی کا اظہار ھے۔ اور ایک واقعہ لکھا کہ ایک عمارت میں مرزا صاحب موجود تھے اور اسی میں دور دراز اندرون میں ایک ھندو جوگی بھی تھا۔۔۔ بجلی عمارت پر گِری مرزا صاحب محفوظ رھے لیکن وہ ھندو پنڈت جل کر راکھ ھو گیا حالانکہ وہ بجلی سے زیادہ دوری پر تھا۔۔۔۔اسی طرح مرزا صاحب گزشتہ مذھبی بزرگوں صوفیوں رسولوں کی طرح کے واقعات میں مخالفین کی موت کی پیشگوئیاں کرتے تھے۔ لیکن اپنے ھی نو عمر بچے مبارک احمد کی وفات کو بھی اپنی ھی سچائی کا نشان بنا ڈالا کہ مجھے پہلے سے خدا نے بتادیا تھا کہ وہ مر جائیگا۔ یہ عجب منطق ھے کُل انسانیت کو یہ منطق سمجھ نہیں ا سکتی مگر یہ منطق مذھبی کو سمجھ آئیگی اور وہ ایمان لائے گا کہ بالکل درست ھوا اللہ کی مرضی ھی ایسی تھی۔ اتفاق دیکھیں بالکل یہی حال محمد رسولِ عربی کا ھُوا کہ انکا بیٹا نو عمری میں تڑپ تڑپ کر مَر گیا۔۔۔ بعد میں نوجوان ماں بھی مَر گئی۔۔۔ دوسروں کی شفاعت کرنیوالے اور دوسروں کو لعاب دھن لگا کر شفا دینے والے کُل آسمان کی سیر کرنے والے خدا سے ملاقات کرنیوالے کو آنسو بہانے پڑے اور بچے کو نہ بچا سکے نہ کوئی دعا کام آئی نہ خدا کی مدد ، اُلٹا بیوی بھی مَر گئی۔لیکن اس واقعی سے ماننے والے مذھبی کے ایمان میں کمی نہیں ھوئی اور مضبوط ھُوا کہ اللہ کی مرضی تھی اللہ نے واپس لے لیا۔۔اور یہ نمونہ خلقت کو خدا نے دکھانا تھا کہ دیکھو نبی کا بیٹا بھی اللہ مار سکتا ھے اسکی رضا پر راضی ھونے کا نمونہ دکھایا گیا ھے۔ بالکل ایسے ھی مسیح بن مریم کا صلیب پر چڑھنا ، لوگوں کو گناھوں کا کفارہ ھو گیا۔۔۔ یا یہ کہ دیکھیں جی اللہ نے پہلے ھی سے بتادیا تجھے صلیب ھوگی اور تیرا فلاں حواری مخبری کرے گا۔۔مذھبی ایسی بنائی گئی سب کہانیوں کو سچ ھی سمجھتا ھے یہ کہانیاں بار بار سنا کر اسکا ایمان مضبوط کیا جاتا ھے۔
چھاپہ خانے کی ایجاد کو کُفر کہا گیا۔گانے بجانے کو کُفر کہا گیا۔فلمیں، اور بُت گری کو کُفر و شرک کہا گیا۔خدا کے کام میں مداخلت کو ناقابل معافی جرم کہا گیا جس میں دوائیں بھی شامل ھیں۔جیسے افغانستان و پاکستان میں پولیو کا ختامہ نہیں ھو سکا کیونکہ مقامی جاھلیت اور مذھبی جاھلیت کا اتفاق ھے کہ ویکسیئن اور دوائیں خدا کے کام میں مداخلت ھیں اور کافروں کی ایجادیں ھیں۔ انکار کرنے والے انکار کرتے رھے۔۔۔ مذھبیوں نے پھر جدید ایجادات کو تھوڑا بہت ماننا شروع کیا۔۔لیکن اس میں کوئی نہ کوئی مذھبی شدت برقرار رکھی۔۔ مثلاً دوا کھانے سے پہلے اس پر فلاں سورۃ پڑھ کر پھونکو۔۔ دوا حلال ھو حرام جزیات نہ ھوں۔۔ پھر آھستہ آھستہ اجتہاد کر کے معانی بدل کر ایسی آیات چن لیں جنکے مطالب مشتبہ ھیں۔۔کہا گیا کہ اسلام میں تصویر بنانا منع ھے۔۔ پھر اسلامی بزرگوں نے کہا ھماری تصویر تبلیغ کی اشعات کے لئے تو ٹھیک ھے ورنہ کُفر و بُت گری ھے۔
پھر آیات کے مطالب کہیں سے کہیں لے گئے۔۔ کیونکہ زمانے کا ارتقائی کُلی شعور پرانے افلاس زدہ خیالات کو رد کر رھا تھا تو معانی کی بجائے تشریحات کا سہارا لیا گیا۔ کہا گیا فلاں فلاں آیات اصل میں صرف فلاں اَمر سے متعلق ھیں انکا اطلاق یکساں ھر وقت ھر عمل پر نہیں۔
کہا گیا النجم و شجر یسجدان۔ کہ خدا کو ستارے سجدہ کرتے ھیں۔ کا مفہوم یہ نہیں اصل میں اس سے مُراد درختوں جیسی سایہ دار ھستیوں کا خدا کو سمجدہ کرنا ھے۔۔یا پھر درختوں کے سجدے سے مراد خدا کی پیداواری تخلیقی صلاحیت کی ودیعت کا شُکر ھے۔ غرض اُلجھا اُلجھا کر مذھبی ذھن کو بند کر دیا گیا۔
عام مذھبی انسانی ذھن چونکہ مذھب کے مقیّد کنویں میں ھی سوچتا ھے اس لئے اسکی تسکین مذھبی علما یہ کہہ کر کرتے ھیں کہ خدا کی مرضی اسی میں ھے۔۔ بچہ پیدا ھوتے ھی بیماری سے مَر گیا تو خدا کی مرضی ھے معزور پیدا ھوا تو خُدا کی مرضی ھے۔ قرآن کہتا ھے کہ تمھارے چچا کے لڑکے لڑکیاں تم پر حلال تو سائینس کہتی ھے تھیسیلمیا کی بیماری اس سے بڑھ رھی ھے مت کرو کزنوں میں شادی ورنہ معزور معاشرہ بن رھا ھے۔
مذھبی کہتا ھے پولیو کے قطرات خدا کے عمل میں رکاوٹ ھیں۔ کورونا وائرس مغرب نے پھیلایا ھے وہ مسلمانوں کی نسل بندی کرنا چاھتے ھیں۔
پھر ایک طرف کوئی نبی رسول ولی اللہ خلیفہ پوپ پنڈت ربی گورو ، مخالفوں کی موت کو اور مخالفوں کے بچوں کی موت کو اپنا خدائی مجعجزہ ھائے دعا بتاتا ھے لیکن اپنا بچہ مَر جائے تو اُسے مخالفین کی سچائی نہیں مانتا بلکہ خود پر ابتلا کہہ کر بات گُھما دیتا ھے۔ کہ مجھے خدا نے میرے بچے کی موت کے بارے خود پہلے ھی بتا دیا تھا۔۔ یعنی مخالف کا بچہ مَر جائے تو خدا سے انکا تعلق ۔۔۔اپنا بچہ مَر جائے تو بھی خدا سے تعلق پکّا ھے
مذھبی کتب میں غیر مذھب کو مخالفوں کو خدا بُرا بھلا کہتا ھے ۔۔۔ مگر غور سے دیکھیں تو جو جو الفاظ خدا مخالفوں کے لئے استعمال کرتا ھے وہ سارے انسانی خصائلِ بد ھیں۔
یعنی صاف پتہ چلتا ھے ان الہامی کتابوں میں خدائی طیش و غضب اصل میں انسانی غصہ مایوسی ناراضگی وغیرہ ھے
جیسے دیہات میں پنجابی میں کچھ ھو نہ سکے تو کہتے ھیں۔۔تیرا ککھ نہ رھوے۔۔۔ تُوں ڈُب مَریں،، تینوں شالہ موت آوے۔۔۔ اوئے لعنتی،،، اوئے مُورکھ۔۔۔
تجھے خدا بے اولاد رکھے۔۔۔ تُو اندھا گونگا بہرا ھے۔ تُو بندر جیسا ھے تُو خنزیر جیسا ھے۔۔اوئے مکٗار لُومڑ اوئے گیدڑ !۔
یعنی خدا اپنی ھی ایک مخلوق، انسان ،کو اپنی ھی دوسری مخلوقات جیسا بتا کر بُرا بھلا کہتا ھے۔۔
خدا خود ھی کہتا ھے۔۔ان نہ ماننے والے لوگوں کے دِلوں میں پہلے سے ھی بیماری ھے اور اللہ انکی بیماری اور بڑھاتا ھے۔۔فی قلوبھم مرض فزاد ھم اللہ مرض،،،،،،،یاد رھے کہ یہ خدا وہ خدا ھے جو ماں سے زیادہ اپنی مخلوق سے پیار کرتا ھے۔ اور رب ھے اور رحیم ھے اور کریم ھے اور غفور ھے ۔۔اور ودود ھے۔۔اور رحمان ھے۔۔
اچھا اب اس مذھبی خدا کو ماننے والوں کے مختلف علمی ذھنی طبقے ھیں۔ جو بہت فاتر العقل ھیں وہ تو ایک آدھ آیت کے بعد جواب سے معزور ھو جاتے ھیں
دوسرے وہ جو تھوڑا بہت جانتے ھیں کچھ ادھر سے لیا کچھ ادھر سے لیا اور پھر ایک ملغوبہ قسم کا ایمان اپناتے ھیں جس میں بات کو گُھما پِھرا اپنا عقیدہ سچا ثابت کرنا مقصود ھوتا ھے۔لیکن تفسیر و پیچیدہ مسائل کے لئے وہ مفسّر نما مذھبیوں کے محتاج ھوتے ھیں۔ جیسے ذاکر نائک، یا جاوید غامدی ایسے مذھبیوں کی تشفّی اپنی امثال سے کر دیتے ھیں۔
مثلاً جب غامدی جی سے پوچھا گیا کہ یہ قرآن میں بار بار لالچ اور دھونس و ڈراوا ، کیوں خدا کی طرف سے آتا ھے؟ یہ حوروں کا ذکر ڈھکے انڈوں جیسی بڑی موٹی آنکھیں۔ حُوریں جو کنواری ترین ھونگی۔۔۔ تو عورتیں کیا پائیں گی؟ تو ھنس کر یا تو ٹال دیتے ھیں یا کہہ دیتے ھیں وہ اصل میں بیویاں ھی ھونگی یا محسوسات ایسی ھونگی ۔۔وغیرہ
ایک درس کے دوران جاوید غامدی نے شہری کی جانب سے بھیجا گیا سوال پڑھا، شہری نے پوچھا ”جنت میں حوریں ہوں گی جنہیں اہل جنت سے پہلے کسی جن و انس نے چھوا نہیں ہوگا ،کیا اہل جنت ان حوروں کے نتیجے میں اولاد سے بہرہ ور ہوں گے؟“۔
شہری کے سوال پر جاوید غامدی نے کہا ایک تو یہ سمجھ لیجئے کہ حور کوئی مخلوق نہیں ہے بلکہ حور ایک صفت کا نام ہے جس کا مطلب آہو چشم ہے ، آپ کی بیویاں ہی حوریں ہوں گی، اب آپ غور کریں تو قران میں آھُو چشم کا کوئی لفظ نہیں۔۔ ڈھکے انڈوں جیسی آنکھیں کہا ھے۔۔۔ جسکو اردو میں غلافی آنکھیں کہتے ھیں۔ تاھم آھو چشم، یعنی غزال یا ھرن کی انکھ جیسی خوبصورت آنکھ ، غامدی صاحب نے اللہ کی مرضٰ سے قرآنی تفسیر میں بطور آیت ڈال لی اور کوئی اُن سے پوچھتا نہیں کیونکہ سب پہلے سے مانے بیٹھے ھیں۔
آپ خود ایمانداری سے سوچیں قرآن میں صآف صاف لکھا ھے لیکن یہ مُلاں اپنے معانی بناتے ھیں۔ائیے ذرا اسکو پھیلاتے ھیں
حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِۚ(۷۲)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِۚ(۷۳)ترجمہ: کنزالایمان
حوریں ہیں خیموں میں پردہ نشین تو اپنے رب کی کون سی نعمت جھٹلاؤ گے
تفسیر: صراط الجنان
{حُوْرٌ: حوریں ۔} ارشاد فرمایا کہ ان جنتوں میں خیموں میں پردہ نشین حوریں ہیں جو کہ اپنی شرافت اور کرامت کی وجہ سے ان خیموں سے باہر نہیں نکلتیں ۔ (خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۲، ۴ / ۲۱۵)
جنتی حور اور ا س کے خیموں کا حال:
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر جنتی عورتوں میں سے زمین کی طرف کسی ایک کی جھلک پڑجائے تو آسمان وزمین کے درمیان کی تمام فضا روشن ہوجائے اور خوشبو سے بھر جائے۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنّۃ والنار، ۴ / ۲۶۴، الحدیث: ۶۵۶۸)
اورحضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’مؤمن کے لئے جنت میں ایک کھوکْھلے موتی کا خیمہ ہو گا، اس کی لمبائی 60میل ہو گی، مؤمن کے ا ہل ِخانہ بھی اس میں رہیں گے ،مؤمن ان کے پاس (حقِ زوجیّت ادا کرنے کے لئے) چکر لگائے گا اور ان میں سے بعض بعض کو نہیں دیکھ سکیں گے۔( مسلم،کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا،باب فی صفۃ خیام الجنّۃ وما للمؤمنین فیہا من الاہلین،ص۱۵۲۲،الحدیث: ۲۳(۲۸۳۸))
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے وہ نعمتیں پیدافرمائیں جو تمہارے لئے پردہ نشین اور (دوسروں سے) چھپی ہوئی ہیں توتم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۳، ۹ / ۳۱۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر کے بیانات کو دیکھیں اور جاوید غامدی سمیت بہت سے ایسے مذھبی علما کی تاویلات کو سنیں تو آپ اگر برین واشڈ نہیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ یہ سب الہامی کتابیں انسانی کاوشیں ھیں۔۔۔ان میں کچھ اس پرانے عہد میں قدرے روشن خیال باتیں سمجھی جا سکتی ھیں۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ھے کہ جو کتاب خود کھول کھول کر مچھر جتنی حقیقت بھی لاریب طریق پر بیان کرتی ھے وہ حوروں کا لالچ دیتے ھوئے یہ کیوں نہیں بتاتی کہ تمھاری موجودہ بیویاں آخرت میں کنواری بن جائیں گی اور خوبصورت بن جائیں گی وغیرہ۔؟ خدا کو مسئلہ کیا ھے کہ اسکی بات غامدی جی کو ھی سمجھ آتی ھے پورے عرب کو سمجھ نہیں آئی؟
اور پھر مخاطب بھی وہ زمانہ جہاں لونڈیاں خریدی اور بیچی جاتی تھیں۔ حسین عورتوں کے دام بہت بالا تھے۔۔جہاں لونڈی کو خریدنے والے کے لئے عین حلال تھا کہ وہ اسکے اعضا دبا کر دیکھے پسند کرے۔۔ وھاں اپنی پرانی بیویوں پر عربی انسان کیسے قناعت کرتے؟ صآف ظاھر ھے آخرت میں مظلوم کو ظالم کے مقابلے پر جنّت کی نعمتیں ملیں گی۔۔۔اور رسول کے ساتھیوں کو اعلی مدارج ملیں گے کی ترغیب گروہ کو بڑھانے کی انسانی کاوش کا نتیجہ ھے۔
کسی مذھبی خدا سے اسکا کوئی تعلق نہیں ، نہ ایسا کوئی خدا ھے۔ جس کو ستارے سجدہ کرتے ھیں۔۔۔یا اشجار سجدہ کرتے ھیں۔
النجم و الشجرُ یسجدان۔۔۔
،،،،،
تاھم جب آپ سائینس اور علقیت کی طرف آئیں تو آپ دیکھتے ھیں کہ
کوئی نہ کوئی طاقت ھے یا طاقتیں ھیں جنہوں نے فزکس کے اصولوں کے تابع رہ کر حیاتیات بنائی۔۔ایسی طاقتیں ایک ھوں یا چار یا پانچ سو اس سے ھمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔
سائینس مسلسل دریافت کا علم ھے۔کئی اور ڈائیمینشن ھو سکتی ھیں۔۔جن تک ھماری رسائی نہیں ھے۔۔۔۔ یا محدود کر دی گئی ھے۔ اگر رسائی ھوئی تو ان طاقتوں سے ملاپ ھو سکتا ھے۔۔ تاھم مذھبی خدا بقول مذھب رحم کرتا ھے مہربان ھے غنی ھے سلیم ھے سمیع ھے۔۔تاھم غور کریں تو حیاتیاتی نظام میں کوئی رحم نہیں سوائے مادر پدر کے شفقت پدری و مادری کے رحم نہیں ھے ۔کیونکہ حیات کے سلسلے کو چلانا ھے وہ بھی ٹوٹا پھوٹا رحم ھے کئی جگہ ماں باپ بچے کو خود ھی مار دیتے ھے۔ ماں بچّے کو کھا بھی لیتی ھے کئی جانور اپنے بچوں کو کھا جاتے ھیں۔۔ قدرت میں ھماری انسانی رحم کی صفت کا کہیں پتہ نہیں۔۔ جاندار دوسرے جانداروں کا حق مار کے خود زندہ رھتے ھیں بھیڑئیے اور بیسیوں جانور دوسروں کو زندہ نوچ نوچ کھاتے ھیں۔
کیا آپ دیکھنا پسند کرتے ھیں کہ ھرن یا گائے کو سات آٹھ بھگیاڑ زندہ نوچ نوچ کر کھائیں؟ آپ اس منظر کو دیکھ کر دکھ محسوس کرتے ھیں یا بہت لذّت ملتی ھے؟
اگر ھم کسی جاندار کی تکلیف نہیں دیکھ سکتے تو خدا تو رحیم کریم مہربان ھو کر کیسے ایسا نظام بنا سکتا ھے۔۔کوئی قصائی کبھی شاعر نہیں بن سکتا کیونکہ شاعر کے لئے نازکیِ خیالات، ترحّم، جذبہ، فکر، گہرائی ، ندرت اور اُپچ لازم ھوتی ھے۔
۔۔۔ پس ھمارا مشاھدہ بتاتا ھے کہ قدرتی خدا کبھی رحیم کریم مہربان غفور سمیع علیم نہیں ھو سکتا۔ ورنہ وہ ایسا ظالمانہ تکلیف دہ نظام نہ بناتا۔۔
آپ نے تصاویر دیکھی ھونگی کہ ایک معروف پاکستانی کرکٹر اپنی معصوم پانچ چھ سال کی بچی کو جانور کی گردن کاٹتے یا کٹی گردن دکھاتا ھے وہ روتی ھے اور نہین دیکھنا چاھتی، کیونکہ بچے ابتدا میں ایساے ظالم طبع نہیں ھوتے۔ بعد مین انکی تربیت انہیں اچھا یا بُرا بناتی ھے۔ تاھم یہ معاملہ صرف انسان کے ساتھ ھے ، وہ مذھبی کرکٹر جگہ جگہ نمازیں پڑھتا دکھایا جاتا ھے، کیا مذھب کی تلقین جانوروں کا قتال ھے؟ معصوم بچی کو کیا تربیت دے رھا تھا؟
کیا آپکو علم ھے کہ جانوروں کے انسداد بے رحمی کے قوانین کافر اقوام نے بنائے ھیں؟ حتی کہ درختوں تک کی حفاظت کے عالمی قوانین کافروں نے بنائے ھیں۔مذھب نے یہ بتایا کہ مجرم کو سزا کے طور پر اسکے ھاتھ کی کون کون سے انگلی شریعت میں کاٹنی ضروری ھے۔
مذھبی خدا نے کیوں ایسی شریعت بنائی؟خدا میں انسانی غصہ کیوں ھے؟ خدا غصہ کرنے کی بجائے دلوں کی بیماری ٹھیک کیوں نہیں کرتا؟ خدا معزور کیوں پیدا کرتا ھۓ؟ خدا نے بیماریاں کیوں پیدا کیں؟ خدا ھر چیز پر قادر ھے تو پاخانہ اور غلاظت والے نظام کی بجائے کچھ اور کیوں نہ بنایا؟
آپ سوچیں اور پھر آپ سمجھیں گے کہ مذھبی خدا انسان کا بنایا گیا تصوّر ھے۔ اور قدرتی خدا وہ ھے جو حیاتیاتی نظام بنانے والی قوت ھے
وہ قوت کدھر ھے یہ سائینس ابھی تک معلوم نہیں کر سکی۔۔ جیسے سائینس اور کُل انسانی شعور کو پہلے بہت سی باتیں معلوم نہ تھیں۔۔ کہ جیسے زمین کی کششِ ثقل ھے۔ یا زمین سورج کے گرد گھومتی ھے۔ یا آسمان اوپر نہیں ھر طرف ھے۔۔ یہ بتایں سائینس نے لاکھوں سال بعد دریافت کی ھیں اس لئے جلدی کی کوئی ضرورت نہیں ذرا صبر کریں۔ سوچیں قدرتی خدا کسی اور ڈائمینشن میں ھوگا۔۔۔نہ بھی ھو تو ھمیں کوئی فرق تو پڑتا نہیں ھم بیماریوں اور قدرتی آفات سے خود ھی لڑتے ھیںَ ھر بظاھر معجزے اور جادو کا سائینسی تجزیہ موجود ھوتا ھے کوئی جادو نہیں ھوتا ۔کسی روح کا ھونا سائینس سے ثابت نہیں۔۔ جِلد کو لیبارٹری میں اُگایا جا سکتا ھے۔۔اب اعضا بھی بنائے جائیں گے۔ دِلوں میں بیماری ھے کے مقابل سائینس نے ربڑ کا دل بنایا اور دنیا میں کئی مریض اُسی دل کی پمپنگ سے جی رھے ھیں۔
مُلّاں کہیں گے قرآن میں جو انکے دِلوں میں بیماری سے مراد ھے وہ دماغ ھے۔۔تو پھر۔۔ رسول کا اوپن ھارٹ آپریشن یاد آئیگا جس میں جبریل نے دل کو صاف کیا تھا۔۔ ظاھر ھے کوئی بیماری ھی ھوگی،،، لیکن یاد رکھیں دل نکالا تھا دماغ نہیں۔۔۔ پس ۔۔ آپ جو دلیل دیں وہ آپکو واپس ادھر بھی لاگو کرنی ھوگی۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا نے کہا تھا دِلوں میں بیماری ھے مگر اصل میں دماغوں میں بیماری مُراد ھے۔
اور یُوں بھی پہلے ادوار میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ انسانی حیات کا دارو مدار یا جزبات کا منبع اور مرکز دل ھے۔۔اسی لئے ھم اب بھی کہتے ھیں۔ میرے دل میں یہ خیال آیا۔۔جبکہ دل میں نہیں دماغ میں خیال پیدا ھوتا ھے۔
میرا کُھلا استدلال یہ ھےکہ جب جبریل نے سینہ کھولا تو وھاں دماغ کھولنا چاھئیے تھا۔ ایمانی بیماری دل میں نہیں ھوتی دماغ میں ھو سکتی ھے
میں نے یہاں تک کا سفر 50 سال میں کیا ھے۔ اچانک نہیں پہنچ گیا۔
جن دھریوں اور ملحدین کو قدرتی خدا کی ترکیب پسند نہیں آئی وہ کوئی بھی نام رکھ لیں، لیکن یہ ثابت ھے کہ ارتقائی طور پر کوئی حیات خود نہیں بن سکتی
ان دھریوں اور خاص پاکستانی دھریوں میں کسی کا علم بھی طبیعات کے عالمی ماھر سائینسدان برائن کاکس کے برابر نہیں ھے اُس کی ویڈیوز ھی دیکھ لیں شاید سمجھ سکیں کہ حیاتیات کو پیدا کرنے والا خدا یا خدائی طاقتیں، کائناتی یا مادیاتی منبع سے مخلتف ھیں
ورنہ مَیں تو حیاتیاتی خُدا کے ھونے نہ ھونے دونوں سے ھرگز پریشان نہیں ھوں لیکن جو بھی خدا ھے اسکو میرا یہ پیغام ھے کہ۔
،،،،،،،
اگر خُدا نے چلایا ھے یہ نظامِ حیات
قسم خُدا کی بہت ھی بُرا چلایا ھے
۔۔۔رفیع رضا۔۔کینیڈا 2021۔۔
ساتھ میں حجرِ اسود کی اسلامی تاریخ بھی لف کر دیتا ھُوں تاکہ سند رھے کہ نام نہاد بہشتی پتھر کی عصمت دری کیسے خود مسلمانوں نے کی ھے۔۔۔
چونکہ حج آنے والا ھے اس لئے اللہ و سعودی عرب نے ، خانہ کعبہ میں نصب کالے پتھر کی ھائی ریزولیوشن فوٹوز میڈیا کو دی ھیں۔ اور اللہ مارکیٹنگ کو تم سے بہتر جانتا ھے
یہ پتھر امکانی طور پر شہاب ثاقب کا ٹکڑا ھے جو دنیا بھر میں گرتے رھتے ھیں،
حجر اسود کے حوادث تاریخ کے آئینے میں
حجر اسود عربی زبان کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ حجر عربی میں پتھر کو کہتے ہیں اور اسود سیاہ اور کالے رنگ کے لیے بولا جاتا ہے۔ حجر اسود وہ سیاہ پتھر ہے جو کعبہ کے جنوب مشرقی دیوار میں نصب ہے۔ اس وقت یہ تین بڑے اور مختلف شکلوں کے کئی چھوٹے ٹکڑوں پرمشتمل ہے۔ یہ ٹکڑے اندازاً ڈھائی فٹ قطر کے دائرے میں جڑے ہوئے ہیں جن کے گرد چاندی کا گول چکر بنا ہوا ہے۔ جو مسلمان حج یاعمرہ کرنےجاتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ طواف کرتے ہوئے ہر بار حجراسود کو بوسہ دیں۔ اگر ہجوم زیادہ ہو تو ہاتھ کے اشارے سے بھی بوسہ دیا جاسکتا ہے۔ جس کو استلام کہتے ہیں۔
تاریخ وحوادث
تاریخ میں کم ازکم چھ واقعات ملتے ہیں جب حجر اسود کو چوری کیا گیا یہ اس کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ہوسکتا اس کے حوادث کی تعداد اس بھی زیادہ ہو۔اسلامی روایات کے مطابق جب حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے۔ تو حضرت جبرائیل نے یہ پتھر جنت سے لا کر دیا جسے حضرت ابراہیم نے اپنے ہاتھوں سے دیوار کعبہ میں نصب کیا۔
1۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے قبیلہ بنی جرہم کے متعلق ملتا ہے کہ ان لوگوں نے حجر اسود کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔تاریخ میں ہے کہ جب بنو بکر بن عبد مناہ نے قبلہ ” جرہم ” کو مکّہ سے نکلنے پر مجبور کیا تو انہوں نے مکّہ سے بے دخل ہوتے ہوئےکعبہ میں رکھے دو سونے کے بنے ہرنوں کے ساتھہ ” حجر اسود ” کو کعبہ کی دیوار سے نکال کر زم زم کے کنویں میں دفن کر دیا اور مجبورا” یمن کی جانب کوچ کر گئے– الله تعالی کی حکمت دیکھیے کہ یہ پتھر زیادہ عرصے زم زم کے کنویں میں نہیں رہا – جس وقت بنو جرہم کے لوگ حجر اسود کو زم زم کے کنویں میں چھپا رہے تھے ایک عورت نے انھیں ایسا کرتے دیکھ لیا تھا – اس عورت کی نشان دہی پر حجر اسود کو زم زم کےکنویں سے بازیاب کرا لیا گیا ۔
2 – ابو طاہر نامی شخص کی قیادت میں ” قرا ما تین "نے 317 ہجری میں مکّہ مکرمہ کا محاصرہ کرلیا اور مسجد الحرام جیسے مقدس مقام پر تقریبا” سات سو انسانوں کو قتل کیا اور زم زم کے کنویں کو اور مسجد الحرام کے احاطے کو انسانی لاشوں اور خون سے بھر دیا – اسکے بعد اسنے مکّہ کے لوگوں کی قیمتی اشیا کو اور کعبہ مشرفہ میں رکھے جواہرات کو غصب کر لیا – اسنے کعبہ کے غلاف کو چیر پھاڑ کر کے اپنے پیروکاروں میں تقسیم کر دیا – کعبہ مشرفہ کے دروازے اور اسکے سنہری پر نالے کو اکھاڑ ڈالا – اور پھر بات یہیں ختم نہیں ہوئی اور 7 ذوالحجہ317 ہجری کو ابو طاہر نے حجر اسود کو کعبہ مشرفہ کی دیوار سے الگ کردیا اور اس کی جگہ کو خالی چھوڑ دیا اور اسکو موجودہ دور میں جو علاقہ ” بحرین ” کہلاتا ہے وہاں منتقل کر دیا – یہ حجر اسود کا ایک نہات تکلیف دہ دور تھا – تقریبا 22 سال حجر اسود کعبہ شریف کی دیوار سے جدا رہا – اس دور میں کعبہ مشرفہ کا طواف کرنے والے صرف اس کی خالی جگہ کو چومتے یا اس کا استلام کر تے تھے – پھر الله سبحان و تعالی کی مشیت دیکھیے کہ 22 سال بعد 10 ذوالحجہ 339 ہجری کو” سنبر بن حسن ” جس کا تعلق بھی قراماتین قبیلے سے ہی تھا ، اس نے حجر اسود کو آزاد کرا یا اور واپس حجر اسود کے اصل مقام پر پیوست کروا دیا – اس وقت ایک مسلہ یہ ضرور درپیش آیا کہ کیا واقعی یہ اصل حجر اسود ہی ہے یا نہیں تو اس وقت مسلمانوں کے ایک دانشور نے کہا وہ اس کو ٹیسٹ کر کے بتا دیگا کہ یہی اصل حجر اسود ہے یا نہیں کیوں کہ اس نے اس کے بارے میں احادیث کا مطا لعہ کر رکھا ہے .- اس نے حجر اسود پر آگ لگائی تو حجر اسود کو آگ نہیں لگی اور نہ ہی وہ گرم ہوا – پھر اسنے اسکو پانی میں ڈبویا تو یہ پتھر ہونے کے باوجود اپنی خصلت کے بر خلاف پانی میں ڈوبا نہیں بلکہ سطح آب پر ہی تیرتا رہا – اس سے ظاہر ہو گیا کہ یہ اصل جنت کا پتھر ہی ہے کیوں کہ جنت کا پتھر کا آگ سے اور غرق یابی سے بھلا کیا تعلق ہو سکتا ہے –
3 – سن 363 ہجری میں ایک رومی شخص نے اپنے کلہاڑے سے حجر اسود پر کاری ضرب لگائی جس سے اس پر چٹخنے کا ایک واضح نشان پڑ گیا – اس نے دوسری شدید ضرب لگانے کے لیے جیسے ہی اپنے کلہاڑے کو اٹھایا . الله سبحان و تعالی کی مدد آن پہنچی اور قریب ہی موجود ایک یمنی شخص نے جو اسکی یہ گھناونی کاروائی دیکھ رہا تھا ، چشم زدن میں اس نے اسے قتل کر ڈالا اور اسکی حجر اسود پر دوسری ضرب لگانے کی خواہش دل ہی میں رہ گئی –
4 – سن 413 ہجری میں فاطمید نے اپنے 6 پیروکاروں کو مکّہ بھیجا جس میں سے ایک ” الحاکم العبیدی ” تھا جو ایک مضبوط جسم کا مالک سنہرے بالوں والا طویل قد و قامت والا انسان تھا – وہ اپنے ساتھہ ایک تلوار اور ایک لوہے کی سلاخ لایا تھا – اپنے ساتھیوں کے اکسانے پر اسنے دیوانگی کے عالم میں تابڑ توڑ تین ضربیں ”حجر اسود ” پر لگا ڈالیں جس سے اسکی کرچیاں اڑ گئیں – وہ ہزیانی کیفیت میں اول فول بکتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ( معاذ الله ) جب تک وہ اسے پورا نہ اکھاڑ پھینکے گا جب تک سکوں سے نہ بیٹھے گا – بس اس موقع پر ایک مرتبہ پھر الله سبحان و تعالی کی مدد آن پہنچی اور گھڑ سواروں کے ایک دستے نے ان سب افراد کو گھیر لیا اور ان سب کو پکڑ کر قتل کردیا گیا اور بعد میں ان کی لاشوں کو بھی جلا دیا گیا۔
5 – اسی طرح کا ایک واقعہ سن 990 ہجری میں بھی ہوا جب ایک غیر عرب باشندہ اپنے ہتھیا ر کے ساتھ مطاف میں آیا اور اسنے حجر اسود کو ایک ضرب لگا دی – اس وقت کا ایک شہزادہ ” شہزادہ نصیر ” مطاف میں موجود تھا جس نے اسے فوری طور سے موت کے گھاٹ اتار دیا –
6 – سن 1351 ہجری کے محرم کے مہینے میں میں ایک افغانی باشندہ مطاف میں آیا اور اسنے حجرہ اسود کا ایک ٹکڑا توڑ کر باہر نکال دیا اور کعبہ کے غلاف کا ایک ٹکڑا چوری کر ڈالا -ا س نے کعبہ کی سیڑھیوں کو بھی نقصان پہنچایا – کعبہ مشرفہ کے گرد کھڑے محافظوں نے اسے پکڑ لیا – اور پھر اسے مناسب کارروائی کے بعد موت کی سزا دے دی گئی – اسکے بعد 28 ربیع الاول سن 1351 ہجری کو شاہ عبد العزیز نے اس پتھر کو دوبارہ کعبہ مشرفہ کی دیوار میں نصب کیا جو اس فاطر العقل افغانی نے نکال باہر کیا تھا – حجر اسود اس وقت ایک مکمل پتھر کی صورت میں نہیں ہے جیسا کہ یہ جنت سے اتارا گیا تھا بلکہ حوا د ث زمانہ نے اس متبرک پتھر کو جس کو بوسہ دینے کے لیے اہل ایمان کے دل ہر وقت بےچین رہتے ہیں آٹھ ٹکڑوں میں تبدیل کردیا ہے ۔
606ء میں جب رسول اللہ ﷺ کی عمر35 سال تھی ، سیلاب نے کعبے کی عمارت کو سخت نقصان پہنچایا اور قریش نے اس کی دوبارہ تعمیر کی لیکن جب حجر اسود رکھنے کا مسئلہ آیا تو قبائل میں جھگڑا ہوگیا۔ ہر قبیلے کی یہ خواہش تھی کہ یہ سعادت اسے ہی نصیب ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے اس جھگڑے کو طے کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ حجر اسود کو ایک چادر میں رکھا اور تمام سرداران قبائل سے کہا کہ وہ چادر کے کونے پکڑ کر اٹھائیں۔ چنانچہ سب نے مل کر چادر کو اٹھایا اور جب چادر اس مقام پر پہنچی جہاں اس کو رکھا جانا تھا تو آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کو دیوار کعبہ میں نصب کر دیا۔ سب پہلے عبداللہ بن زبیر نے حجر اسود پر چاندی چڑھوائی ۔ 1268ء میں سلطان عبدالحمید نے حجراسود کو سونے میں مڑھوایا ۔ 1281ء میں سلطان عبدالعزیز نے اسے چاندی سے مڑھوایا۔
696ء میں جب حضرت عبداللہ بن زبیر خانہ کعبہ میں پناہ گزین ہوئے تو حجاج بن یوسف کی فوج نے کعبے پر منجنیقوں سے پتھر برسائے اور پھر آگ لگا دی۔ جس سے حجر اسود کے تین ٹکڑے ہو گئے۔ عباسی خلیفہ الراضی باللہ کے عہد میں ایک قرامطی سردار ابوطاہر حجر اسود اٹھا کر لے گیا اور کافی عرصے بعد اس واپس کیا۔
فضائل حجر اسود با زبان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا :
بلاشبہ حجر اسود اورمقام ابراھیم جنت کے یاقوتوں میں سے یاقوت ہيں اللہ تعالٰی نے ان کے نوراورروشنی کوختم کردیا ہے اگراللہ تعالٰی اس روشنی کوختم نہ کرتا تو مشرق ومغرب کا درمیانی حصہ روشن ہوجاتا ۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 804 ) ۔
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
حجراسود جنت سے نازل ہوا ۔
سنن ترمذي حدیث نمبر ( 877 ) سنن نسائ حدیث نمبر ( 2935 )
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
حجراسود جنت سے آیا تودودھ سے بھی زیادہ سفید تھا اوراسے بنو آدم کے گناہوں نے سیاہ کردیاہے ۔
سنن ترمذي حدیث نمبر ( 877 )
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں :نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کے بارے میں فرمایا :
اللہ کی قسم اللہ تعالٰی اسے قیامت کولاۓ گا تواس کی دوآنکھیں ہونگی جن سے یہ دیکھے اورزبان ہوگی ۔جس سے بولے اور ہراس شخص کی گواہی دے گا جس نے اس کا حقیقی استلام کیا ۔
سنن ترمذي حدیث نمبر ( 961 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2944 )
جابربن عبداللہ رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ تشریف لاۓ توحجر اسود کا استلام کیا اورپھراس کے دائيں جانب چل پڑے اورتین چکروں میں رمل کیا اورباقی چار میں آرام سے چلے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 ) ۔
حجر اسود کا استلام یہ ہے کہ اسے ہاتھ سے چھوا جاۓ ۔ اگر بھیڑ زیادہ ہوتو ہاتھ کے اشارہ بھی کفایت کرے گا۔
حضرت عمر رضي اللہ تعالٰی عنہ حجراسود کے پاس تشریف لاۓ اوراسے بوسہ دے کرکہنے لگے : مجھے یہ علم ہے کہ توایک پتھر ہے نہ تونفع دے سکتا اورنہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے ، اگرمیں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوۓ نہ دیکھا ہوتا تومیں بھی تجھے نہ چومتا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1250 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1720 ) ۔
نافع رحمہ اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عمررضي اللہ تعالٰی عنہما نے حجراسود کا استلام کیا اورپھر اپنے ہاتھ کوچوما ، اورفرمانے لگے میں نے جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ کرتے ہوۓ دیکھا ہے میں نے اسے نہیں چھوڑا ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1268 ) ۔
ابوطفیل رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ بیت اللہ کا طواف کررہے تھے اورحجر اسود کا چھڑی کے ساتھ استلام کرکے چھڑی کوچومتے تھے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1275 ) ۔
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ پرطواف کیا توجب بھی حجر اسود کے پاس آتے تواشارہ کرتے اوراللہ اکبر کہتے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4987 ) ۔
ابن عمررضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان کا چھونا گناہوں کا کفارہ ہے ۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 959 ) امام ترمذی نے اسے حسن اورامام حاکم نے ( 1 / 664 ) صحیح قرار دیا اور امام ذھبی نے اس کی موافقت کی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کعبے میں پہلا جھگڑا تب ہوا جب حضرت علی علیہ السلام نے امیر حج مقرر کیا مگر معاویہ نے ماننے سے انکار کرتے ہوئے اپنا امیر حج بھیج دیا.. دونوں امیروں کی امارت پر عین حج کے موقع پر جھگڑا ہوا تاہم بات زبانی کلامی لڑائی جھگڑے تک محدود رہی قتل و غارت کی نوبت نہیں آئی۔ لیکن اس کے بعد کعبہ میں قتل و غارت کا ایک سلسلہ ملتا ہے جو ابھی تک جاری ہے.
یزید بن معاویہ نے حصین بن نمیر کی قیادت میں ایک لشکر کعبے کی طرف بھیجا جس نے کعبے پر منجنیقوں سے پتھراؤ کیا، غلاف کعبہ کو آگ لگا دی، دس سال بعد حجاج بن یوسف نے دوبارہ کعبے پر حملہ کیا صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جنھوں نے کعبہ کے اندر پناہ لے رکھی تھی انھیں اور ان کے تمام ساتھیوں کو شہید کیا اور ان کی لاش مکہ مکرمہ کے چوک میں لٹکا دی.
کعبے پر تیسرا بڑا حملہ اسماعیل بن یوسف علوی نے کیا، گیارہ ہزار حاجی قتل ہوئے، کعبے کا غلاف، سونا، چاندی اور لاکھوں دینار لوٹ کر چلا گیا. اس کے بعد جزارین اور مناطین کی آپس کی لڑائی کعبے میں لڑی گئی اس میں بھی کئی حجاج کرام شہید ہوئے اکثریت حج کیے بغیر ہی واپس لوٹ گئی مناسک حج بھی جنگ کی نظر ہو گئے.
بحرین میں قرامطہ نے طاقت حاصل کی تو ابو طاہر قرامطی کی قیادت میں کعبہ پر حملہ کیا، یہ اب تک کا سب سے خونخوار حملہ ثابت ہوا. تیس ہزار مکہ مکرمہ کے رہائشی اور دو ہزار حاجی مارے گئے. کعبے کا فرش خون سے سرخ ہو گیا. قرامطہ نے مکے میں خوب لوٹ مار کی اور حجر اسود اکھاڑ کر اپنے ساتھ بحرین لے گئے. بائیس سال حجر اسود قرامطہ کے قبضے میں رہا اور مسلمان بائیس سال حجر اسود کے بغیر حج کرتے رہے. بعض روایات میں ہے کہ قرامطہ نے حجر اسود کو توڑ کر تین ٹکڑے کر دئیے اور انہیں دریا میں پھینک دیا تھا. موجودہ حجر اسود اصلی حجر اسود نہیں ہے. بعض روایات یہ ہیں کہ معتصم نے بائیس ہزار اشرفیوں کے عوض حجر اسود واپس لیا تھا..
بنو امیہ، بنو عباس کی آپسی لڑائی بھی کعبہ میں لڑی جاتی تھی، ہر فریق چاہتا تھا کہ خطبہ میں اس کے خلیفوں کا نام لیا جائے انہی کی مرضی کا خطبہ پڑھا جائے. اس لئے ہر سال امیر حج بنانے پر لڑائی جھگڑا یقینی تھا.
بنو عباس کی خلافت کمزور ہوئی تو ترکوں نے اپنی اجارہ داری قائم کر لی، ترک بادشاہوں نے حجاز کے علاقوں پر قبضہ کر کے اپنے امیر حج سے اپنے نام کا خطبہ شروع کر دیا. بادشاہوں کی آپس کی لڑائی بھی چلتی رہی، مصر کے بادشاہ بھی کعبہ پر قبضے کی جنگ میں شامل ہو گئے.
سترہویں صدی میں عبدالعزیز نے ترکوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا، ترک امراء آپس میں بھی لڑتے رہتے تھے، عرب قبائل کی بھی آپس کی لڑائیاں ہر وقت جاری رہتی تھیں. عبدالعزیز نے ریاض تک کا علاقہ فتح کیا اس کے بعد اس کے بیٹے سعود بن عبد العزیز کو حکومت ملی. سعود بن عبدالعزیز نے ترکوں سے جنگیں لڑیں، آخری فیصلہ کن جنگ مکہ مکرمہ میں لڑی گئی. آل سعود کی مدد انگریز کر رہے تھے، اسلحہ گولہ بارود انگریزوں کا اور خون دونوں طرف مسلمانوں کا.
قرامطہ نے حجر اسود کے تین ٹکڑے کیے تھے، اگلے آٹھ سو سال میں آٹھ ٹکڑے ہو گئے. سلطنت عثمانیہ کے عبد العزیز نے آٹھ ٹکڑوں کو جوڑ کر چاندی کا خول چڑھا دیا تھا یہی خول آج تک چل رہا ہے.
1979 نومبر میں محمد بن عبداللہ قحطانی نے فجر کی نماز کے وقت کعبے پر حملہ کیا، وہ امام مہدی ہونے کا دعویدار تھا اس کے ساتھ لگ بھگ چار سو جنگجو موجود تھے. سعودی عرب نے مختلف ممالک کی آرمی سے مدد مانگی، چودہ دن خانہ کعبہ کا محاصرہ جاری رہا. ایک سو ستر افراد کعبہ میں مارے گئے اور دو سو گرفتار ہوئے.
ہر مسلمان حکمران نے اپنے اقتدار کی جنگ کو دین اسلام کی بقاء کی جنگ قرار دیا، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو تاراج کیا.۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ اسلام میں اب تک 39 بار حج ادا نہیں ہوا اگر 2020ء میں بھی حج موقوف ھوتا ھے تو یہ 40ویں بار ھوگا
سعودی ریاست کے وجود میں آنے سے اب تک حج کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ یا خلل واقع نہیں ہوا سعودی ریاست کے وجود سے چند سال پہلے 1917ء میں دنیا میں اسپینش فلو کی وبا پھیلی تھی جس کی وجہ سے پانچ لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے تھے تب بھی حج کی ادائیگی ہوئی تھی
اب ترتیب وار دیکھتے ھیں حج کب اور کس سن میں موقوف ہوا
865 ء میں عباسی خلافت کے مخالف اسماعیل بن یوسف السفاک نے مکہ مکرمہ پر حج کے دنوں میں حملہ کردیا بہت سے حاجی شہید ہوگئے اور پہلی دفعہ حج موقوف ہوا
پھر اس کے بعد 930 عیسوی میں بحرین پر قابض قرامطی (اسماعیلی) فرقے کے سردار ابوطاہر الجنبی نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا یہ بھی حج کے شروعات کے دن تھے اس حملے میں 30 ہزار حاجی شہید ہوئے حملہ آوروں نے مسجدالحرام میں بھی لوٹ مار کی اور حجر اسود بھی اپنے ساتھ بحرین لے گئے اس کے بعد کئی سال تک حج ادا نہ ہوسکے پھر حجر اسود بحرین سے لاکر دوبارہ نصب کیا گیا اور حج کی ادائیگی شروع ہوئی
983ء سے 990ء تک مسلسل آٹھ سال حج کی ادائیگی نہ ہوسکی اس کی وجہ ایران عراق پر قائم عباسی خلافت اور شام میں قائم فاطمی خلافت کی آپس میں جنگیں تھیں 991ء سے دوبارہ حج کی ادائیگی شروع ہوئی
1831 میں برصغیر پاک وہند میں طاعون کی وباء پھیلی تو اس خطے سے جو لوگ حج کے لیے مکہ معظمہ پہنچے ان کی وجہ سے مکہ مکرمہ میں موجود حاجیوں میں بھی یہ وباء پھیل گئی تاریخ کے حوالے سے پتہ چلتا ہے کہ حج کے شروع کے دنوں میں ہی مکہ میں موجود تین چوتھائی حاجی جاں بحق ہوگئے ان سنگین حالات کی وجہ سے مناسک حج منسوخ کر دیے گئے گئے
چھ سال بعد دوبارہ وباء نے سعودی عرب اس وقت کا نام حجاز مقدس پر دوبارہ حملہ کیا
1837ء سے 1858ء کے درمیان مختلف اوقات میں مختلف متعدی امراض پھیلتے رہے اور سات بار حج ادا نہ ہوسکا 1837ء میں مکہ میں طاعون کی وبا پھیلی تو اٹھارہ سو چالیس تک حج ادا نہ ہوسکا
1846ء میں مکہ والوں کو ہیضہ کی وباء نے آن گھیرا اور پندرہ ہزار افراد جاں بحق ہوگئے 1949ء تک حج کی ادائیگی رکی رہی 1858ء میں بھی ہیضہ کی وجہ سے حج مکمل نہ ہوسکا پھر 1865ء اور 1883ء میں بھی حج ادا نہ ہوا۔
۔۔۔۔)۔جاری ھے.(
وجاھت مسعود کی کتاب ڈاون لوڈ کریں… بنیادی سیاسی تصورات
وجاہت مسعود ایک لبرل مزاج لکھاری ہیں. اور پاکستان میں جاری آمریت کے خلاف مضامین لکھتے رھتے ھیں. انکی کتاب بنیادی سیاسی تصورات یہاں سے ڈاون لوڈ کر سکتے ھیں
اردو لکھاریوں، شاعروں کے اصلی اور قلمی نام ایک فہرست
قلمی نام…………… اصل نام
شاعروں اور ادیبوں کے اصلی نام اور قلمی نام
دستیاب نام لکھ دیے ۔۔۔۔مزید معلومات میں شرکت کی دعوت
افضال نوید ۔۔۔۔۔افضال احمد قمر
رشید ندیم۔۔۔۔۔۔ رشید ملک
پرویز پروازی۔۔۔۔ ناصر احمد خان پروازی
تہذیب حافی۔۔تہذیب حسین ۔
۔ علی زریون۔۔شاہد محمود ۔۔
رفیع رضا۔۔۔۔۔۔ محمد رفیع
پریم چند ۔۔۔۔۔ دھنپت رائے سری واستو
آثم فردوسی میاں عبدلحمید
آرزو لکھنوی سید انور حسین
اختر شیرانی محمد داود خان
اختر کاشمیری محمد طفیل
اختر ہاشمی محمد جلیل
اختر وارثی عبدالعزیز
محسن بھوپالی عبدالرحمٰن
آئی آئی قاضی امداد امام علی قاضی
ابن انشاء شیر محمد خان
انشاء سید انشاءاللہ خان
اسلم راہی محمد اسلم ملک
افسر ماہ پوری ظہیر عالم صدیقی
تبسم کاشمیری ڈاکٹر محمد صالحین
انور سدید محمد انورالدین
انیس ناگی یعقوب علی
جاذب قریشی محمد صابر
پطرس بخاری سید احمد شاہ
تبسم رضوانی حبیب اللہ
تنویر بخاری فقیر محمد
ثاقب حزیں محمد غلام مصطفیٰ
ثمر جالندھری محمد شریف
جان کاشمیری محمد نصیر
بہزاد لکھنوی سردار حسن خان
جعفر بلوچ غلام بلوچ
جلیل قدوائی جلیل احمد
جمال پانی پتی گلزار احمد
جوش ملیح آبادی شبیر حسن
تابش دہلوی مسعودالحسن
حافظ امرتسری محمد شریف
حبيب ساجد حبيب الله بلوچ
حبیب جالب حبیب احمد
حفیظ جالندھری ابوالاثر حفیظ
خاطر غزنوی محمد ابراہیم بیگ
سہیل بخاری محمود نقوی
شاعر لکھنوی حسین پاشا
شکیب جلالی سیدحسن رضوی
شوکت تھانوی محمد عمر
صبا اکبر آبادی محمد امیر
قتیل شفائی اورنگزیب
جمیل جالبی محمد جمیل خان
حافظ لدھیانوی محمد منظور حسین
رئیس امروہوی سید محمد مہدی
حسن عسکری محمد حسن
ن م راشد نذر محمد
صہبا اختر اختر علی رحمت
قمر جلالوی محمد حسین
کوثر نیازی محمد حیات
محسن نقوی غلام عباس
محشر بدایونی فاروق احمد
نسیم حجازی محمد شریف
منو بھائی منیر احمد
ناسخ شیخ امام بخش
ذوق محمد ابراہیم
راسخ شیخ غلام علی
داغ نواب مرزا خان
دبیر مرزا سلامت علی
درد سید خواجہ میر
سرشار پنڈت رتن ناتھ
ساحر لدھیانوی عبدالحئ
سودا مرزا محمد رفیع
ماجد صدیقی عاشق حسین
ماہر القادری منظور حسین
مجنوں گورکھپوری احمد صدیق
مومن حکیم مومن خان
آتش خواجہ حیدر علی
آرزو محمد حسین
حسرت موہانی فضل الحسن
ابوالکلام آزاد محی الدین
اصغر گونڈوی اصغر حسین
افسوس میر شیر علی
فراق گورکھپوری رگھو پتی سہائے
فانی بدایونی شوکت علی
مصحفی غلام ہمدانی
میرا جی ثناءاللہ ڈار
میرحسن میر غلام حسن
میر محمد تقی
رسا چغتائی. . . . . مرزا محتشم علی بیگ
نظیر اکبرآبادی شیخ محمد ولی
نظم طباطبائی سید حیدر علی
ناصرکاظمی ناصر رضا کاظمی
مرزا غالب اسداللہ خان
نسیم پنڈت دیا شنکرم
یاس یگانہ چنگیزی مرزاواجد حسین
ولی دکنی شمس الدین محمدولی
محروم تلوک چند
امیر خسرو ابوالحسن یمین الدین
عمر خیام غیاث الدین ابوالفتح
اشرف صبوحی ولی اشرف
امانت لکھنوی سید اکبر حسین
امیر مینائی امیر احمد
انیس میر ببر علی
بےخود دہلوی سیدوحیدالدین
بےدل مرزا عبدلقادر
پریم چند دھنپت رائے
تاباں غلام ربانی
جوش ملیسانی پنڈت لبھو رام
جرأت یحیٰ امان
جگر مرادآبادی علی سکندر
حالی مولاناالطاف حسین
چکبست پنڈت برج نارائن
امام غزالی ابوحامدمحمدبن غزالی
شیخ سعدی مصلح الدین
بلھے شاہ سید عبداللہ
سچل سرمست عبدالوہاب
فرمان فتح پوری . . سید دلدار علی
عزیز حامد مدنی . . محمد عزیز حامد
سحر انصاری۔۔۔۔۔۔۔۔ انور مقبول انصاری
احمد فراز . . . سید احمد شاہ
شاداب احسانی . . ذوالقرنین احمد صدیقی
آصف فرخی . . . . . . . آصف اسلم
صہبا لکھنوی . . . . . . . سید شرافت علی
رئیس فروغ . . . . . . . سید محمد یونس
نازش حیدری. . . …خورشید حسن
خاور نظامی. . . . . …محمد رفیق
شبنم رومانی ۔۔۔مرزا عظیم احمد بیگ چغتائی
محسن نقوی۔۔۔ سید غلام عباس
محسن سلیم . . . . سلیم احمد
جوش مليح آبادي…..شبير حسن خان
مسلم شميم…..محمد مسلم
ڈاکٹر سہیل بخاری۔،۔۔۔۔۔ سید محمود نقوی
صابر ظفر۔۔۔۔۔۔۔۔ . . . . مظفر احمد
فہیم شناس کاظمی۔۔۔۔۔۔۔سید فہیم اقبال
کاشف حیسن غائر۔۔۔۔۔۔۔۔سید کاشف حسین
.اشرف سلیم۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔چودھری محمد اشرف
محمد زبیر بیگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علی زبیر
سارہ شگفتہ۔۔۔۔۔۔۔۔شگفتہ پروین
سحرتاب رومانی۔۔۔۔،۔ محمد نعیم
کامی شاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سید کامران شاہ
سندھی ادیب، شعرا، مصنفین کے قلمی نام اور اصلی نام:
ابراہیم منشی: محمد ابراہیم سومرو
ادل سومرو: عبد الکریم سومرو
اختر ہالائی: خلیفہ محمد عمر
استاد بلاری: سید احمد شاہ
اسحاق راہی: محند اسحاق سومرو
امر جلیل: قاضی عبد الجلیل
امر سندھی: سلمیٰ لغاری
امداد حسینی: سید امداد علی شاہ
انعام شیخ: انعام اللہ
انور فگار ہکڑو (ڈاکٹر): محمد انور محمد صدیق
انور قمبرانی: انور علی
اے کے بروہی: اللہ بخش خان بروہی
بردو سندھی: محمد رمضان لاشاری
تنویر عباسی (ڈاکٹر): نور النبی
تاجل بیوس: تاج محمد سموں
حمید سندھی: عبد الحمید میمن
دادا سندھی: کریم بخش سومرو
زخمی چانڈیو: جام خان چانڈیو
زیب عاقلی: عبد الحق سومرو
سرشار عقیلی: حاجی اللہ بخش عقیلی
سرکش سندھی: عبد المجید چانڈیو
سرویچ سجاولی: محمد صدیق
سلیم ہالائی: قاضی عبد الحئی
شیخ ایاز: مبارک حسین
ع ق شیخ: عبد اللہ قادر
عارف المولیٰ: پیر حاجی شاہنواز
عبد الرزاق راز: عبد الرزاق شیخ
عزیز کنگرانی: عزیز اللہ
علی آکاش: معشوق علی گوپانگ
فیض بخشاپوری: فیض اللہ خان ڈومکی
مسرور بدوی: فقیر غلام علی
نثار بزمی: قلندر بخش جونیجو
منور ہالائی: عبد القادر
مولائی شیدائی: میر رحیم داد خان
آئی ایچ برنی: اقبال حسین
اختر انصاری اکبرآبادی: محمد ایوب
ادیب رائے پوری: سید حسین علی
افسر صدیقی امروہوی: منظور حسین
تسلیم فاضلی: اظہار انور
تشنہ بریلوی: عبد القوی شکور
جمال احسانی: محمد جمال عثمانی
جوہر سعیدی: سید محمد علی
حبیب جالب: حبیب احمد
حیدر دہلوی: سید جلال الدین
کے ایچ خورشید: خورشید الحسن خورشید
دعا ڈبائیوی: سید مرتضیٰ حسین
دکھی پریم نگری: وہاج محمد خان
دل لکھنوی (منشی): عزیز احمد
دلاور فگار: دلاور حسین
دلشاد کلانچوی (پروفیسر): عطا محمد
ذکی آذر (پروفیسر): ذکی احمد صدیقی
ساغر صدیقی: محمد اختر
سرور بارہ بنکوی: سید سعید الرحمٰن
شہزاد منظر: ابراہیم عبد الرحمٰن عارف
صادقین: سید صادقین احمد نقوی
صائم چشتی: محمد ابراہیم
صبا متھراوی: رفیع احمد
صبا لکھنوی: سید حیدر حسین
صہبا اختر: اختر علی نقوی
طالب جالندھری: طالب اسلام
ظفر جونپوری (پروفیسر): سید مظفر حسن زیدی
عارف سیماب سیالکوٹی: فقیر محمد خاں
عاصی کرنالی (پروفسیر ڈاکٹر): شریف احمد
عالم تاب تشنہ: سید عالم تاب علی
عبیر ابوذری: عبد الرشید
عرش تیموری: مرزا احمد سلیم شاہ
عرش صدیقی: ارشاد الرحمٰن
عشرت رحمانی: امتیاز علی خان
عین الحق فریدکوٹی: فضل الہٰی
فرید جاوید: فرید الدین
فضل فتح پوری: سید افضال حسین نقوی
فہیم اعظمیٰ: ڈاکٹر امداد باقر رضوی
قمر جمیل: قمر احمد فاروقی
قمر صدیقی: عبد الناظر صدیقی
قمر ہاشمی: سید محمد اسماعیل
قیوم نظر: عبد القیوم
کامل جوناگڑھی: غلام علی خان
کسریٰ منہاس: غلام حسین
کشفی الاسدی ملتانی: فقیر اللہ بخش
کلیم حیدرآبادی: غلام جیلانی
کلیم جلیسری: کلیم اللہ
کلیم عثمانی: احتشام الہٰی
کوکب شادانی: سید محمد ایوب علی زیدی
مسٹر دہلوی: مشتاق احمد چاندنا
مقرب آفندی: محمد مقرب
ممتاز حیدر ڈاہر: ممتاز علی خان
ملا رموزی: ضیاء الملک محمد صدیق
ممتاز گوہر: ممتاز اختر مرزا
منظور رائے پوری: سید منظور مہدی
منور بدایونی: ثقلین احمد
محجور بخاری: سید اللہ وسایا
مہر کاچیلوی: محمد حنیف
مینا زبیری: انیس مجتبیٰ
نادم صابری: گلزار احمد
نازش رضوی: سید علی امام
نازش کاشمیری: محمد صادق
ناطق لکھنوی (علامہ): حکیم سید سعید احمد
نجم آفندی: مرزا تجمل حسین
نشاط امروہوی: سید آل مصطفےٰ رضوی
مسعود کشفی: میر مسعود احمد سلطان
مظہر عرفانی: مظہر علی خان
معشوق یار جنگ: معشوق حسین خان
مقبول الوری: سید مقبول حسین
نشتر جالندھری: محمد عبد الحکیم خان
پریشان خٹک (پروفیسر): غمی خان
پرتو روہیلہ: مختار علی خان
تاج سعید: تاج محمد
ثاقب حزیں: محمد غلام مصطفےٰ
جوہر میر: میر قربان علی
رضا ہمدانی: مرزا رضا حسین ہمدانی
شمیم بھیروی: خواجہ عبد اللطیف سیٹھی
شوکت واسطی (پروفیسر): سید صلاح الدین
صابر کلوروی: صابر حسین
صغیر دہلوی: صغیر احمد جان
غنی خان: خان عبد الغنی خان
فارغ بخاری: سید میر احمد شاہ
فدا مطہر: عبد المطہر خان
فرید صحرائی: فرید خان
قلندر مومند: صاحبزادہ حبیب الرحمٰن
قمر راہی: قمر الزمان خان
مظمر تاتاری: غلام ہمدانی
ممتاز منگلوری (ڈاکٹر): اورنگ زیب
یونس قیاسی: محمد یونس خان
(حوالہ: وفیات خیبر پختونخوا اور ناموران پاکستان از ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ)
آغا بابر: سجاد حسین
ابراہیم جلیس: محمد ابراہیم حسن
ابن انشاء: شیر محمد خان
ابن صفی: اسرار احمد
ابن حنیف: مرزا ظریف بیگ
احسان دانش: قاضی احسان الحق
اطہر نفیس: کنور اطہر علی خاں
الطاف گوہر: الطاف حسین
الیاس سیتاپوری: محمد الیاس خان
الیاس عشقی محمد الیاس خان
امرائو طارق: سید طارق علی
انجم رومانی: فضل الدین چغتائی
انیس خورشید (پروفیسر): محمد انیس الدین
اے ڈی اظہر: احمد الدین
ایم اسلم: میاں محمد اسلم
ایم اے راحت: مرغوب احمد
ایم ڈی تاثیر (ڈاکٹر): محمد الدین تاثیر
باری علیگ: غلام باری
باقی صدیقی: محمد افضل
بخش لائلپوری: کریم بخش
تابش دہلوی: سید مسعود الحسن
تسلیم فاضلی: اظہار انور
تنویر نقوی: سید خورشید علی
جمیل الرحمن۔۔۔۔۔۔۔کنور محمد جلیل الرحمن
جمیل الدین عالی: مرزا جمیل الدین احمد خان
جون ایلیا: سید جون اصغر
جیلانی کامران: غلام جیلانی شیخ
حاجی لق لق: ابو علاء عطا محمد چشتی
حجاب امتیاز علی: حجاب اسماعیل
حزیں صدیقی: قاضی عفیف الدین احمد
ایس اے رحمٰن (جسٹس): شیخ عبد الرحمٰن
حسرت کاسگنجوی (ڈاکٹر): عبد الحق خان
حسن عابدی: سید حسن عسکری عابدی
حفیظ ہوشیارپوری: شیخ عبد الحفیظ سلیم
حنیف اخگر: سید محمد حنیف
خان آصف: آصف شاہ خان
خالد علیگ: سید خالد احمد شاہ
خیال امروہوی: سید علی مہدی نقوی
جی الانا: غلام علی الانا
راشد برہانپوری: سید محمد مطیع اللہ
راغب مراد آبادی: سید اصغر حسین
رام ریاض: ریاض احمد
رحمٰن کیانی: عبد الرحمٰن
رحمان مذنب: عزیز الرحمٰن
رشید ترابی: رضا حسین خان
رفیق خاور : محمد رفیق حسین
رعنا اکبر آبادی: شکور احمد
رضی اختر شوق: خواجہ رضی الحسن
رفعت القاسمی: محمد ابو القاسم
رفعت ہاشمی: سید فدا حسین
رفیع پیر: پیرزادہ رفیع الدین
دانیال طریر: مسعود دانیال
شریف کنجاہی: محمد شریف
شفقت رضوی: سید شفقت حسین
شورش کاشمیری: آغا عبدالکریم
شوکت سبزواری: شوکت علی
شہاب دہلوی: سید مسعد حسین خان
ضیاء جالندھری: سید ضیاء نثار احمد
ضمیر نیازی: ابراہیم جان محمد درویش
ظریف جبلپوری:سید حامد رضا نقوی
ظہیر کاشمیری: غلام دستگیر
عبد اللہ حسین: محمد خان
عطاء شاد: محمد اسحاق
فدا حسین خالدی: عبد الحمید
فرخندہ لودھی: فرخندہ اختر
قیسی رام پوری: خلیل الزماں خان
کامل القادری: سید محمد شاہ
کاوش رضوی: سید سبطِ رسول رضوی
کرار نوری: سید کرار میرزا
کرم حیدری (پروفیسر): ملک کرم داد
کیف بنارسی: سید یاور حسین
کیف رضوانی: سید فخر الحسن
لالہ صحرائی: محمد صادق
مجید لاہوری: عبد المجید چوہان
محبوب خزاں: محمد محبوب صدیقی
محشر بدایونی: فاروق احمد
مختار صدیقی: مختار الحق
مصطفیٰ زیدی: مصطفیٰ حسن
مظفر وارثی: محمد مظفر الدین احمد صدیقی
مقبول جہانگیر: مقبول الہٰی
ملا واحدی: محمد ارتضیٰ
ممتاز مرزا: مرزا توسل حسین
ممتاز مفتی: ممتاز حسین
میرزا ادہب: دلاور علی
نادم سیتاپوری: سید محمد اظہر
ناظم پانی پتی: اسماعیل ناظم
نجم الاسلام (ڈاکٹر): نجم الدین صدیقی
نسیم امروہوی: سید قائم رضا
نعیم آروی: نعیم الحسن
نگار صہبائی: محمد سعید الکریم
نہال سیوہاروی: منشی عبد الخالق
نیاز فتح پوری: نیاز محمد خاں
وارث سرہندی: محمد وارث علی شاہ خان
وحشت کلکتوی: سید رضا علی
وحید قریشی (ڈاکٹر): عبد الوحید
وفا راشدی (ڈاکٹر): عبد الستار خان
وقار انبالوی: ناظم علی
============ππππππππ========
آسی ضیائی (پروفیسر): امان اللہ خان
استاد دامن: چراغ دین
اثر صہبائی: خواجہ عبد السمیع پال
احمد عقیل روبی: غلام حسین سوز
احمد ندیم قاسمی: احمد شاہ
افتخار جالب: افتخار احمد
انور سدید (ڈاکٹر): محمد انوار الدین
اے آر خاتون: امت الرحمٰن
ایلس فیض: ایلس کیتھرین جارج
ایم ایم شریف (پروفیسر): میاں محمد شریف
بابا عالم سیاہ پوش: محمد حسین
پرنم الہٰ آبادی: محمد موسیٰ ہاشمی
تاجور نجیب آبادی: احسان اللہ خان درانی
حبیب کیفی: حبیب اللہ
حفیظ صدیقی (پروفیسر) محمد حفیظ الدین
حکیم لاہوری: عبد الرحیم
راجہ رسالو: محمد صادق
زیڈ اے سلہری: ضیاء الدین احمد
سی اے قادر (ڈاکٹر): چودھری عبد القادر
سیف زلفی: سید ذو الفقار حسین رضوی
عبادت بریلوی (ڈاکٹر): عبادت یار خان
فیروز نظامی: فیروز الدین احمد
کے کے عزیز (پروفیسر): خورشید کمال
مسعود کھدر پوش: محمد مسعود
منیر نیازی: محمد منیر خان
وارث لدھیانوی: چودھری محمد اسمعٰیل
ہاشمی فرید آبادی: سید ہاشم علی
ہمایوں ادیب: سید ہمایوں اختر
رشید اختر امجد ۔۔۔ رشید امجد
محمد ندیم اسلم ۔۔۔ روش ندیم
محمدثاقب شفیع ۔۔۔ ثاقب ندیم
ارشد محمود آصف ۔۔۔ ارشد معراج
محبوب حسین۔۔۔۔۔۔ محبوب ظفر
عمران اختر کیانی ۔۔۔ عمران عامی
رانا سعید احمد ۔۔۔ سعید دوشی
اختر محمود ۔۔۔ اختر عثمان
عابد حسین سیال ۔۔ عابد سیال
افتخار حسین عارف ۔۔۔ افتخار عارف
انجم اعظمی….مشتاق احمد
عارفہ شہزاد۔۔۔۔۔۔عارفہ اقبال
آثم فردوسی میاں عبدلحمید
آرزو اکبر آبادی عبد الرحمان
آرزو سرحدی وزیر محمّد خان
آزاد انصاری الطاف احمد
آزاد جمال دینی واحد بخش
آصف شاہکار اعجاز حسین
آرزو لکھنوی سید انور حسین
اپندر ناتھ اشک مادھو رام
آغا شورش کاشمیری عبد الکریم
اختر شیرانی محمد داود خان
ارشد جالندھری غلام رسول
ارمان سرحدی محمّد اسلام ملک
ارمان عثمان عبد الرشید
اسیر عابد غلام رسول
افسر ماہ پوری ظہیر عالم صدیقی
افسر صدیقی امروہوی منظور احمد صدیقی
انجم وزیر آبادی محمّد جان
انجم اعظمیٰ مشتاق احمد
انجم رضوانی قاضی احمد دین
انصر لدیھانوی محمّد رمضان
ادا جعفری عزیز جہاں
امرتا پریتم امرت کور
اختر کاشمیری محمد طفیل
اختر ہاشمی محمد جلیل
اختر وارثی عبدالعزیز
آئی آئی قاضی امداد امام علی قاضی
ابن انشاء شیر محمد خان
ابن مفتی سید ایاز مفتی
ابن ظریف مرزا ظریف بیگ
ابن صفی اسرار احمد
انشاء سید انشاءاللہ خان
اے- جی جوش عبد الغفور جوش
استاد دامن چراغ دین
اسلم راہی محمد اسلم ملک
افسر ماہ پوری ظہیر عالم صدیقی
تبسم کاشمیری محمد صالحین
انور سدید محمد انورالدین
انیس ناگی یعقوب علی
احمد ندیم قاسمی احمد شاہ
احمد راہی غلام احمد
احمد شہباز خاور شہباز احمد
اختر الایمان راؤ فتح محمّد
اجمل وجیہ محمّد اجمل خان
اثرصہبائی عبد السمیع پال
اقبال نجمی محمّد اقبال حسین
این – ایس شانی نادر سلطان
ابوالکلام آزاد محی الدین
اصغر گونڈوی اصغر حسین
الیاس گھمن محمّد الیاس
افسوس میر شیر علی
اخلاق حیدر آبادی محمّد اخلاق خان
ایاز شیخ شیخ مبارک علی
اے حمید عبد الحمید
اے- ایچ عاطف الطاف حسین
بہادر شاہ ظفر سراج الدین شاہ ظفر
بری نظامی شیخ محمّد سفیر
بسمل عظیم آبادی سید شاہ محمّد حسن
بسمل شمسی محمّد خان
باقی صدیقی محمّد افضل
باقی احمد پوری مقبول حسین بخاری
بیدل حیدری عبد الرحمان
تابش دہلوی مسعود الحسن
تنویر سپرا محمّد حیات خان
جاذب قریشی محمد صابر
پطرس بخاری سید احمد شاہ
تابش دہلوی مسعود الحسن
تبسم رضوانی حبیب اللہ
تنویر بخاری فقیر محمد
تبسم بٹالوی ریاض قدیر
ثاقب حزیں محمد غلام مصطفیٰ
ثمر جالندھری محمد شریف
جان کاشمیری محمد نصیر
جون ایلیا سید سبط اصغر نقوی
بہزاد لکھنوی سردار حسن خان
جعفر بلوچ غلام جعفر بلوچ
جلیل قدوائی جلیل احمد
جمال پانی پتی گلزار احمد
جوش ملیح آبادی شبیر حسن
جی – اے چشتی غلام احمد چشتی
تابش دہلوی مسعودالحسن
حافظ امرتسری محمد شریف
حبیب جالب حبیب احمد
حفیظ جالندھری ابوالاثر حفیظ
حاجی لق لق عطا محمّد چشتی
خاطر غزنوی محمد ابراہیم بیگ
خالد قیوم تنولی خالد خان
سلیم بیتاب محمّد سلیم
ساغر صدیقی محمّد اختر
سہیل بخاری محمود نقوی
سریندر پرکاش سریندر کمار اوبارے
شاعر لکھنوی حسین پاشا
شکیب جلالی حسن رضوی
شوکت تھانوی محمد عمر
صبا اکبر آبادی محمد امیر
فارس مغل غضنفر علی
قتیل شفائی اورنگزیب
قریش پور ذوالقرنین قریشی
جمیل جالبی محمد جمیل خان
رئیس امروہوی مسید حمد مہدی
راہی فدائی ظہیر احمد
رضیہ بٹ رضیہ نیاز بٹ
ویر سپاہی تنویر زمان خان
دوبندر ستیارتھی دوبندر باٹا
حسن عسکری محمد حسن
ن م راشد نذر محمد
ناز خیالوی محمّد صدیق
صہبا اختر اختر علی رحمت
صدف جالندھری شاہ محمّد
صائم چشتی محمّد ابراہیم
صابری عالی عبد العزیز
قمر جلالوی محمد حسین عابدی
کوثر نیازی محمد حیات
کاوش زیدی ماجد علی زیدی
محسن بھوپالی عبدالرحمٰن
محسن نقوی غلام عباس
محشر بدایونی فاروق احمد
ماہر القادری منظور حسین
مظہر حیدری لبھو خان
منظر پھلوری عبد المجید افضل
منیر جہلمی منیر حسین کھٹانہ
محمود رضا سید محمود مرسل
محمود دہلوی فضل الہی
نسیم حجازی محمد شریف
ناظم پتی محمّد اسمعیل
نوشی گیلانی نشاط گیلانی
منو بھائی منیر احمد
ناسخ شیخ امام بخش
ذوق محمد ابراہیم
رتن سرشار پنڈت رتن ناتھ سرشار
ریاض مجید ریاض الحق طاہر
راسخ شیخ غلام علی
رشید ہادی رشید احمد
راجا رسالو محم
124156 7, [23.10.20 04:39]
ّد صادق
رفعت ہاشمی عبد الرشید
زلفی سید ذوالفقار علی
داغ نواب مرزا خان
دبیر مرزا سلامت علی
درد سید خواجہ میر
دلاور فگار دلاور حسین
دلاور عسکری دلاور حسین
ذہین شاہ تاجی محمّد طاسین فاروقی
سرشار پنڈت رتن ناتھ
ساحر لدھیانوی عبدالحئ
سودا مرزا محمد رفیع
سیماب اکبر آبادی عاشق حسین
شبنم رومانی مرزا عظیم بیگ چغتائی
ماجد صدیقی عاشق حسین
ماہر القادری منظور حسین
مجنوں گورکھپوری احمد صدیق
مومن حکیم مومن خان
مسرور بدایونی مسرور الحسن
آتش خواجہ حیدر علی
آرزو محمد حسین
حسرت موہانی فضل الحسن
حافظ لدھیانوی سراج الحق
ھپوری رگھو پتی سہائے
فانی بدایونی شوکت علی
فقیر مصطفیٰ امیر نواز اعوان
مصحفی غلام ہمدانی
میرا جی ثناءاللہ ڈار
محسن مگھیانہ نیاز علی
مرتضی برلاس مرتضی بیگ برلاس
منصور ملتانی تنویر عارف خان
حاتم بھٹی عبد الحمید
حسن میر غلام حسن
خلیق قریشی غلام رسول
میر محمد تقی
نظیر اکبرآبادی شیخ محمد ولی
نظم طباطبائی سید حیدر علی
نادر جاجوی امانت علی
ناصرکاظمی ناصر رضا کاظم
نور کپور تھلوی نور محمّد
ندیم باری فقیر محمّد
مرزا غالب اسداللہ خان
میرزا ادیب دلاور علی
میر تنہایوسفی محمّد صالح
نسیم پنڈت دیا شنکرم
یاس یگانہ چنگیزی مرزاواجد حسین
ولی دکنی شمس الدین محمد ولی
محروم تلوک چند
امام غزالی ابو حامد محمّد بن غزالی
امیر خسرو ابوالحسن یمین الدین
عندلیب شادانی وجاھت حسین
غافل کرنالی محمّد یٰسین
ع- م ۔مسّلم عبدالستار
عمر خیام غیاث الدین ابوالفتح
عرش ملیسانی بل مکند
علی اختر اختر علی
غزالی محمّد اسلم
اشرف صبوحی ولی اشرف
امانت لکھنوی سید اکبر حسین
امیر مینائی امیر احمد
انیس میر ببر علی
بےخود دہلوی سیدوحیدالدین
بےدل مرزا عبدلقادر
پریم چند دھنپت رائے
تاباں غلام ربانی
جوش ملیسانی پنڈت لبھو رام
جرأت یحیٰ امان
جگر مرادآبادی علی سکندر
حالی مولاناالطاف حسین
حکیم رمضان اطہر محمّد رمضان
حکیم ساحر قدوائی صفی اللہ خان
حفیظ تائب عبدالحفیظ
خمار بارہ بنکھوی محمّد حیدر خان
خیال امروہوی سید علی مہدی نقوی
خوشتر گرامی رام رکھا مل
چکبست پنڈت برج نارائن
شیخ سعدی مصلح الدین
بلھے شاہ سید عبداللہ
سجاد مرزا مرزا عبد الحمید
سچل سرمست عبدالوہاب
سلیم اختر فارانی اختر سلیم
سرور بارہ بنکھوی سید سعید الرحمان
شوق انصاری شوکت علی
شیر افضل جعفری شیر محمّد
کوثر نیازی محمّد حیات خان
کیفی اعظمیٰ اطہر حسین رضوی
کامل دہلوی عبدالله کامل دہلوی
کلیم عثمانی احتشام الہی
گلزار سمپیورن سنگھ
گل بخشالوی سبحان الدین
گستاخ بخاری سید منیر احمد
گوہر ملسیانی میاں محمّد طفیل
یزدانی جالندھری سید عبد الرشید یزدانی
زیڈ – اے سلہری ضیاءالدین احمد سلہری
۱) مراۃالعروس، ابن وقت، بنات النعش، توبتہ النصوح اور فسانہ مبتلا کس کی تصانیف ہیں؟
ج ڈپٹی نذیر احمد
۲) کپاس کا پھول، دشت وفا، چوپال ، سناٹا، گھر سے گھر تک کس کی تصانیف ہیں؟
ج احمد ندیم قاسمی
۳) ابن بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلئے، آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے کس کی تصانیف ہیں؟
ج ابن انشاء
۴) مسدس حالی، مقدمہ شعر و شاعری، حیات جاوید، حیات سعدی، یادگار غالب کا مصنف کون ہے؟
ج الطاف حسین حالی
۵) بانگ درا کب شائع ہوئی؟
ج ۱۹۲۴ء اردو کلام
۶) ارمغان حجاز اردو اور فارسی کا مجموعہ ہے جو ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا کس کی تصنیف ہے؟
ج اقبال
۷) اردوئے معلی خطوط، عود بندی، مہر نیم روز، گل رعنا، قاطع برہان، سبد چین، قادرنامہ کا خالق کون ہے؟
ج غالب
۸) نسخہ ہائے وفا، نقش فریادی، دست صبا، سروادی سینا، زندان نامہ، دست تہ سنگ، میزان کا خالق کون ہے؟
ج فیض احمد فیض
۱۰) موازنہ انیس و دبیر، شعر العجم، علم الکلام، الفاروق، المامون، سیرت النبی، الغزالی
ج شبلی نعمانی
۱۱) نکات شعراء، ذکر میر، خواب و خیال کس کی تصانیف ہیں؟
ج میر تقی میر
۱۲) خود کلامی، خوشبو، انکار، ماہ تمام کس کے مجموعے ہیں؟
ج پروین شاکر
۱۳) شاہنامہ اسلام اور سوز و ساز کا خالق کون ہے؟
ج حفیظ جالندھری
۱۴) تذکرہ غبار خاطر اور الہلال کس نے لکھیں؟
ج ابوالکلام آزاد
۱۵) انار کلی، چچا چھکن اور کمرہ نمبر ۵ کس نے لکھیں؟
ج امتیاز علی تاج
۱۶) راجہ گدھ اور شہر بے مثال کس کی ہیں؟
ج بانو قدسیہ
۱۷) بستی، شہر افسوس اور چاند گرہن کس کی ہیں؟
ج انتظار حسین
۱۸) سوزِ وطن اور بازارِ حسن کا خالق کون ہے؟
ج منشی پریم چند
۱۹) آبِ کوثر اور موچِ کوثر کا خالق کون ہے؟
ج شیخ محمد اکرام
۲۰) تماشا، گنجے فرشتے، کروٹ، کالی شلوار، ہتک ، یزید، نمرود کی خدائی، خالی ڈبے کس کی تصانیف ہیں؟
ج سعادت حسن منٹو
۲۱) زندگی اور دین اسلام کس کی تصانیف ہیں؟
ج چوہدری افضل حق
۲۲) نقش نگار، شعلہ و شبنم، روح ادب کا خالق کون ہے؟
ج جوش ملیح آبادی
۲۳) خطبات احمدیہ، تہذیب الاخلاق، آثار الصنادیر، تاریخ سرکشی بجنور، تبین الکلام ، رسالہ اسباب بغاوت ہند اور رسالہ احکام طعام اہل کتاب کا خالق کون ہے؟
ج سر سید احمد خان
۲۴) اردو کی آخری کتاب اور رانی کیتکی کا خالق کون ہے؟
ج اردو کی آخری کتاب ابن انشاء اور رانی کیتکی کے انشاء اللہ خان
۲۵) آب حیات، نیرنگ خیال، اردو کی پہلی کتاب کا خالق؟
ج محمد حسین آزاد
۲۶) علی پور کا ایلی، لبیک، الکھ نگری، غبارے اور تلاش کا خالق کون ہے؟
ج ممتاز مفتی
۲۷) آنگن، تلاش گمشدہ، چند روز، کھیل اور بوچھاڑ کس کی تصانیف ہیں؟
ج خدیجہ مستور
۲۸) آرائش محفل، طوطا کہانی ، گل و مغفرت کس کی تصانیف ہیں؟
ج حیدر بخش
۲۹) علامہ اقبال کو سر کا خطاب کب ملا؟
ج 1922ء میں لاہور میں
۳۰) علامہ اقبال کا پہلا مجموعہ کب شائع ہوا؟
ج بانگ درا 1924ء
۳۱) ذکر اقبال کس کی تصنیف ہے؟
ج مولانا عبدالمجید سالک
۳۲) گل رعنا، شعرالہند اور شعر العجم کا تعلق کس صنف سے ہے؟
ج تنقید نگاری
۳۳) یادوں کی برات، شہاب نامہ، اور میرا افسانہ کا تعلق اردو ادب میں کس صنف سے ہے
ج خود نوشت
۳۴) لہو اور قالین، اور فصیل شب کس کے ڈرامے ہیں؟
ج مرزا ادیب
۳۵) ریختہ میں سب سے پہلا دیوان کس نے مرتب کیا؟
ج سعد سلمان نے مگر معدوم ہے چند شعروں کا ہی معلوم ہوسکا ہے؟
۳۶) بیت الغزل سے کیا مراد ہے؟
ج غزل کا پہلا شعر, جس غزل کے ایک یا دو شعر ہوں..
۳۷) مدہوش، یہودی کی لڑکی اورکالی بلا کس کے ڈرامے ہیں؟
ج سجاد حیدر یلدرم
۳۸) عبدالحلیم شرر، ڈپٹی نذیر احمد اور مرزا ہادی کا تعلق کس سے تھا؟
ج ناول نگاری سے
۳۹) باغ وبہار میں اردو کے علاوہ کسی اور زبان کا کوئی لفظ نہیں یہ کس کی تصنیف ہے؟
ج میر امن دہلوی
۴۰) مرزا غالب نے ابتداء میں کس کی پیروی کی؟
ج عبدالقادر بیدل
۴۱) بابائے اردو مولوی عبدالحق نے کس کو سرتاج شعرائے اردو کہا؟
ج میرتقی میر
۴۲) شاعری میں سب سے پہلے زبان کے لئے اردو کا لفظ کس نے استعمال کیا؟
ج مراد شاہ لاہوری
۴۳) جگر نامہ، شعلہ عشق، جوش عشق، دریائے عشق، اعجاز عشق اور معاملات عشق اور خواب و خیال کس کی مثنویاں ہیں؟
ج میر تقی میر
۴۴) لسان العصر کس کا خطاب ہے؟
ج اکبر الہ آبادی
۴۵) مصور غم کس کا لقب ہے؟
ج علامہ راشدالخیری
۴۶) مصور حقیقت کسے کہتے ہیں؟
ج اقبال
۴۷) جدید غزل کا امام اور آبرو غزل کس کو کہتے ہیں؟
ج حسرت موہانی کو
۴۸) علامہ اقبال کو حکیم الامت کا خطاب کس نے دیا؟
ج خواجہ حسن نظامی
۴۹) اقبال کو احسان الہند کا خطاب کس نے دیا؟
ج مولانا آزاد
۵۰) اقبال کی نماز جنازہ کس نے پڑھائی؟
ج مولانا غلام مرشد
۵۱) الف نون کس کا مشہور کھیل ہے؟
ج کمال احمد رضوی
۵۲) ابلیس کی مجلس شوری کس کی نظم ہے؟
ج علامہ اقبال
۵۳) اک چادر میلی سی کس کا ناول ہے!
ج راجندر سنگھ بیدی
۵۴) اصغری اور اکبری کس مشہور ناول کے کردار ہیں؟
ج مراۃ ال
124156 7, [23.10.20 04:42]
عروس
۵۵) اردو شاعری میں ہجو کا آغاز کس شاعر نے کیا؟
ج رفیع سودا
۵۶) زبور عجم علامہ اقبال کی کتاب ہے یہ کس زبان میں ہے؟
ج فارسی
۵۷) بازار حسن کس کا ناول ہے؟
ج پریم چند
۵۸) باغ و بہار کس کا ترجمہ ہے؟
ج نو طرز مرصع کا
۵۹) دل دریا سمندر کس کی تصنیف ہے؟
ج واصف علی واصف
۶۰) ترقی پسند تحریک کے حوالے سے افسانوں کا پہلا مجموعہ کونسا تھا؟
ج انگارے 1932ء
۶۱) رباعی فارسی ادب سے آئی ہے اس کا سب سے بڑا شاعر عمر خیام ہے اس میں کتنے مصرعے ہوتے ہیں؟
ج چار
۶۲) طنزیہ شاعری کو کیا کہتے ہیں؟
ج ہجو , طنزیہ شاعری ہوتی ہے جبکہ طنزیہ کے متضاد قصیدہ کی صنف ہے.
۶۳) شہر آشوب کے حوالے سے شاعری کا بڑا نام کس کا ہے؟
ج ظفر علی خان
۶۴) اردو کا پہلا افسانہ نگار کون تھا؟
ج پریم چند
۶۵) اقبال کی مشہور نظم مسجد قرطبہ کس کتاب میں ہے؟
ج بال جبریل میں
۶۶) علامہ اقبال کی کتاب تشکیل جدید الیہات میں کتنے خطبات ہیں؟
ج 7
۶۷) جوش ملیح آبادی کی سوانح حیات کا نام بتائیں؟
ج یادوں کی برات
۶۸) شاعر اعظم اور شاعر انقلاب کس کا خطاب ہے؟
ج جوش ملیح آبادی
۶۹) ریختہ کا لفظ اردو زبان کے لئے کس بادشاہ کے دور میں استعمال ہوا؟
ج اکبر بادشاہ
۷۰) اردو کا پہلا صوفی شاعر اور تخیل کا سرخیل کس کو کہتے ہیں؟
ج میر درد
۷۱) لفظ اردو پہلی دفعہ کس کتاب میں استعمال ہوا؟
ج تزک جہانگیری
۷۲) ٹیڑھی لکیر کس کی تصنیف ہے
ج عصمت چغتائی
۷۳) مشہور نظم ماں جائے کی یاد کس کی تصنیف ہے؟
ج جوش ملیح آبادی
۷۴) مثنوی کسے کہتے ہیں؟
ج ایسی نظم جس میں ہر شعر الگ الگ قافیہ میں ہو
۷۵) قطعہ میں اشعار کی تعداد کتنی ہوتی ہے؟
ج دو سے لے کر کم از پچیس تک اس سے زائد بھی شعراء نے کہے ہیں
۷۶) جو شعر مطلع ہونہ مقطع کیا کہلاتا ہے؟
ج بیت,,,
۷۷) مرزا غالب کا اصل نام کیا تھا؟
ج اسداللہ خان
۷۸) ابوالکلام آزاد کا اصل نام کیا تھا؟
ج محی الدین احمد
۷۹) انیس کا اصل نام کیا تھا؟
ج میر ببر علی
۸۰) پریم چند کا اصل نام؟
ج دھنپت رائے سری واستو
۸۱) جگر مراد ابادی کا اصل نام؟
ج علی سکندر
۸۲) دبیر کا اصل نام؟
ج مرزا سلامت علی
۸۳) سودا کا اصل نام!
ج مرزا محمد رفیع
۸۴) مصحفی کا اصل نام؟
ج غلام ہمدانی
۸۵) نظیر اکبرآبادی کا اصل نام؟
ج شیخ محمد ولی
۸۶) ولی دکنی کا اصل نام؟
ج شمس الدین محمد ولی
۸۷) عمر خیام کا اصل نام؟
ج غیاث الدین
۸۸) ذوق کا اصل نام؟
ج محمد ابراہیم
۸۹) حسرت موہانی کا اصل نام؟
ج فضل الحسن
۸۰) قتیل شفائی کا اصل نام؟
ج اورنگزیب
۹۱) محسن نقوی کا اصل نام؟
ج غلام عباس
۹۲) داغ کا اصل نام؟
ج نواب مرزا خان
۹۳) پطرس بخاری کا اصل نام؟
ج سید احمد شاہ
۹۴) جوش ملیح آبادی کا اصل نام؟
ج شبیر حسین
۹۵) بلھے شاہ کا اصل نام؟
ج سید عبداللہ
۹۶) آرزو کا اصل نام؟
ج محمد حسین
۹۷) ن م راشد کا اصل نام؟
ج نذر محمد
۹۸ شوکت تھانوی کا اصل نام؟
ج محمد عمر
۹۹) اختر کاشمیر ی کا اصل نام؟
ج محمد طفیل
۱۰۰) باقی صدیقی کا اصل نام؟
ج سائیں محمد افضل
عفاف اظہر کینیڈا کا سوشل بلاگ
فطرت ..
جیسے ایک انڈے کے اندر چوزہ بنتا ہے .. ذرا غور کریں تو کسقدر نازک اور حساس ترین زندگی ایک انڈے کے اندر جنم لے رہی ہوتی ہے ..اس پلتی زندگی کے گرد باریک سی جھلی اور پھر اس جھلی کے اوپر انڈے کا خول ..بظاھر دیکھا جائے تو انڈا توڑنا ہمارے لئے ایک معمولی سی بات ہے .. مگر اگر اس کے اندر پلتی اس حساس و نازک سی جان کی طرح محسوس کرو تو .. اسکے گرد یہ انڈے کا خول اسکے جسم و جان کی حفاظت کا ایک مضبوط قلعہ ہے …ایک آہنی حصار …
اور پھر کچھ ہی دیر بعد ایک ایسا وقت بھی آ جاتا ہے… جب یہ نازک جسم و جان ایک معصوم سا چوزہ بن جاتا ہے…. ایک انفرادی وجود …جس کے لئے اب اس انڈے کے خول میں گویا اسی حفاظتی قلعہ کے حصار میں مزید رہنا اسکی موت کا سبب بن سکتا ہے …وہ پھر اندر ہی اندر سے اپنی پوری طاقت آزماتا ہے اپنے ہاتھ پاؤں مارتا ہے ..انہی جھلیوں سے نکلنے اور حفاظتی خول کو توڑنے کے لئے ….اپنا وجود پانے کے لئے …دنیا میں آنے کے لئے …سانس لینے کے لئے … زندہ رہنے کے لئے …
ہوبہو یہی حال ایک انسان کا بھی ہے ..فرق صرف اتنا ہے کہ چوزہ جسمانی طور پر انڈے کے اندر سے نکلتا ہے…. تو انسان ذہنی طور پر اپنے گرد لپٹی ان حفاظتی جھلیوں سے آزاد ہوتا ہے …ہر بچے کے پیدا ہوتے ہی اسکے والدین ، گھر ، خاندان اور سماج ، اپنے طور، اپنی اپنی سوچ کے مطابق حفاظتی جھلیاں لپیٹنے اور حفاظتی بند باندھتے رہتے ہیں ….اس امر میں کوئی شک نہیں کہ زندگی کے اس نرم و نازک مراحل میں یہ اس جان کی حفاظت کیلئے بہت اہم ہوتا ہے …ہاں مگر پھر وہ وقت آنا بھی عین فطری ہے .. کہ یہی حفاظتی بند توڑنے کی کاوشیں کرنا اور جھلیوں سے نکلنا اسکے اپنے انفرادی وجود کو پانے کا واحد تقاضہ ٹھہرتا ہے …
ہم سماجی سطح پر انسان کی زندگی کے اسی فطری موڑ کو کبھی سمجھ ہی نہیں پائے… تو قبول کیا خاک کریں گے ؟؟ … ہمیں لگتا ہے جو روایات و نظریات ہم اپنے بچوں کو وراثت میں دیتے ہیں وہی انکی زندگی کا کل سرمایہ ہیں … جبکہ قطعی طور پر یہ ایک غیر فطری عمل ہے … اور ایسا ہرگز ممکن ہی نہیں ہو سکتا .. یہ سبھی سماج کے لپیٹے عقائد و روایات کے حفاظتی بند توڑنا ، بوسیدہ نظریات کی جھلیوں سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنا … در حقیقت ہر انسان کا اپنے انفرادی وجود کو پانے کا … کھلی فضاؤں میں سانس لینے کا ..زندہ رہنے کا .. خود کو گھٹن آمیز اس ذہنی موت سے بچانے کا واحد و فطری طریق ہے ….. عفاف اظہر
ستارہ لکیر چھوڑ گیا ، تجزیہ، تنقید
جہان ِ حیرت کا مسافر ۔ رفیع رضا
عرفان ستار۔۔۔۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی باق نہیں کہ میں نے اب سے پہلے رفیع رضا کو پڑھنے کی طرح نہیں پڑھا تھا۔ اسی طرح پڑھا تھا جیسے فیس بک پر سب پڑھتے ہیں۔ ایک عرصے تک تو رفیع میری فرینڈز لسٹ میں بھی شامل نہیں تھا۔ مگر اس دوران میں وہ اپنی غزلوں کے لنک مجھے ای میل کرتا تھا اور میں ایک سرسری پڑھت کے بعد جو مناسب سمجھتا تھا، وہ رائے دے دیتا تھا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ مگر اس دوران بھی بحیثیت شاعر، میرے دل میں رفیع کی قدر و قیمت موجود تھی، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے رویّے کی شدّت دوسروں کی طرح مجھے بھی پریشان کرتی تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ شخص دل جمعی سے شاعری کرنے کی بجائے یہاں وہاں جھگڑے کیوں مولتا پھرتا ہے؟ آخر مسئلہ کیا ہے اس کا؟ پاگل ہے؟ ذہنی مرض میں مبتلا ہے؟ خود پسند ہے؟ حاسد ہے؟ کیا ہے آخر؟ اس مسئلے کو زیادہ گمبھیر میں نے یوں بنا لیا کہ کینیڈا آنے کے بعد رفیع سے دو ایک ملاقاتیں ہوگئیں۔ یہ کیا؟ یہ تو کوئی اور ہی شخص ہے۔ پُرخلوص۔ گرم جوش۔ سلیقے کی گفتگو کرنے والا۔ تو پھر وہ کون ہے جو فیس بک پر آگ اگلتا پھرتا ہے؟ یہ مسئلہ کبھی میرے لیے سلجھنے والا نہ تھا اگر بھائی فرحت عباس شاہ نے مجھ سے رفیع کی شاعری پر کچھ لکھنے کے لیے نہ کہا ہوتا۔ جب یہ ہوا تب بھی میرا ابتدائی ردّ ِ عمل کوئی بہت مثبت نہ تھا، اگرچہ میں نے اس کا اظہار نہ کیا۔ ذہن میں یہ آیا کہ کیا مصیبت ہے۔ کس نے میرا نام سجھا دیا شاہ جی کو؟ خواہ مخواہ رفیع کی شاعری پر لکھ کر اس کے مخالفین کی باتیں سننے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر سوچا چلو خیر ہے۔ کاریگری دکھا دوں گا۔ صاحب ِ اسلوب، جدید فکر کا حامل، تازہ کار، اور اس قسم کی چند باتیں پھیلا کر لکھ دوں گا، جس میں کوئی فقرہ قابل ِ گرفت نہ ہوگا۔ سوال اٹھانے والوں سے کہہ دوں گا کہ یار۔ دنیا داری بھی کوئی چیز ہے۔ اگر نہ لکھتا تو لوگ کہتے کہ میں رفیع سے جلتا ہوں۔ نمبر ون کی لایعنی بحث بھی تو چھڑی ہوئی ہے۔ نہ لکھتا تو لوگ کہتے رفیع کے نمبر ون شاعر ڈکلیئر ہوجانے سے ڈرتا ہوں، اس لیے لکھ دیا۔ خیر ہے یار۔ دو ایک دن میں تحریر اپنی موت آپ مر جائے گی۔ لوگوں کی یاداشت بڑی مختصر مدت کی ہوتی ہے۔ کس کو یاد رہے گا؟
خیر اسی ذہنی کیفیت میں ’’ستارہ لکیر چھوڑ گیا’’ کا مطالعہ شروع کیا۔ پہلی بار سرسری نظر دوڑائی۔ وہی تاثر ابھرا کہ جو ہہلے سے تھا۔ اچھا شاعر ہے۔ مگر اتنا بھی اچھا نہیں۔ اخاہ۔ یہ لفظ کیسے استعمال کیا ہے؟ اور یہ ترکیب؟ یار کیسی پتھریلی زمین ہے۔ شدت ہے، مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چلو کل بیٹھ کر ایک آدھ گھنٹے میں نمٹا دوں گا مضمون۔ خیال سے لکھنا ہوگا۔ کوئی فقرہ سخت نہ ہو۔ کوئی بات حتمی نہ ہو۔ بس بین بین چلتا ہوا سلامتی سے گزرجاوٗں گا۔
اگلے دن پھر کتاب کھولی اور ذہن کو ایک شعر نے زوردار جھٹکا دیا۔
سو پھیلنے کی اسی حد پہ علم جاکے رکا
میں کہہ رہا تھا جہاں یہ سمٹنے والا ہے
یہ کیا ہے؟ ایکسپینڈنگ یونیورس تھیوری؟ مگر اس کا غزل میں کیا کام؟ اور پھر شاعر یہ بھی کہتا ہے کہ یہ جہاں سمٹنے والا ہے؟ گویا سائنس کا یہ ماننا کہ کائنات مسلسل پھیلنے کے عمل سے گزر رہی ہے، اور یہ عمل کسی وقت پلٹے گا، اور کائنات ایک مرکز کی جانب پھر سمٹے گی اور نتیجہ؟ وہ سب ٹھیک مگر یہ تھیوری غزل میں کیا کررہی ہے؟ کمال ہے۔ اور دیکہیں؟ چلو چلو۔۔۔آگے بڑھو۔
یہ جو موجود ہے، اسی میں کہیں
اک خلا ہے، تجہے نہیں معلوم
پیریلل یونیورس تھیوری؟ نا ممکن۔ یہ تکا ہے یار۔ شاعر کو کہاں معلوم ہوگا۔ یونہی لکھ دیا اور میں اس کو اپنے حساب سے توجیہ دینے لگا۔ پرے ہٹاوٗ یار۔ غزل کو غزل کی طرح پڑھو۔
نظر آتا ہے سر پر، اور نہیں ہے
رضا اس آسماں کا کیا کیا جائے؟
نہیں یار یہ خالص سائنس ہے۔ یہ تکا نہیں ہوسکتا۔ بالکل صاف، واضح شعر ہے۔ آسماں کا کوئی وجود نہیں۔ بس خلا ہے۔ اتھاہ، لاانت خلا۔ یہ آسمان صرف نظر کا دھوکہ ہے۔ یہ شخص کسی اور مقام سے کلام کررہا ہے۔ ہوشیار باش۔ ذرا خیال سے۔ معاملہ نازک ہے۔
دھڑکتی رہتی ہے کوئی گھڑی مرے دل میں
یہ وقت میرے ہی چکر سے ہوکے جاتا ہے
وجود سے باہر وقت کی کوئی حقیقت نہیں؟ ٹائم اینڈ اسپیس؟ کیا کررہا ہے یہ شخص؟ یہ تو سائنس سے زیادہ مابعدالطبیعات کا موضوع ہے۔ یہ کیا جہمیلا ہے یار؟
ستارے ہیں کہ دروازے کھلے ہیں آسماں کے
مجھے اب دربدر جانا ضروری ہوگیا ہے
بلیک ہولز؟ اینٹری پوائنٹ ٹو دی ادر ڈائمنشن؟ نہیں یار ستارے لکھا ہے۔ تو بلیک ہول سے پہلے کیا تھا؟
جدھر سے آرہا ہے وقت کا خاموش دھارا
رضا میرا ادھر جانا ضروری ہوگیا ہے
نہیں یہ محض اتفاق نہیں۔ ایک ہی غزل میں دو ایسے اشعار؟ یہ شخص جانتا ہے کہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہ بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ نہیں ہے۔ یہ آگہی کا سفر ہے۔ اس کی آنکھ کو کوئی ایسی جھری مل گئی ہے جس سے یہ ممنوعہ علاقے میں جھانک رہا ہے۔
پھسل گئیں مری آنکہیں پھر آسماں کی طرف
میں اس کے بعد وہیں پر خرام کرنے لگا
اس کے لیے آسمان سر تنی ایک چادر نہیں جس میں ستارے ٹنگے ہیں۔ اس کے بزدیک آسماں ایک لامحدود حقیقت ہے جہاں سے جہان ِ دگر کی راہ داریاں گزرتی ہیں۔ اس کے پاوٗں تو زمین پر ہیں، مگر اس کا سفر اس دوسرے جہان کا ہے، جہاں سے خبریں لا لاکر یہ لوگوں کو سنا رہا ہے اور جب وہ نہیں سمجھتے تو یہ جھلاتا۔ الجھتا ہے۔ چیختا ہے۔ سب سے لڑتا ہے۔ اس لیے کہ یہ سب سے محبت کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ سب اس کے جہان ِ حیرت کے سفر میں اس کے ساتھ شریک ہوں۔ جہان ِ حیرت؟ حیرت؟ کیا یہ کلید ہے اس کی شاعری کا قفل کھولنے کی؟ چلو پھر چلو کتاب کے پہلے صفحے پر۔ حیرت۔۔۔۔۔
مرے لیے گُل ِ حیرت کھلا ہوا رکھنا
رضا ابھی مرے پاس آنکھ کا پرندہ ہے
منظر سے میں کہتا ہوں کہ حیرت مجھے دے دے
منظر مجھے کہتا ہے نظر کاٹ کے دے دوں
میری جراٗت کہ میں حیرت کی کہانی لکھوں
میں الف کی ابھی تفسیر نہیں کرسکتا
اب تک رکا ہوا اسی حیرت کدے میں ہے
لگتا ہے پھر خمار میں آیا نہیں ہے تُو
نئی حیرت تھی اس لیے سب لوگ
رک گئے، اور میں بے خطر گھوما
ہاں ہاں ہاں۔ حیرت۔ اور نئی حیرت۔ سائنس کی تازہ تر دریافتوں سے وا ہونے والی دنیا کی حیرت۔ ایک ایسا طلسم کدہ جس میں ایک بار جھانکنے کے بعد اصل کے سامنے آئینہ بے حیثیت ٹھہرتا ہے۔ یا حیرت۔
کوئی منظر خرید سکتا ہے
مجھ کو حیرت کے ایک دھیلے میں
یہ ہے مسئلہ اس پاگل کا؟ یہ اگہی سے دامن چاک کرکے گھومتا ہے؟ ایسی چاک دامانی کی بخیہ گری جنوں کے بس میں نہیں۔ اس کا کوئی علاج نہیں۔ آگہی کی طلب مزید کھوج ہے۔ اور یہ لگا رہتا ہے اسی کھوج میں۔ کیا واقعی؟ اور دیکہیں؟
شاید اسے کہیں کوئی حیرت دبوچ لے
حدّ ِ نظر سے آگے اچھالی ہوئی ہے آنکھ
حیرت مجھے لگتی ہے کوئی آٹھویں رنگت
یہ رنگ مری آنکھ میں بھرنے کے لیے ہے
گویا یہ سب اتفاق نہیں؟ یہ شخص اٹھویں رنگ کو منظر میں بھرنے اور آٹھواں سُر راگ میں لگانے کی دھن میں تصویر بناتا اور گیت سناتا ہے؟
حیرت کسی صورت مجھے چلنے نہیں دیتی
اور اگلا نظارا مجھے رکنے نہیں دیتا
یائے ہائے۔ کیسی کشکمش لکھی ہے اس شخص نے۔ ایک طرف حاضر منظر کی گہرائی ہے جو مزید رکنے کا تقاضا کررہی ہے، اور دوسری جانب آگہی کا یہ اعلان ہے کہ آگے چل۔ آگے اور بھی بہت کچھ ہے۔ کتنی مختلف ہے یہ شاعری معلوم کے بیان سے؟ نامعلوم کی پراسراریت، رمزیت، اور ’’امکانیت’’ ہی اور ہے۔
اکیسویں صدی جس میں ہم سانس لے رہے ہیں، دو اعتبار سے انسانی علم کے مروّجہ قوانین اور ٓاصولوں کی دھجیّاں بکھیر رہی ہے۔ ایک کوانٹم فزکس میں ہونے والی پیش رفت، اور ایک پیراسائکولوجی کا پھیلتا ہوا منظرنامہ۔ یہ دوعلوم اس معلوم دنیا کو ایک یکسر نئی شکل دے رہے ہیں، مگر اس کے چھینٹے اردو غزل میں؟
حیرت ہے رقص میں تجہے کیا دیکھنے کے بعد
اے ذرّے کی دہمال، تجہے کیا مثال دوں؟
یہ وہ ذرّہ نہیں جو اس خاک کا ہوتا ہے جو عاشق کوچہٗ ِ محبوب میں اڑاتا پھرتا ہے۔ یہ اس ’’الیکٹرون’’ کا رقص ہے جو ساری وجودی حقیقتوں کی بنیاد میں جلوہ فرما ہے۔ آنکہیں کھلنے لگی ہیں اب۔ اشعار مزا بھی خوب دے رہے ہیں۔
مری نگاہ تو حیرت سے بات کرتی ہے
سو اس کو روکنا میری زباں پکڑنا ہے
میں ایک شرط پہ آوٗں گا بزم ِ یاراں میں
مرے لیے کسی حیرت کا اہتمام کرو
سن لو یارو۔ سمجھ لو کہ رفیع کیوں تمہاری غزلوں کی تعریفوں کے پل نہیں باندھتا؟ اسے حیرت مہیّا کرو۔ پھر دیکھو یہ کیسے ایک چھوٹے بچے کی طرح ہمکتا اور خوش ہوتا ہے اور تمہیں گلے لگاتا ہے۔
یہ جو ہر سمت میں لکھی ہوئی اک نظم سی ہے
اس کے حیرت بھرے اشعار سے باندھا ہوا ہوں
ایک منظر ہے کہ اوجھل ہے مری آنکھوں سے
ایک حیرت ہے کہ میں جس سے لگا پھرتا ہوں
بجھا ہوا کوئی منظر مجھے قبول نہیں
میں اپنی آنکھ سے حیرت نکال پھینکوں گا
عطا ہوا ہے مجھے حیرتوں کا شمس ِ منیر
مری نگاہ نئے منظروں سے روشن ہے
اسے تو کوئی بھی حیرت لگا کے لے جائے
میں اپنی آنکھ کی بے رہ روی سے ڈرتا ہوں
کیسی بے راہ روی ہے جو درست راستے پر لگا دیتی ہے؟ کیسا جہان ِ حیرت وا ہوتا جا رہا ہے۔ سبحان اللہ۔
گم کدے میں حیرتوں کا سلسلہ رکھا گیا
مجھ کو تنہا چھوڑ کر بھی رابطہ رکھا گیا
حیرتی ہوں سو مری کون ضمانت دے گا؟
کوئی منظر بھی مجھے وجد میں لاسکتا ہے
جو شک کا ذائقہ آیا ہے آب ِ زمزم میں
تو کیا یقین کا زمزم نتھارنا پڑے گا؟
ساری حیرت تو مری آنکھ اٹھا لائی ہے
میرے دیکہے ہوئے کو یار کہاں دیکھتے ہیں؟
یہ ہے گلہ۔ یہ ہے مسئلہ۔ حیرت یا اخی حیرت۔
نازل ہوا ہے آنکھ پہ منظر کے سامنے
حیرت نیا فرشتہ ہے اس دین کے لیے
کیا سمجھے؟ نشانیاں۔ عقل والوں کے لیے۔ عقل والوں کا پہلا ردِّ عمل؟ حیرت۔
All knowledge starts with curiosity!
Imagination is more important than knowldge. (Einstein)
کن لوگوں کا ہمسفر ہے یہ شخص؟ دیکھو۔ سمجھو۔
حصار پر گلِ خوبی کے گرد میرا ہے
جسے میں دیدہٗ ِ حیران سے بناتا ہوں
تو اس حیرت کے سفر نے کیا دیا رفیع رضا کو؟ ایسے نئے اشعار کہ اب آپ دیدہٗ ِ حیرت وا کرکے پڑہیں تو لطف آجائے۔ چلیں میرے ساتھ اس جہان ِ حیرت کے سفر پر۔
اب کسی شعر کی وضاحت میں نہیں کروں گا۔ ہر شعر پر ذرا رکیں اور سوچیں۔ مابعدالطبیعاتی تناظر کو ذہن میں رکہیں اور میرے ساتھ ورطہ ٗ ِ حیرت میں پڑ جائیں اور رفیع رضا کے لیے دعا کریں۔ اس کے سوالات پر غور کریں کہ سوچنے والے ذہن کا کام محض جوابات سے لطف لینا نہیں، سوال اٹھانا بھی ہے۔ بلکہ سوال اٹھانا ہی ہے۔ یہ بھی دیکھئے گا کہ رفیع مضامین کو کیسے برتتا ہے۔ کیسے ایک مکمل تعقل کے موضوع میں کیفیت پیدا کرتا ہے۔ کیسے اس کا لفظیاتی نظام موضوع سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ تمام باتیں الگ الگ مضمون کی متقاضی ہیں، مگر سر ِ دست صرف ان خوبیوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا مقصود ہے۔
یہ پھڑپھڑاتا ہوا شعلہ کھول دے کوئی
بندھا چراغ سے کیوں آنکھ کا پرندہ ہے؟
کہیں کوئی خلا میرے نہ ہونے سے بھی ہوگا
جسے اب مجھ سے بھر جانا ضروری ہوگیا ہے
یہ بتا سکتا ہوں وہ آگ مقدّس ہے مگر
اپنے جلنے کی میں تشہیر نہیں کرسکتا
آسماں سے بھی یقیں اٹھتا چلا جاتا ہے
ایسا ہونا تو نہیں چاہیئے، پر ایسا ہے
ہر طرف آسمان کھلتا ہے
میں کہیں سے فرار نہ ہو جاوٗں
میرے ذرّے کو چمکنا ہے اسی نور کے ساتھ
وہ مری خاک سے بچ کر نہیں جانے والا
میں اگر زندہ رہوں گا تو چلا جاوٗں گا
میں یہاں سے کبھی مر کر نہیں جانے والا
نئے ہیں لوگ، سوالات بھی نئے لائے
اٹھا یہاں سے پرانا جواب اور نکل
تجہے پتہ ہے بگولے کی آنکھ میں تو ہے
سو اپنے گرد مرا انہماک دیکھنے آ
میں پکارا، کوئی نہیں بولا
پھر مرا خامشی سے دل نہ بھرا
کہیں مثال نہیں ہے کہیں پرندوں میں
کسی الاوٗ کے اتنا قریب جانے کی
میں مر رہا ہوں کسی اور زندگی کے لیے
نہیں ہے کوئی ضرورت مجھے بچانے کی
بچے کچہے یہی منظرسمیٹ آنکھوں میں
کوئی ترے لیے کتنے نشان چھوڑے گا؟
کھلا یہ راز کہ وحدت میں کیا بڑائی ہے
میں جب حقیر ہوا جمگھٹوں کے ہونے سے
میں تجھ کو دیکھ چکا اور تجھ کو جان چکا
میں تجھ کو مان چکا آئینے کے ہونے سے
وہ روشنی مری بینائی لے گئی پہلے
پھر اس کے بعد مرا دیکھنا مثال ہوا
میں اس کے سامنے بیٹھا کہ میں جھکوں لیکن
وہ شولہ رُو تو مرا احترام کرنے لگا
تُو کائنات تو کیا، میرے دل پہ بات نہ کر
ترے لیے یہ کہانی ذرا زیادہ ہے
پہلے دیوار کی صورت تھا یہ آئینہ مجھے
اب میں اِس پار سے اُس پار بھی تکنے لگا ہوں
میں اپنی خاک اڑاتا ہوں آسمان تلک
وگرنہ کون سرے سے سرا ملاتا ہے؟
ایسا لگتا ہے کوئی کھول نہیں پایا مجھے
ایسا لگتا ہے بڑے پیار سے باندھا ہوا ہوں
میں پار دیکھ رہا ہوں بڑی سہولت سے
اور آئینے کو یہاں سے ہٹا رہا ہے تُو؟
روک لے ایک گزرتے ہوئے لمحے کو یہیں
شے کوئی جیسے پڑی ہے وہ پڑی رہنے دے
یہ کیسا تعلق ہے سمجھ میں نہیں آتا
کیوں بیچ میں بے انت خلا چھوڑنا پڑ جائے
کہ ایک روز کھُلا رہ گیا تھا آئینہ
اگر گواہ بنوں تو بیان دے دوں کیا؟
میں سامنے سے اٹھا اور لو لرزنے لگی
چراغ جیسے کوئی بات کرنے والا تھا
کہاں یہ خاک کے تودے تلے دبا ہوا جسم
کہاں میں سیر ِ سماوات کرنے والا تھا
دکھا رہے ہو مجھے آسمان کا رستہ
مری اڑان کا آغاز کر رہے ہومیاں
وہ آگیا ہے زیادہ قریب آنکھوں کے
اسی لیے تو ذرا بھی نظر نہیں آتا
جا اپنے آسمان کو خود ہی اٹھا کے پھر
میں تو ہٹا رہا ہوں سہارا دماغ کا
اک سرنگ آنکھ میں لگتی ہوئی پکڑی بروقت
سارے قیدی تہے مری آنکھ سے جانے والے
مرا بدن مجھے اک قید خانہ لگتا ہے
یہاں خبرنہیں کتنا زمانہ لگتا ہے
یہ کیا کیا مجھے اڑنا سکھا دیا تُو نے
اب آسمان بھی مجھ کو پرانا لگتا ہے
لوگ روئے بچھڑنے والوں پر
اور ہم خود کو ڈھونڈ کر روئے
اڑان فرض ہوئی اب مجھے اجازت دو
میں بازووٗں پہ نئے پر نکال بیٹھا ہوں
پر، پرندہ، چراغ، شعلہ، آسمان، اور آنکھ اس جہان ِ حیرت کے سفر میں رفیع کا رخت ِ سفر ہے۔ یہ اس کے دوسری اقلیم میں داخل ہونے کے پاس ورڈ ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ اپنی شاعری کی تفہیم کرنے پر دوسروں کو مجبور نہیں کرسکتا۔ مگر وہ جانتا ہے یہ وہ ریگ زار ہے جس پر ’’تیاری’’ کے بغیر قدم دھرا تو پاوٗں جل جائیں گے۔ اسی لیے تو وہ کہتا ہے۔۔۔۔
میں نے سب سے کہا رکو، ٹھہرو
دیکھتا ہوں میں جاکے آتش کو
وہ اس پار کا منظر دیکھتا ہے اور اس پار کے لوگوں کو خبر کرتا ہے، مگر وہ لوگ نہیں سمجھتے۔ شاید سمجہیں گے بھی نہیں۔ مگر وہ اس بات سے لاپروا اپنے سفر میں مگن ہے۔ یہ اس کی اپنی دنیا ہے جس میں وہ بلا خوف و خطر گھومتا ہے، منظروں سے حیرت سمیٹتا ہے، لفظوں میں بنتا ہے، اور آگے چل پڑتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ انت سے آگے ایک سفر ہے۔۔۔۔۔
ایسا نہیں کہ اس کے یہاں کمزوریاں نہیں ہیں۔ بہت ہیں۔ مگر وہ کمزوریاں اس بزدل کی نہیں جو اپنی کمزوریوں پر کھوکھلے لفظوں کا ملمع چڑھاتا رہنا ہے۔ یہ کمزوریاں اس جراٗت مند شخص کی ہیں جو اپنے سفر کے دوران ملنےوالی صعوبتوں کو بھی انعام تصور کرتا ہے کیونکہ اس سے اسے حیرت کا خزانہ ملتا ہے۔ فنی کمزوریاں بھی ہیں، مگر وہ کس کے یہاں نہیں ہوتیں؟ اردو شاعری کو جو رفیع رضا سے مل رہا ہے وہ ایک نیا راستہ ہے جس قدم رکھنے سے پہلے وہ رخت ِ سفر بھی مہیّا کرنا ہوگا جس کے ساتھ نئی منزلوں کی جانب پیش قدمی کی جاسکتی ہے۔ رفیع رضا بڑا شاعر نہیں۔ رفیع رضا عظیم شاعر بھی نہیں۔ مگر رفیع رضا ایک بہت اہم شاعر ہے، جو اگر اپنا سفر جاری رکہے تو ایک دن ان منزلوں تک رسائی پاسکتا ہے جو کم کم لوگوں کا نصیب ہوتی ہیں۔ یہ امکان خود میں ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور میں اس کامیابی پر رفیع کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
نظر انداز میں ہُوا لیکن
کس قدر ظلم حرف و فن سے ہوا
یہ ظلم رفیع کے نزدیک اسے نظرانداز کرنے کا ظلم نہیں، بلکہ ان لوگوں کا راستہ روکنا کا ظلم ہے جو نئی منزلوں کی دریافت میں رفیع کے ہم سفر ہوسکتے ہیں۔
ابھی بہت سی باتیں رفیع کا آئندہ سفر طے کرے گا۔ مجھے امید ہے کہ سرِ دست رفیع پر ’’صوفی شاعر’’، ’’سائنسی شاعر’’ ’’با بعدالجدیدیت کا شاعر’’ وغیرہ قسم کے لیبل نہ لگائے جائیں اور اسے اپنا سفر اسی انہماک سے جاری رکھنے ریا جائے، جو اس کے لیے بڑی کامیابوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
اس کی شاعری کا ایک حصہ معاشرتی برائیوں کی عکاسی اور منافقت کے خلاف آواز اٹھانے سے پیدا ہوئی ہے۔ اس میں وہ اکثر نعرے بازی کا شکار نظر آتا ہے مگر صاحب۔ احتجاج میں نعرہ تو لگتا ہی ہے، سو یہ بھی ٹھیک ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس گوشے پر کسی نہ کسی دوست نے ضرور گفتگو کی ہوگی چونکہ میں نے ابھی باقی مضامین نہیں پڑہے اس لیے یقین سے نہیں کہہ سکتا، مگر ایک مختصر تحریر میں ایک اچہے شاعر کا مکمل احاطہ کرنا ناممکن ہے، اس لیے اسے کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔ چونکہ یہ موقع اپنی علمیت جھاڑنے کا نہیں بلکہ ایک خوبصورت شاعر کےکام کو سراہنے کا ہے اس لیے میں نے زیادہ توجہ اس کی شاعری سے اچہے اشعار آپ تک پہنچانے پر دی ہے۔ مگر یہ صرف انتخاب ہے۔ ستارہ لکیر چھوڑ گیا میں اور بہت مال ہے۔
اس مضمون کا مقصد رفیع کی شاعری کے اس گوشے کا قفل کھولنے کی کوشش یا کم ازکم اس کی کنجی مہیّا کرنے کی سعی تھی۔ امید ہے کہ کچھ نہ سہی مگر یہ مضمون رفیع کی شاعری کے اس بڑے حصے کی طرف احباب کی توجّہ ضرور مبذول کرائے گا جو اس کی شاعری کی اصل ہے اور جہاں سے وہ راستہ نکلتا ہے جو اس کا اصل راستہ ہے۔ اس کی منزل کا راستہ۔ جہان ِ حیرت سے گزرتا ہوا راستہ جہان ِ نامعلوم کی طرف جاتا ہوا راستہ۔
آخر میں رفیع کا وہ مزاج اور رویّہ جو لوگوں کو گراں گزرتا ہے تو صاحبو۔ شاعری جب شاعر کے وجود سے سفر اختیار کرلیتی ہے تو اپنا ایک علیحٰدہ وجود رکھتی ہے۔ اسے اس کی شخصیت سے الگ پرکھو اور اسے اس کا جائز حق دو۔ رہی شخصیت کی بات تو یہ پڑھ لو۔۔
جیسا بھی ہوں سینے سے لگا لو مجھے یارو
اب وقت ذرا کم ہی سدھرنے کے لیے ہے
عرفان ستار
ٹورنتو
۲۵ دسمبر
۲۰۱۰۔
………………………………………………………………………..
…………………………………………………………………………
NASIR ALI
ناصر علی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستارہ لکیر چھوڑ گیا۔
رفیع رضاسے میری پہلی ملاقات رحمانپورہ لاہور پر اسی کی دہائی کے وسط میں ہوئی۔صحت مند چہرہ ،رنگ سرخ لیکن سیاہی مائل،شفاف شفاف آنکہیں لیے یہ نوجوان مجھے بہت اچھا لگا ۔چونکہ ہم دونوں تحصیل چنیوٹ سے تہے اس لیے ایک دوسرے سے قریب ہو جانا عین فطری تھا ۔ میں کیریم بہت اچھا کھیلتا تھا۔ اس نے میرے ساتھ میچ کھیلا۔ ہار جانے پر افسوس کی بجائے اس نے اگلا میچ اور جذبے سے کھیلا۔ کیریم کا بہت اچھا کھلاڑی نہ ہونے کی وجہ سے رفیع رضادوبارہ ہار گیا لیکن بعد ازاںاسے جب بھی موقع ملتا مجھے ہرانے کی کوشش کرتا ۔ مجھے اس کا یہ انداز بہت پسند آیا کہ یہ شخص مایوس ہونے کی بجائے کوشش پر یقین رکھتا ہے۔اب جب میں اسے مختلف مواقع پرکسی نہ کسی معاملے میں الجھا ہوا دیکھتا ہوںتو مجھے ہار نہ ماننے والا نوجوان رفیع رضا یاد آجاتا ہے ۔
گاہے بگاہے ہم ایک دوسرے ملتے رہے ۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ معاملہ کیسے کھلا کہ ہم دونوں شعر بھی کہتے ہیں لیکن مجھے اتنا یاد ہے کہ رفیع رضانہ صرف اچہے اچہے شعر سناتا تھا بلکہ عروض کے علاوہ دوسرے ٹیکنیکل مسائل پربھی توجہ مرکوز رکھتا تھا۔ملاقاتوں کا یہ سلسلہ تقریباً چار سال تک قائم رہا اور اس کے بعد اچانک رفیع رضا سے ملاقات ختم ہوگئی کیونکہ اس نے لاہور چھوڑ دیا۔ پھر عرصہ دراز کے بعد میرا یہ دوست فیس بک پر کچھ یوں نمودار ہوا کہ بعد ازاں مجھے بھی اپنے ساتھ کھینچ لایا۔سو جب کچھ دن پہلے جب محترم فرحت عباس شاہ صاحب نے حکم دیا کہ رفیع رضا کی شاعری پر مضمون لکھو تو مجھے نہ صرف مسرت بلکہ ذمہ داری کا احساس بھی ہوا کہ معاملہ ذاتی دوست کا ہے ۔
رفیع کی غزل پر بات کرنے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ شاعری کی بابت اپنا نقطہ ءنظر بیان کر دوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ شعر کا لفظ شعور سے مشتق ہے یعنی شعور کا اظہار ۔ لیکن شعر میں شعور کا اظہار ایک خاص سلیقہ بھری بنت سے کیا جاتا ہے ۔ میرے ذاتی خیال میں شعر شعور یعنی بات کا بیان ہے ۔ کچھ دوست شاعری کو صرف تخیل کا اظہارقرار دے کر محدود مضامین کی قید میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ جبکہ کافی دوست شعر کو شعور اور تخیل کے ملاپ سے تشکیل پانے والا فن سمجھتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ وہ دوست جو شعر کو صرف تخیل کے اظہار قرار دیتے ہوں اس قضیے سے اختلاف کریں۔ ان دوستوں کا اختلاف سر آنکھوں پر کہ اختلاف ہی زندگی کا حسن ہے۔میں ذاتی طور پر پہلے اور تیسرے بیان سے متفق پا تا ہوں یعنی شعور کا شعری فنی حدود کے اندر رہتے ہوئے با سلیقہ بیان بھی میرے نزدیک شاعری قرار پاتا ہے اور شعور اور تخیل کے ملاپ سے تشکیل پاکربات کا فنی حدود کے اندر رہتے ہوئے با سلیقہ بیان بھی میرے نزدیک شاعری قرار پاتا ہے۔
میرے نظریہ شعر کے ساتھ ساتھ اردو غزل کے سفر پر چند معروضات پیش کرنا ضروری ہے ۔ یہ کہ اردو غزل کلاسیکی شعرا سے سفر کرتی ہوئی جب مولانا حالی تک پہنچی تو حالی نے اسے اسے طے شدہ استعارات و نظام علامات سے نکال کر نئے استعاراتی نظام کی جستجو پر لگا دیا ۔ بعد ازاں غزل اقبال سے ہوتی ہوئی عہدِ موجود تک پہنچی۔اس سفر کے دوران غزل بہت سے لسانی تجربات سے گزری ۔ مضامین کی سطح پر بھی بہت سے اضافے ہوئے۔ایسا بھی ہوا کہ نظم نے 1960کی دہائی میںصنف ِ غزل کی موت کا اعلان بھی کیا۔لسانی تشکیلات کے نعرے کے ساتھ نظم گو حضرات ایک تحریک بنانے میں بھی کامیاب ہوئے۔ لیکن غزل اتنی سخت جان نکلی کہ ہر مشکل سے نبرد آزماءہوتی ہوئی رفیع رضا جیسے صاحب ِ کمال شاعرتک آپہنچی ہے۔ اس سفر کے دوران غزل مختلف اسالیب سے گزری جن میں اہم طنزیہ و مزاحیہ اسلوب مثلاً اکبر الہ آبادی،تند خوئی مثلاً یگانہ ، اعلی اقدار پر مشتمل اسلوب مثلاً علامہ اقبال،نیم رومانی اسلوب مثلاً فراق،بعد ازاں لسانی تجربات کا ایک سلسلہ بھی چلا۔غز ل میں داستانی اسلو ب کو ثروت حسین جیسے شعرا نے رواج دیا اور کچھ شعرا نے تصوف کے مضامین کی مدد سے ایک نیا اسلوب دریافت کرنے کی کوشش کی جو میرے ذاتی خیال میں ابھی پوری طرح تشکیل نہیں ہو پایا۔اسلوب کے حوالے سے میں رفیع رضا کی غزل پر آخر میںبات کروں گا۔
رفیع رضا ایسا شاعر ہے جو غیر ضروری دباوکے تجربات سے گزرا۔اس دباو کی مختلف اشکال تہیں اور ہیں۔معاشی دباو کے ساتھ ساتھ سیاسی بد حالی اوربعد ازاں ہجرت کا تجربہ ۔ ہجرت کے نتیجے میں بیرون ملک تہذیبی اختلافات نے اور ہی قسم کے دباو جنم دئیے جو صرف ہجرت کرنے والا شخص ہی محسوس کر سکتا ہے۔یوں رفیع رضا جیسا شاعر ان تمام تجربات اور دباو سے گزرتا اور اظہار کا وسیلہ بصورت غزل لیے ہمارے سامنے موجود ہے۔
ستارہ لکیر چھوڑ گیا میں ایک سو پچاس غزلیں موجود ہیں جبکہ اس سے کہیں زیادہ غزلیں کتاب کی ضخامت کے باعث التوا میں ڈال دی گئی ہیں۔میں اس کتاب کی اشاعت کے سفر میں تقریباً ہر مرحلے پر موجود رہا ہوں۔اس دوران میں نے اس کتاب کا ایک ایک شعرکم از کم دو مرتبہ ضرور پڑھا۔کہیں پہلے بھی میں یہ لکھ چکا ہوں کہ رفیع رضا کی غزل نہ صرف تروتازہ لگتی ہے بلکہ یہ غزل کسی استادکی تھپکی کی جتنی پر اثراور نوجوان چہرے جیسی پر جمال ہے ۔کہیں یہ انسانی نفسیاتی تاریخ رقم کرتا نظر ٓتا ہے تو کہیںعلم الکلام کی ساری کتابوں کو شعری ٹھوکر مارتاہوا آگے بڑھ جاتا ہے۔ کہیں اس کی غزل انوکہے اظہار سے گزرتی ہے تو کہیں روایت کے ملبے میں مدفون لاشوں پر فاتحہ خوانی اہتمام ہوتا ہے۔ رفیع رضاکی غزل نہ صر ف دل میں کھب جاتی ہے بلکہ اس کی غزل میں وقت بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔رفیع رضا کی غزل میں غزل اور مکالمے کا ملاپ بہت دلچسپ ہے اوراس ملاپ سے یہ بھی سیکھا جا سکتا ہے کہ مصرعے کو اپنی ساخت میں سیدھا کیسے کیا جائے۔ ہر لفظ اتنا موزوں بیٹھتا ہے جیسے غزل نہ ہو گفتگو کی جا رہی ہو۔رفیع رضاکی غزل میں موجود مضامین بوسیدگی کی بو سے بالکل پاک ہوتے ہیں وہ بالکل جگالی نہیں کرتابلکہ اپنے ہونے،کرنے اور بیتی واردات سے غزل کشید کرتا ہے ۔میں کہا کرتا ہوں کہ رفیع رضا بستر پر لیٹ کر ستاروں پر کمند ڈالنے والا شاعر نہیں بلکہ اس کا عمل ہی اس کی شاعری ہے۔یعنی اس کی غزل میں وقت بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔
میرے خیال میں مشتمل بر ردیف غزل کی عمارت قافیے پر نہیں ردیف کے مناسب ترین استعمال پر کھڑی ہوتی ہے ۔ حالانکہ کہ زیادہ تر شعرا دوران ِ نزول ِ غزل اور بعد ازاں غزل پر نظر ڈالتے وقت قافیے کی طرف توجہ زیادہ مبذول رکھتے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ رفیع قافیہ بندی کے ساتھ ساتھ ردیف پر گہری نظر رکھتا ہے ۔ رفیع رضا کی غزل نہ صرف طے شدہ معیارات پر پوری اتری ہے بلکہ مشکل ترین ردیف کو بھی اتنی سہولت اور ہنرمندی سے استعمال کرتا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے۔دور جانے کی ضرورت نہیںمثال کے طور پر اس کتاب کی پہلی پانچ غزلوںکی ردیفیں حاضر ہیں۔میں مجھے مل، پرندہ ہے،کاٹ کے دے دوں،سے گرے گا،لگی ہو تم۔ علاوہ ازیں رفیع رضا کی بہت بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ صرف اپنی زمینوں پر کاشت کرتا ہے ۔ اس کے ہاں نئی نئی زمینوں کی دریافت اور ان زمینوں میں کہی گئی غزلیں اپنی مثال آپ ہیں ۔کسی شاعر کی تخلیقی صلاحیت کو جانچنا ہو تو اس کی تخلیق کردہ زمینوں سے اس کے قد کاٹھ کا با آسانی پتا چلایا جا سکتا ہے ۔ رفیع اس معیار پر نہ صرف پورا اترتا ہے بلکہ اس حوالے سے بہت اہم شاعر قرار پاتا ہے۔ آ ئیے اس کی دریافت کردہ زمینوں میں کچھ زمینوں سے لطف اندوز ہوں ۔
غزل کو یاروں نے حجرہ بنا لیا ہوا ہے
ایک مجذوب اداسی میرے اندر گم ہے
بس آنکھ لایا ہوں اور وہ بھی تر نہیں لایا
گزرتے جا رہے ہیں دن، گزارا ہو رہا ہے۔
کچھ نہ کچھ ہونے کا یہ ڈر نہیں جانے والا۔
چاک پر ایسے میرا سر گھوما۔
اے وقت کے امام کہیں میں نہ چل بسوں۔
دن کے اجلے سفید تن سے ہوا۔
رفیع رضا کے ہاں اتنی زیادہ نئی زمینیں ہیں کہ مجھے مشکل ہو رہی ہے کہ کس کس کا ذکر کروں۔ اردو غزل احسان فرموش نہیں ۔ جس شاعر نے اردو غزل کے ساتھ پوری طرح جڑ کر اس کی خدمت کی ،غزل نے اسے یاد رکھا ۔ سواس حوالے سے رفیع رضا کا نام اردو غزل کی تاریخ میں ہمیشہ موجود رہے گا کہ اس نے نئی نئی زمینوں کی دریافت میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔
رفیع رضا کا ایک اور اہم کام یہ ہے کہ اس نے روزمرہ زندگی کے مکالماتی انداز کو غزل کی زبان بنا دیا ہے ۔ اس کا یہ مکالماتی اسلوب اس دور کی ضرورت بھی ہے۔ یہ وہ دور ہے جس میں فارسی کو سکولوں سے تقریباً خارج کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے مستعمل زبان کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان کتابی اور شعری اردو سمجھنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے رفیع رضا کا مکالماتی انداز اور روزمرہ کی زبان میں معیاری اور بہترین غزل بہت اہم کام ہے ۔ بہت سے شعرا محدود اور مخصوص لفظیات میں مبتلا ہونے کے باعث عام مستعمل زبان سے شعر کشید کرنے سے قا صر رہتے ہیں۔ شعرا کی اس وجہ سے نوجوان نسل شعر سے دور ہوتی جا رہی ہے ۔ ایسے میں رفیع رضاکی غزل اردو زبان کے لیے تحفہ ہے۔
اردو شاعری میں اضافتوں کے استعمال پر بہت سی گفتگو کی جاسکتی ہے۔ اضافت اظہار کی سہولت دیتی ہے لیکن ساتھ ساتھ زبان کو بوجھل بھی بنا دیتی ہے ۔ بہت سے شعرا تو ایک سیدھا مصرعہ نہیں کہہ سکتے۔بعض اوقات تو اردو کی بجائے جناتی زبان بن جاتی ہے۔شعر کے ایک مصرعے میں دو اضافت فی مصرعہ کا حساب لگائیں تو پانچ اشعار کی غزل میں بیس عدد اضافیتں موجود ہوتی ہیں ۔ رفیع رضااس معاملے میں بہت سلجھا ہوا رویہ رکھتاہے۔ عام طور پر اس کی غزل اضافت سے پاک ہوتی ہے ۔اگر کہیں ضروری ہو تو اضافت اتنی سہل ہو کر آتی ہے کہ ذرا بھی بوجھل محسوس نہیں ہوتی۔اس کے ہاں آسان لیکن تازہ اضافت بھی موجود ہے لیکن مقدار میں بہت کم کیونکہ یہ اس طرف توجہ ہی نہیں دیتا۔
جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ رفیع رضااردگرد کی زندگی اور انسانی تعلقات کو پوری طرح محسوس کرتا ہے اسی احساس کے تحت وہ اردو شاعری میں روائیت کے اندر رہتے ہوئے تعلقات میں بہتری کی تلاش میں رہتا ہے۔اس تگ دو نے اس کے شعری اسلوب کو تخلیق کیا ہے۔ رفیع رضا مسلمات پر اعتبار کرتا ہے لیکن کہیں کہیں انحراف کے رستے بھی نکال لیتا ہے ۔ میرے خیال میں اس کے اسلوب کے اہم پہلو کچھ یوں ہیں ۔(1) رفیع رضا نے اردو غزل میں مستعمل اسلوب سے واضح انحراف کرتے ہوئے غزل کو عام فہم بنا دیا ہے ۔(2)رفیع رضا نے نئی شعری علامتوں کو تشکیل دنے کی کوشش کی ہے جو کہ قابل تحسین ہے۔(3)لسانی سطح پر اردو غزل مشکل پسندی کا شکار تھی۔رفیع رضا نے اسے سیدہے اور آسان رستے پر ڈالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔(4)موضوعات کی سطح پر بھی اردو غزل محدودات کا شکار تھی۔ رفیع رضانے غزل کو محدود مضامین سے نکال کر بہت سے نئے امکانات کا در کھول دیا ہے۔(5) رفیع رضا نے کسی ایک موضوع سے وابستہ نہ رہ کر تمام زندگی کو شعر کا موضوع بنا کر ثابت کیا ہے کہ غزل کم مایہ اور کمزور وسیلہ اظہار نہ ہے ۔اگر صلاحیت ہو تو کوئی بھی بات سلیقے سے غزل کا حصہ بنائی جا سکتی ہے آخر میں کہنا چاہوں گا کہ ہماری رسمی شاعری اس قدر بے ہوش ہو چکی ہے کہ اس کی کائنات ایک بند کمرے سے زیادہ وسیع نہیں ۔ یہ رفیع رضاجیسے شاعر کا کام ہے کہ اس نے اپنے اردگرد کواپنی ذات سے علیحدہ کرنے کی بجائے اسے بھی اپنی ذات کا حصہ سمجھا اور بے ہوش اور رسمی شاعری کو بند کمرے میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا اور اپنے لیے نئے میدان تلاش کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ (ناصر علی مورخہ
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیع رضا ، ایک منفرد اور بلند پرواز پرندہ
تبسم وڑا ئچ صآحب۔
بعض لوگ ادب کی تخلیق کے حوالے سے ادب برائے ادب کا پرچم اٹھائے پھرتے ہیں لیکن اگر ادب زندہ انسانوں کے حوالہ سے اور زندگی کے کینوس پر رنگ پکھیرنے کے پس منظر کے ساتھ صورتگری کا حامل ہے تو پھر ادب برائے زندگی اپنے اندر ایک بھرپور معنویت اور مقصدیت کا پیغامبر ہےِ ۔
آج مجھے جس تخلیق کار کے فن اور ادبی محاسن پر اپنی معروضات پیش کرنا ہیں وہ بھی ادب برائے زندگی کے روح پرور نظریہ پر یقین رکھتا ہے ۔ حال ھی میں اس منفرد لب و لہجہ کے مالک شاعر کا شعری مجموعہ ” ستارہ لکیر چھوڑ گیا ” کے نام سے منصّہء شہود پر آیا ہے ۔ اور شناوران سخنوری سے داد و تحسین سمیٹ رھا ہے ۔
گو کہ میں ابھی مذکورہ کتاب کا جم کے مطالعہ نہیں کر پایا لیکن جتنا بھی مطالعہ کیا ہے اس کے زریعہ مجھ پر ایک ایسا درِ حیرت وا ھوا ہے کہ جس نے مجھے ایک ایسے رفیع رضا سے متعارف کروایا ہے جس سے پہلے میں نا آشنا تھا ۔ مجھے اس کتاب کے حوالہ سے رفیع رضا پیک وقت ایک شاعر،ایک انقلابی، ایک محب وطن، انسان اور انسانیت سے ٹوٹ کر پیار کرنے والا، زندگی کے تمام رنگوں ، جذبوں اور جہتوں کا صورتگر ، معاشرتی ناہمواریوں کا شدید نقاد ، طبقاتی استحصال سے نفرت کی حد تک اختلاف رکھنے والا ، تاریخ کی تلخ ترین سچائیوں کا مرثیہ گو ، مذھب کے نام پر پروان چڑھنے والی بدترین منافقتوں کا نوحہ گر ہے ۔ جہاں پر اپنی شاعری کے آئینے میں رفیع رضا اقوام عالم کے حوالے سے بین الاقوامی و عالمی طاقتوں کے استعماری ھتھکنڈوں اور استحصال پرور رویّوں اور منفی پالیسیوں پر سراپا احتجاج نظ آتا ہے وہیں پر وہ امت مسلمہ کی باہمی کمزوریوں ، ریشہ دوانیوں اور استعماری قوتوں کی کاسہ لیسی سے بھی اپنے شدید غم و غصی کا توانا انداز میں اظہار کرتا ہے ۔ رفیع رضا بیک وقت انسانی اجتماعی المیوں کا خطیب بھی ہے اور آنے روشن صبحوں کا نقیب بھی ہے، دکھوں،صدموں اور محرومیوں کا بیانگر بھی ہے اور امیدوں، آروؤں اور تمنّاؤں کا پیغامبر بھی ۔ آئیے رفیع رضا سے ملتے ہیں ۔
رفیع رضا کی مزکورہ کتاب میں پرندہ اسکے نمائندہ لفظ کے طور پہ واضح نظر آتا ہے ۔ پرندہ جو کہ ایک معصوم اور بے ضرر مخلوق ہے ، امن و آشتی، صلح جوئی اور بلند نگاھی ، وسیع الظرفی اور کشادہ روئی کی علامت ہے ، بلند ہمتی، جہد مسلسل اور نا مساعد حالات کا دلیری اور مستقل مزاجی سے مقابلہ کرنے کا استعارہ ہے اور یہ لفظ آپ رفیع رضا کی شاعری میں بار بار دیکہیں گے لیکن ھر بار ایک نئے مفہوم اور الگ آھنگ کیساتھ یہ آپکو رفیع کی سوچ دریچوں کی مختلف جہتوں اور زاویوں سے متعارف کراتا ہے ۔ اور شاعر کی سوچ میں پھیلی ھوئی ہمہ گیر وسعتوں اور بیکراں عالم امکانات کا عکّاس ہے ۔ مثالیں اسلئے نہیں دونگا کہ تحریر طوالت کا شکار ھو جائیگی
رفیع محبتوں،چاھتوں اور امن عالم کا علمبردار ہے وہ اس عالمگیر اور آفاقی سچائی کا درس دیتے ھوئے بھی اپنی روایتی عقلیت پسندی اور منطق و استدلال کے جاندار روئیّے کا دامن ھاتھ سے نہیں چھوٹنے نہیں دیتا ۔
طاقت کی یہاں کوئی ضرورت ھی نہیں ہے
نفرت کا درندہ ہے محبّت سے گرے گا
ساتھ ھی وہ اپنے لوگوں میں پروان چڑھنے والی ایسی برائیوں ، معاشرتی خرابیوں اور اخلاقی کمزوریوں کے مہلک اور تباہ کن اثرات اور نتائج سے اپنے اھل معاشرہ کو خبردار بھی کرتے ہیں
دشمن بھی اسی طاق میں مدّت سے ہے لیکن
یہ گھر مرے اپنوں کی وساطت سے گرے گا
اسی کے ساتھ وہ تاریخی حقائق کے تلخ پہلوؤں سے بھی چشم پوشی کرنے پہ آمادہ نہیں اور بڑے واضح لہجہ میں اسکا اظہار بھی کرتا ہے
اس شہر کی بنیاد میں پہلے بھی لہو تھا
یہ شہر اسی اپنی نحوست سے گرے گا
رفیع رضا ایک صاحب شعور اور صائب الرّائے معاشرتی اکائی ھونے کے حوالے سے معاشرہ میں پائے جانے والی مذھبی روایات کو من و عن بغیر کسی تحقیق و تصدیق کے صرف اندھی عقیدت کے بل بوتے پر تسلیم کرنے کو تیار نیں بلکہ وہ تو بلند بانگ اعلان کرتے ہیں کہ
عجیب لوگ ہیں خود سوچنے سے عاری ہیں
روایتوں کو عقیدہ بنا لیا ھوا ہے
رفیع رضا عالمی امن کے نام نہاد علمبرداروں اور انسانیت کی بھلائی کے جھوٹے دعویداروں کی دوغلی اور منافقانہ بلکہ انسانیت کش جبر و جور پر مبنی ظالمانہ چالوں اور عالمی امن کو سبوتاژ کرنے والی دھشت گرد پالیسیوں کا انتہائی جرآت اور بیباکی سے پردہ چاک کرتے ہیں
کہتا ہے بستیوں کو بسانا ہے اسکا کام
ساری زمیں اجاڑ کے کہتا ہے خوش رھو
آئین لکھتا رھتا ہے امن و امان کا
قرطاس امن پھاڑ کے کہتا ہے خوش رھو
کہتا ہے اب فضا پہ فقط اسکا راج ہے
اور پنکھ سب کے جھاڑ کے کہتا ہے خوش رھو
کہتا ہے اس کے قد کے برابر کوئی نہیں
آئینے توڑ تاڑ کے کہتا ہے خوش رھو
حریّت فکر کا ھر مجاھد دشت کربلا میں حق و باطل کے مابین برپا ھونے والی عظیم ترین معرکہ آرائی میں لشکر الہی کے سپہ سالار حسین ابن علی سے اکتساب فیض اور انکی روایت عشق سے طاقت حاصل کئے بغیر نعرہ ء انالحق لگا ھی نہیں سکتا اور یہی حقیقت رفیع رضا کے ھاں بھی اظہر من الشمس ہے کہ وہ کربلا کی روشنی سے اپنی راہ کا تعیّن کرتے ہیں
منظر سب کاٹنے آتے ہیں مرے نام و نشاں کو
میں ایک دیئے کا انہیں سر کاٹ کے دے دوں
لیکن وہ اس روشن ترین استعارے کا استعمال کس جاندار اور خوبصورت انداز سے فنکارانہ چابکدستی اور مہارت سے کرتے ہیں کہ عقل داد دینے پر مجبور ھو جاتی ہے
ڈھونڈ ھی لیتی ہے نیزے کی طرح کوئی بات
مجھ سے چھپتا ھی نہیں میرا سر ایسا ہے
یہ کتنا بڑا ظلم اور تاریخی بد دیانتی ہے کہ آجتک مسلمانوں کی تاریخ کو اسلامی تاریخ بنا کر پیش کیا جاتا رھا ہے حالانکہ اسلام کی تاریخ شعب ابی طالب ، غار حرا و ثور ، بدر و حنین،خیبر و خندق و احد و کربلا سے روشن ہے جبکہ مسلمانوں کی تاریخ جابر و مستبد حکمرانوں ،حجاج بن یوسف جیسے درندوں اور قاضی ابو یوسف جیسے درباری مولویوں اور مفتیوں سے آلودہ ہے ،رفیع شیخ و شا ہ کے اسی ناباک گٹھ جوڑ پر بلیغ تبصرہ کرتے ہیں
ضرور یہ کوئی ناپاک سا تعلق ہے
جو شیخ و شاہ نے رشتہ بنا لیا ھوا ہے
درج زیل اشعار میں رفیع رضا کی اظہار بیان کے حوالے سے جدّت پسندی ، تنوّع اور انفرادیت بھر پور انداز سے قاری کو اپنی سحر بیانی میں گرفتار کرتی نظر آتی ہے اور یہی لب و لہجہ اسے اپنے ہمعصر شعرا ء سے ممتاز و منفرد ٹھراتی ہے
لوگ روئے بچھڑنے والوں پر
اور ہم خود کو ڈھونڈ کر روئے
واقعی اپنی زات کی تلاش ، اپنی حقیقت کی پہچان اور اپنی سچائی کا عرفان ھی سب سے مشکل مرحلہ ہے اور جب کوئی اس دشوار گزار گھاٹی کو عبور کرکے اپنی زات سے متعارف ھونے پر احساس زیاں کے سوا کچھ نہ پائے تو پھر آنسو
ھی حاصل زندگی قرار پاتے ہیں لیکن پھر یہی آنسو اسکی
کامیابیوںکا پیش خیمہ ٹہرتے ہیں
مجھے اکیلا حد وقت سے گزرنا ہے
میں اپنے ساتھ کوئی ہمسفر نہیں لایا
کیسے دوں آگ کو ، پانی کو ، ھواؤں کو شکست
اپنی مٹی کو تو تسخیر نہیں کر سکتا
آنسو ہے ، پرندہ ہے ، ستارہ ہے ، فلک ہے
کیا کچھ نہ تری آنکھ کی غفلت سے گرے گا
ہمارے نام سے مشہور ھو رہے ہیں میاں
کئی پہاڑ یہاں طور ھو رہے ہیں میاں
ہم نے اپنے مضمون کے آغاز میں اپنے اس ذھین شاعر کی حب الوطنی اور اپنی دھرتی سے بے پناہ پیار کا زکر کیا تھا ، یہ خوبصورت رویّہ اسکی شاعری میں پوری ادبی وجاھت سے رواں دواں لہو کی گردش اور حرارت کی طرح موجزن ہے ، دیکہیں اس شعر میں دکھ کے احسا س کیساتھ محبت کی چاشنی اور مٹھاس بھی چھلک رھی ہے
کاٹتے رھتے ہیں شاخوں کو مرے دیس کے لوگ
چھاؤں دیتا چلا جاتا ہے شجر ایسا ہے
ھاں یہ دیس ،اسکی فضائیں، اسکی مٹی کی خوشبو اسقدر مہربان ہیں کہ اس کے باسی اپنے ھی دست و بازو نفرتوں اور تعصبات کی بھینٹ چڑھا کر اپنے جسم سے علیحدہ کردیتے ہیں ناقدرئ عالم کی اس سے افسوسناک مثال اور کہیں نہیں ملیگی لیکن یہ بد قسمت دست و بازو اپنے بدن سے کٹ کے ، اپنی دھرتی سے دربدری کی سزا جھیل کر بھی اپنے اسی گم گشتہ بدن کی سلامتی کیلئے بےقرار رھتے ہیں ملٹن کی پیرا ڈائز لاسٹ کیطرح رفیع رضا بھی اپنی گم گشتہ جنّت کا متلاشی ہے ۔
میری دعا ہے کہ خالق قرطاس و قلم افق شعر پہ رفیع رضا کو رفیع الشّان مقام پہ فائز فرمائے اور یہ ستارہ شاعری کے آسمان پر لکیر نہیں روشن تصّورات کی دھنک اور درخشاں امکانات کی کہکشاں چھوڑ کر جائے ، آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبسم وڑا ئچ صآحب۔
شعر، عروض، اوزان، تقطیع،شعریت
شعر، شعریت، شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان تینوں چیزوں کی کوئی عالمی تعریف متعین کرنےمیں تمام زبانوں کے ادب ناکام ھو گئے ھیں۔۔۔جدیدیت کے نام پر کلاسیکی درجہ بندی کو قریبآ ۷۰ برس پہلے دنیا بھر میں چیلینج کر دیا گیا تھا۔۔۔اسی طرح جب فرانس میں کہا گیا کہ دیکھو انگریزی شاعری کو آج، بلینک ورس کے نام پر قتل کر دیا گیا ھے۔۔اب یہ قتل، مذھب کی طرح اردو مین بھی جاری و ساری ھے اور ایسی بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مِل رھی ھین کہ الاماں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی پُوچھے کہ جب نثری ۔یا نثر پارہ، شاعری کی مَد میں داخل کردیا جائے تو ایرانی و عربی اصنافِ سخن ، مثنوی، قصیدہ، منقبت، غزل، وغیرہ کی کیا وقعت باقی رَہ گئی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔اردو ، فارسی اور عربی شاعری ھاتھ سے ھاتھ ملائے چلتے ھین ۔۔اور وجہ ظاھر ھے عروض کی زیادہ تر ھم آھنگی ھے۔۔۔ھم آھنگی ھیئت مین ھو یا خٓاصیت میں دونوں کو جُدا جدا دیکھا جا سکتا ھے۔۔۔جب امرا لقیس کو خاتم الشعرا کہا جاتا تھا تو یہ شاعر مقدمہ شعر و شاعری۔۔پڑھ کر شاعری نہین کرتا تھا۔۔۔شاعری میں اصناف کبھی پہلے نہین بنیں شاعری ھمیشہ پہلے تھی۔۔۔اصناف زیادہ تر انہوں نے بنائیں جو خود شاعری کے قابل نہ تھے یا شاعری مین غیر شاعر کی حد تک شاعر تھے۔۔۔۔جیسے ھمارے شمس الرحمن فاروقی صاحب ، میر کا مقدمہ تو لکھ سکتے ھین لیکن ایک شعر ایسا نہین کہہ سکتے جو طبعِ رواں سے اُٹھایا گیا ھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں؟؟؟ ایسا کیوں ھے ؟؟۔ْ۔۔۔۔۔۔۔ایسا اس لئے ھے کہ واپس خاتم الشعرا کی طرف چلئیے۔۔۔امرا القیس نے شعر کی اصناف متعین کر کے شاعری نہین کی تھی۔۔۔۔۔۔۔اصناف کو متعین کر کے جو شاعری کی جاتی ھے سوائے گنے چُنے شُعرا کے وُہ سب شاعری کلیشے کے کھاتے مین جاتی ھے۔۔۔۔چونکہ اردو ادب مین تعمیری تنقید کا سوال ھی پیدا نہین ھُوا اسی لئے توصیفی تنقید نے اصنافی شاعری کی ھر بونگی برداشت کی ھےمرثیہ۔۔کو دیکھ لیں۔۔۔دنیائے عالم مین ۔۔اردو ادب کے لئے۔۔۔۔سوائے کربلا کے کُچھ موجود ھی نہین ۔۔۔اور جو موجود ھے وُہ کربلا کا کلیشے ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کلیشے۔۔۔۔معنوی سطح پر تو کلیشے ھے ھی۔۔۔۔ھیئتی سطح پر بھی کلیشے ایسا بن جاتا ھے جب معنوی اور ھیئتی دونوں سطحیں رسمی طور پر اختیار کی جائیں۔۔۔۔۔مثلا غالب کے قصیدے بنام بادشاھان وقت، اور علامہ اقبال کا مرثیہ بنام ملکہ وکٹوریہ ۔۔ایک غلیظ قَے سے بڑھ کر ادب مین کوئی مقام نہین رکھتے۔۔۔۔۔جب اقبال کہتا ھے کہ اے ملکہ وکٹوریہ تیرے مرنے کا دن کربلا سے بڑا ھے۔۔۔اور عید ایک نحوست ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔میر انیس کربلا کو دو جہان کا سب سے بڑا واقعہ قرار دیتا ھے۔۔۔۔۔۔سوال تو قاری کا ھے قاری کہاں جائے گا۔۔۔زورِ بیان،،،،،کیا علمی ، عقلی غرابت کا اعلان ھوتا ھے؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پس ان سوالوں کے ساتھ عرض کردُوں کہ اردو کی پوتھی میں اصناف کی تعداد اور ھیئت و بحور متیعین کرنے والوں کا درسی حصہ ھو تو ھو۔۔۔۔۔ادبی حصہ ندارد ھے ۔۔۔۔۔میں کبھی صنف کو سامنے رکھ کر شاعری نہیں کرتا۔۔۔اسی لئے مُجھے طرحی مشاعرے سے نفرت ھے حالنکہ میں فی البدیہہ شاعری فیس بُک پر کر کے ضائع کردیتا ھُوں ۔۔صنف کو نشانہ بنا کر ، یا طرحی مصرعے کو نشانہ بنا کر شاعری کرنا لفظی مُشت زنی ھے اس بحرِ خشک کو شاعری کا عطر کہنے والا اپنے خیال پر نظرِ ثانی کرے۔۔۔غلطی کسی کو بھی لگ سکتی ھے اور اردو کے بیشتر نقاد اور سمجھنے والے مسلسل غلطی پر ھین۔۔۔
اردو فارسی عربی شاعری کے کچھ رموز یہ ہیں
۱۔ فعولن
۲۔ فاعلن
۳۔ مفاعیلن
۴۔ فاعلاتن
۵۔ مستفعلن
۶۔ مفعولات
۷۔ متفاعلن
۸۔ مفاعلتن
انہیں آٹھ افاعیل کی مخلتف ترتیبوں سے بحریں بنتی ہیں، اور ان بحروں میں شعر کہنا لازم ہوتا ہے۔
کچھ مفرد بحریں ہوتی ہیں کہ جن میں ایک ہی افاعیل کی تکرار ہوتی ہے جیسے بحر متقارب (جو اس تھریڈ میں تفصیل سے زیرِ بحث رہی ہے) اس میں فعولن کی تکرار ہے یعنی مثمن میں فعولن فعولن فعولن فعولن ہے۔ جو بھی شعر ان افاعیل کے وزن پر کہا جائے گا اسے بحر متقارب میں کہا ہوا شعر کہیں گے۔
اسی طرح ایک اور مفرد بحر ہے، بحر ہزج اس میں مفاعیلن کی تکرار ہوتی ہے (بحر ہزج مثمن سالم کا وزن ہوگا، مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن)۔
کچھ مرکب بحریں ہوتی ہیں جن میں ایک افاعیل کی بجائے دو اراکین کی تکرار ہوتی ہے جیسے بحر مضارع مثمن سالم کا وزن ہے مفاعیلن فاعلاتن مفاعیلن فاعلاتن، یعنی اس میں دو مختلف افاعیل آ گئے ہیں سو مرکب ہے۔
اس طرح کل ملا کر (مفرد اور مرکب) انیس بحریں بنتی ہیں جن میں سے کچھ اردو میں استعمال ہوتی ہیں اور کچھ نہیں ہوتیں جیسے بحر وافر جو کہ مفرد بحر ہے اور اسکا وزن مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن ہے لیکن اردو میں اس میں شعر نہیں کہے جاتے کہ اسکا مزاج سراسر عربی اور فارسی کا ہے، اور اگر اردو میں کوئی شعر ہے بھی تو بطور مثال کے۔
لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔
اوپر جو آٹھ افاعیل دیئے گئے ہیں ان میں ایک خاص ترتیب اور انداز سے حروف کی کمی بیشی کرنے سے کچھ نئے وزن اور افاعیل حاصل ہوتے ہیں، اس کمی بیشی کے عمل کو زحاف یا زحافات کہتے ہیں اور ان سے بے شمار اوزان اور بے شمار بحریں حاصل ہوتی ہیں اور یہی عروض کا مشکل ترین حصہ ہے۔ اور ہر زحاف اور ہر بحر کا ایک الگ نام بھی ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک رکن ‘مفاعیلن’ پر زحافات کے عمل سے اٹھارہ نئ صورتیں حاصل ہوتی ہیں اور ان سے بننے والی بحر ہزج کے 35 ذیلی صورتیں بحر الفصاحت میں بیان کی گئی ہیں۔
کچھ مثالیں لکھتا ہوں۔
مفاعیلن کے اگر آخری دو حرف گرا دیں تو اس زحاف کو حذف کہتے ہیں، اسے سے ‘مفاعی’ بچتا ہے جسے فعولن بنا لیتے ہیں۔
اگر پہلا حرف ‘م’ ختم کر دیں تو فاعیلن بچتا ہے جسے ‘مفعولن’ بنا لیتے ہیں۔ (اس زخاف کو خرم بروزنِ شرم کہتے ہیں)
اسی طرح مفاعیلن پر زحافات کے عمل سے جو وزن حاصل ہوتے ہیں ان میں، مفاعیل، مفاعلن، فاعلن، مفعول، فعول، فعل، فاع، فع، مفاعیلان، مفعولان، فعلن وغیرہ وغیرہ حاصل ہوتے ہیں اور پھر ان سے بحریں بنتی ہیں جیسے
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
مفاعلن مفاعیلن مفاعلن مفاعیلن
فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل
وغیرہ وغیرہ
مزید برآں، اسی ایک رکن ‘مفاعیلن’ کی مختلف صورتوں (یعنی بحر ہزج ہی سے) رباعی کے چوبیس وزن بھی نکلتے ہیں۔
اور یوں آٹھ افاعیل کی مختلف صورتوں سے سینکڑوں بحریں بنتی ہیں، لیکن عملی طور پر، ایک رپورٹ کے مطابق، صرف ساٹھ ستر بحریں ہی عربی، فارسی اور اردو شاعروں کے مستقل استعمال میں رہی ہیں۔ اردو شاعری کی تاریخ میں تقریباً چالیس بحریں استعمال ہوئی ہیں، اور دیوانِ غالب میں غالب کے استعمال میں آنے والی بحروں کی تعداد انیس یا بیس ہے
بہت سے نئے لکھنے والے۔۔۔ عروض۔۔اور شعروں کے اوزان کے بارے میں پوچھتے ھیں۔یہ نوٹس پڑھ لیں۔۔۔
نوٹ۔۔۔ یہ پرانے کچھ نوٹس اکٹھے کئے ھیں اس میں اگر کسی کے کام کی کوئی چیز ھے تو بغیر شکریہ وہ لے لے۔۔۔ اصل میں بنیادی اکاونٹ بلاک ھونے سے تمام لکھا شاعری اور مضامین غتر بود ھو گئے ھیں۔۔ جو جہاں سے ملے گا اس میں شامل کرتا جاوں گا۔۔
رموزِ شاعری،،،اور مزید نوٹس،،،،،،رفیع رضا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علم البیان کی ایک صورت شاعری ھے۔۔
شاعری ۔۔۔۔شعر سے نکلا ھے۔۔۔۔جس کا مفہوم۔۔۔۔ معنی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں۔
لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً۔۔۔کوشش کر کے کہا جائے۔
یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے طابع ہوتا ہے۔
اور کسی واقع کی طرف جاننے کا اشارہ کرتا ہے۔
ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نےکوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر کر گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بخود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے
اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انہی شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔مغرب میں نثری نظم کا آغاز انیسویں صدی میں فرانس میں اور بعدمیں امریکہ میں اسے بہت فروغ حاصل ہوا۔ اردو میں مختلف ہیئتوں سے نثری نظم کی مثالیں بیسویں صدی کی تیسری دہائی سے ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ایک ادبی تحریک کے طور پر اس کا باقاعدہ آغاز ساٹھ کی دہائی سے ہوا۔ لیکن لگ بھگ چار دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی نثری شاعری کا یہ تجربہ اردو نظم میںعمومی قبولیت کے مقام تک نہ پہنچ سکا اور نثری نظم کا ” دور اول ” بالعموم کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکا۔
نثری نظم کےاول دور میں زیادہ تر وہ شعرا تھے جو جدید تر شعری حسیات اور عصری ادبی شعور رکھنے کے ساتھ ساتھ اردو کی کلاسیکی شعری روایات سے بھی مربوط و منسلک تھے اور فن شعر گوئی یعنی اوزان و بحور پر بھی قدرے گرفت رکھتےتھے ۔لیکن بعد میں اسی طرح جیسے امریکہ میں ہُوا اوزان اور بحور سے ناواقف افراد کا جم غفیر نثری نظم پر پل پڑا۔پھر انٹرنیٹ کی آسانی سے فائدہ اُٹھاتے ہُوئے مغرب کی نثری شاعری کے بغیر حوالہ دیئے ترجمہ جات پر مبنی نثری شاعری پاکستانی خود ساختہ نثری شاعروں کی کاوشوں کی صورت میں جگہ جگہ دکھائی دینے لگی –
نثری نظم کے حق میں بولنے والوں کی دلیلیں ایسی ہیں کہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے، مثال کے طورنثری نظم میں ایک اندرونی آھنگ ہوتا ہے، نثری نظم تہذیب کی آگہی کے بغیر نہیں لکھی جاسکتی- غرض جتنے مُنہ اُتنی بے بُنیاد اور ہوائی باتیں۔
میرے نزدیک ایسی کسی صنف میں اظہار پر تو کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کے نام کا مسئلہ درپیش ہے۔
شعر و ادب کا ماخذ چاہے کسی بھی زبان سے نسبت رکھتا ہو، حتمی تخلیقی معیار کی قدر و تعین کے لئے اسے با لآخر اسی زبان کے حوالے سے دیکھا اور پرکھا جانا چاہیئے جس میں وہ تخلیق کیا گیا ہو۔ چنانچہ اردو نثری نظم کو بھی سنسکرت، ہندی، فرانسیسی اور انگریزی زبان و ادب کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے، اردو زبان کے سانچوں میں ڈھال کر دیکھنا ضروری ہے
شاعری کے اوزان کا سبق۔۔یاد دھانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پُرانی تمام کلاسوں کا اعادہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعری میں ایک اندرونی موسیقی سموئی جاتی ھے جس کو وزن، یا بحر کہتے ھیں۔۔۔وزن یا بحر، ایک اندونی ردھم ھے بیرونی طور پر اس کو پرکھنا یا جانچنا ، عروض کہلاتا ھے۔۔۔۔۔۔
اس اندرونی ردھم کو حساب سے تصویر سے یا الفاظ سے ظآھر کیا جا سکتا ھے۔۔۔۔الفاظ کوئی بھی بے معنی استعمال کئے جا سکتے ھیں۔۔اصل نُکتہ یہ ھے کہ۔۔۔الفاظ میں ۔ متحرک ، اور ساکن حروف کی پہچان ھو۔۔۔
ؔؔ@@@متحرک اُس حرف کو کہتے ھیں ۔۔۔جس پر زبر، زیر، یا پیش ھو۔۔
@@@ ساکن ۔حرف وُہ ھوتا ھے جس پر جزم ھو۔۔۔
جیسے ۔۔۔۔پَر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں پ پر زبر ھے۔۔۔پَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ر۔۔۔پر جزم ھے۔۔
اس لئے۔۔۔۔۔۔قاعدہ یہ ھوا کہ۔۔۔۔
متحرک +ساکن۔۔۔
اب اس کی مثال دیکھیں جن میں یہ کُلیہ استعمال ھو۔۔
جَا،،،،،،لَا،،،،ھَے۔۔۔۔۔تُو۔۔۔۔۔۔ھَم۔۔۔۔سَن۔۔۔۔۔۔۔۔لو۔۔۔۔۔دو۔۔۔پا۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔اُس۔۔اِس۔۔۔اُن۔۔۔جَل، کَل۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ھم آٹھ بار۔۔۔۔متحرک+ساکن کا ایک کُلیہ۔۔یا بحر۔۔یا وزن بنا لیں تو۔۔۔۔۔
متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن
متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن
اب مندرجہ بالا چار ارکان۔۔۔۔۔ھُوئے۔۔۔ان ارکان کے وزن یا ردھم کے مطابق کُچھ لکھیں
ھم تُم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مِل کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بولے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بابا
متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن
متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن
ھم=متحرک+ساکن۔۔====ھَ م۔۔
تُم=متحرک+ساکن۔۔===تُ م۔۔۔
۔مِل=متحرک+ساکن=== مِ ل۔۔۔
کَر===متحرک+ساکن== کَر۔۔۔
آپ نے غور کیا۔۔۔؟۔۔۔۔اب اگلا قدم۔۔۔۔۔لیکن اگر سمجھ نہیں آئی تو پھر پڑھیں۔۔دُنیائے اُردو میں اس سے آسان طریق کسی نے اختیار نہ کیا ھوگا۔۔۔جو رفیع رضآ نے اختیار کیا ھے۔۔
اب اگر۔۔۔۔۔۔۔ایک۔۔۔۔۔۔متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔کو ھم۔۔۔۔۔کسی نشان۔۔یا لفظ سے ظآھر کریں ؟ تو کیسا رھے گا۔۔۔۔۔؟۔۔
یعنی۔۔۔۔۔۔
متحرک+ساکن=====فَا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فَ ا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا پھر۔۔۔۔۔۔۔۔لُن۔۔۔۔-۔۔۔یا پھر۔۔عِی۔۔۔۔عِ ی۔۔۔۔۔
اور اسی طرح۔۔۔۔فِعل۔۔۔۔۔–فِ ع ل۔۔۔۔==متحرک ، +ساکن+ساکن۔۔
متحرک ، +ساکن+ساکن۔۔====فِعل۔۔
اور ۔۔متحرک + متحرک+ساکن۔۔۔۔۔====مَفَا۔۔۔۔۔۔۔۔—==عِلُن۔۔۔
پس جو عربی کے الفاظ ھم ۔۔وزن کے لئے استعمال کرتے ھیں وُہ بے معنی الفاظ ھیں صرف۔۔حروف کے تلفظ کو ظآھر کرنے کے لئے ھم انہیں استعمال کرتے ھیں۔۔
اور ۔۔۔۔@@@@@سب سے اھم بات۔۔۔۔۔@@@@ یاد رکھیں۔@@@
شاعری میں الفاظ کا آھنگ یا صوتی تاثر یا تلفظ ھی ضرورت ھے۔۔۔۔حروف کی تعداد نہیں گنتے۔۔۔
یعنی۔۔۔۔۔۔۔۔لفظ ۔۔کیا، کیوں۔۔۔۔اصل میں۔۔۔کا۔۔اور کوُں ھیں اور کُوں==کُو۔۔۔۔۔ں کو نہیں بولنا۔۔۔
لفظ گُناہ ، کا تلفظ کیا بنے گا۔۔۔۔؟؟ گُ نَ ا ہ۔۔۔۔۔۔= متحرک،متحرک، ساکن ساکن
گُناہ==فَعُول۔۔۔-مَفَال۔۔۔۔== اُدھار۔==اُ دَ ار۔۔۔۔===خَیَال۔۔۔۔، فَصیل۔۔۔۔وغیرہ۔۔۔
پہلے سے ماھرین نے بحریں یا اوزان بنائے ھُوئے ھیں۔۔۔
مثلا۔۔۔۔
فَعلُن فَعلُن فَعلُن فَعلُن==متحرک۔ساکن۔۔متحرک ساکن۔۔متحرک ساکن۔۔۔۔۔وغیرہ
فَعلُن۔۔۔۔۔=فَع لُن۔۔۔۔۔۔===جَا لَا۔۔۔۔۔==کَر لے۔۔۔۔۔==سو جَا۔۔۔۔۔پی لو۔۔۔۔
اس بحر میں مصرعہ لکھیں۔۔۔
فَعلُن فَعلُن فَعلُن فَعلُن
فَعلُن۔۔۔۔ فَعلُن۔۔۔ فَعلُن۔۔۔۔۔ فَعلُن
دیکھا۔۔ ھم نے۔۔تارہ۔۔توڑا
آدھا،،،توڑآ، سارا تُوڑا۔۔۔
بھاگو بھاگو بلی آئی۔۔۔۔۔۔
کیسے۔۔۔۔اس کی تقطیع کرتے ھیں۔۔۔
بھَ ا۔۔۔گُ و۔۔۔۔۔۔بھَا گُو۔۔۔۔۔۔۔بِل لی۔۔۔۔۔۔آا ئی۔۔۔
دیکھا۔۔؟؟ ۔۔بلی۔۔میں دو لام ھیں کیونکہ ۔۔بلی متشدد ھے۔۔۔۔۔تو ھم آواز کو دیکھتے ھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اب دیکھیں۔۔۔۔۔
مَفا عِلُن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔=== مَفَا====خُدَا۔۔۔۔عِلُن۔۔بھی —خُدا۔۔۔
اگر وزن ھو۔۔۔۔کہ
خدا خدا ۔۔۔۔خدا خدا۔۔۔ خدا خدا۔۔۔۔۔۔۔خدا خدا۔۔۔۔ ۔۔۔یعنی چار مرتبہ
تو ھم مصرعہ لکھتے ھیں۔۔۔۔۔۔۔
چلو مرو ۔۔۔۔۔۔۔کدھر گئے۔۔۔۔ابھی تلک ۔۔مِلے نہیں۔۔۔
چَلو مَرو–خدا خدا۔۔۔
کِدَر گَئے۔۔۔ خدا خدا۔۔
اَبی۔۔تلک۔۔۔۔۔خدا خدا۔۔
مِلے ۔نئیں۔۔۔۔خدا خدا۔۔
خدا خدا کی بجائے۔۔۔۔بحر ھوتی ۔۔۔۔۔۔مَفَا عِلُن۔۔۔
جیسے۔۔۔۔
ابھی تو مَیں جوان ھُوں
ابی تُ مَ=====مفاعلن
جوا۔۔۔ن ُھوں۔۔۔۔مفاعلن۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب دیکھیں۔۔۔۔
فَعِلاتن۔۔۔۔۔۔۔–====فَ عِلا۔۔۔۔۔تَن۔۔۔
یہ خدا ھے۔۔۔۔۔— ===یِ خُدا۔۔۔ھے۔۔۔
نہ کسی کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔— نَ کِسی ۔۔کو
مِرے دل پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔—==مِ۔۔ رِ دِل۔۔۔۔۔ پر۔۔۔۔–فعلاتن۔۔۔
لیکن۔۔۔۔اگر میں اس کو پڑھوں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مَرے دل پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مِرِے۔۔۔۔۔دل پر۔۔۔۔
تو اس کا وزن ھے۔۔۔
مَفَا عی لُن۔۔۔۔۔۔۔-متحرک متحرک۔۔ساکن۔۔۔۔+ متحرک ساکن+ مُتحرک ساکن۔۔
اس طرح کے الفاظ کو کئی اوزان ھو سکتے ھین جو صوتی طور پر مُختلف ھوتے ھیں۔۔۔
اسی لئے کہا تھ ایاد رکھین صوتی۔۔۔۔اھمیت۔۔۔۔۔ھے شاعری میں۔۔
تو ۔۔پھر دیکھین۔۔۔مَرِے جن کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مَ رِ ے۔۔۔۔۔۔جِن۔۔ کِے۔۔–==مفاعیلن۔
یا۔۔۔مَ۔۔ رِجِن۔۔۔۔۔۔کے۔====۔۔۔۔فَعِلاتن۔۔۔۔۔۔۔
آئیے پریکٹس کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فعلن فعلن======میرے۔۔۔۔۔بھاءی۔۔۔===پتھر توڑو۔۔۔۔۔لینا دینا۔۔۔۔تُم نے اُس نے۔۔۔
مَفَاعِلُن— خدا خدا۔۔۔۔۔۔چلے چلو۔۔۔ادھر اُدھر۔۔۔۔گلے مِلو۔۔۔ارے نہیں۔۔کہاں چلے۔غلط غلط۔
فَعِلاتن۔—-یہ تومیرا۔۔۔۔۔یہ تُمھارا۔۔۔۔نہ کسی نے۔۔۔مرے اندر۔۔۔۔ترے باھر۔۔۔۔۔۔
مَفَاعِیلن۔۔۔۔۔خدا آیا۔۔۔۔۔نہیں تُوڑا۔۔۔۔۔۔مرا دفتر۔۔۔۔چلو دیکھو۔۔اُٹھو پنجم۔۔۔ارے بابا۔۔میاں جاو۔۔
فعول فعول۔۔۔۔۔۔۔۔بُخار اُتار۔۔۔۔۔خیال سنبھال۔۔۔۔۔جناب شناب۔۔۔کتاب وقار۔۔۔۔رفیع رفیع
مفاعِلاتَن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا خدا تھا۔۔۔۔نہیں پتہ تھا۔۔۔۔اگر یہی ھے۔۔۔کہاں چلو گے، ادھر نہ جانا
مُستَفعِلُن۔۔۔۔۔۔۔۔مُس تَف۔۔عِلُن۔–جانا پڑا۔۔۔۔آیا نہیں۔۔۔توڑآ ُھوا۔۔سادہ توھے۔۔پتھر گِرا۔۔
فَاعِلان۔۔۔۔۔۔درمیان۔۔۔۔۔۔نو جوان۔۔۔۔۔دُلمیال۔۔۔۔جا اُتار۔۔۔۔۔زینہار۔۔۔۔۔۔بحساب۔۔۔۔
فاعلُن۔۔۔۔۔یہ کُھلا۔۔۔ھم نہیں۔۔جا پڑے۔۔گِر گیا۔۔۔۔سہہ لیا۔۔۔ھنس پڑا۔۔۔۔۔۔
فَعل۔۔۔۔۔۔۔۔فَ ع ل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جال،،،رحم۔۔۔۔۔پات۔۔۔ریت۔۔۔۔چُھوت۔۔۔رنج۔۔۔۔۔بھیج۔۔۔بھینچ۔۔۔گرم۔۔شرم۔۔
اور یہاں سے ھم آگے چلیں گے۔۔۔۔
آگے بڑھنے سے پہلے ان سبھی ارکان کی مثالیں دیکھ لیتے ہیں۔
فعلُن: پتھر، رشتہ،محفل، اڑنا، راکھی، سیرت، جانب
فعِلُن: ، رگِ جاں ،سرِ دَم۔ غمِ دل، شبِ غم، رہِ گم، سرِ رہ، درِ دل
فعول؛ ،بُخار، جماع،خیال، جواب، عروج، جوان، پڑوس
فعولُن؛ ۔، اشارہ، حسینوں،سمندر، مرا دل، گواہی، شہادت، ادھر آ، تمنا
فاعلُن؛ ، تُم چلو، رت جگا، دیکھنا، سامنا، روبرو، جستجو، جانِ من
مفعول؛ ، مردُود، منقار،اسرار، دستور، سیلاب، الزام، ہر روز
مفاعلُن؛ ، چلے چلو،سنبھالنا، جواب دے، نظر نظر، سوال ہے، بکھر گیا
فاعلات؛انتساب ،انتخاب، کامران، روک ٹوک، لا جواب، خون رنگ
مفاعیل؛ ، جوابات ،سوالات، سحرتاب، ترا ساتھ، بہت شوخ، مری جان
مفتعِلُن؛ آہِ سحر، چھوڑ گیا، اے شبِ غم، شاخ شجر، تیرِ ستم
فعِلاتن؛ غمِ جاناں، شبِ تیرہ، پسِ پردہ، لبِ دریا، سرِ محفل
مفاعیلن؛ تمنا ہے، نہ حسرت ہے، گزارا کر، نظر رکھنا، بدل جانا
فاعلاتن؛ کام دینا، سامنے ہے، دوسرا دن، ہر طرف سے، آسمانی
مستفعلُن؛ ہر رنگ میں، میری طرح، اچھا ہوا، دل توڑ کر، جائے کہاں
مفعولات؛ تیری ذات، اصلاحات، میری جان، نا منظور، میرے خواب
مفعولُن؛ دیواریں، بازاری، تنہائی، یہ دنیا، ملتا ہے، مجبوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان الفاظ کے ھجے اور اوزان پر غور کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بُنیادی باتیں ھیں۔۔۔۔
۔
@@@ شاعری میں اوازان یا تقطیع۔۔۔الفاظ ، حروف سے نہیں۔۔۔آھنگ سے ھوتی ھے۔۔
یعنی۔۔۔۔۔۔اگر ۔۔۔مصرع ہے کہ۔۔۔
آخر اس درد کی دوا کیا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو ۔۔بحر۔۔۔۔۔فاعلاتن ، مفاعلن۔۔۔فعلن۔۔۔۔
میں تقطیع صوتی ھوگی۔۔
یعنی اسے ایسا پڑھیں گے۔۔
فاعلاتن۔۔۔۔۔۔آخرس در۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الف کو دبا دیا۔۔۔۔۔ھے۔۔۔۔
د کی ۔دوا۔۔۔۔۔۔۔مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
کا ،ھے،،،،فعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی کیا–=کا——-فع=====
تو یُوں پڑھیں گے۔۔۔
آخرس در دکی دوا کا ھے۔۔۔۔۔
فعلاتن ، مفاعلن، فعلن۔۔۔۔
غور کریں کہ حروف متحرک ساکن کیسے ھوئے۔۔۔؟
فَا۔۔۔==آ
عِلَا۔=== خِِرَس۔۔۔۔۔
۔۔تَن۔۔=دَر۔۔۔
مَفَا ==دَکِی
عِلُن===دَوَا۔۔
فَع–== کَا۔۔۔
لُن-=== ھَے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب۔۔۔۔۔۔ایک اور مصرع دیکھیں۔
دلِ ناداں تُجھے ھُوا کیا ھے
یہاں۔۔دلِ ناداں۔۔۔کے تو تلفظ یا ھجے ممکن ھیں
دلِ ناداں===مفاعیلن
دِ لِنا داں۔۔۔== فَعِلاتن۔۔
اور یہی ھُوا ھے غالب نے۔۔۔۔دُوسرے بیان کردہ تلفظ کو اس بحر میں باندھا ھے۔۔
دِ لِنا داں۔۔تُجھے ھُوا ۔کا ھے۔۔
فَعِلاتن، مفا۔۔۔عِلُن۔۔۔۔فع لُن۔۔
تو ایسے دونوں مصروں کی تقطیع ھم نے کر لی۔۔
دِ لِنا داں۔۔۔۔۔۔تُجھے ھُوا۔۔۔۔۔۔ ۔کا ھے
آخرس در۔۔۔۔۔ دکی دوا ۔۔۔۔۔ کا ھے۔۔۔
یاد رھے کہ۔۔۔۔۔مندرجہ ذیل الفاظ میں ی کو خاموش رھنا ھے۔۔۔
کیا، کیوں،
=== کا۔۔کُوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ۔۔۔۔۔۔ں نُوں غنہ بھی پڑھا نہیں جاتا۔۔۔یعنی تقطیع میں اس کی اھمیت کوءی نہیں۔۔۔
آگے بڑھنے سے پہلے ان سبھی ارکاں کی مثالیں دیکھ لیتے ہیں۔
فعلُن: محفل، اڑنا، راکھی، سیرت، جانب
فعِلُن: غمِ دل، شبِ غم، رہِ گم، سرِ رہ، درِ دل
فعول؛ خیال، جواب، عروج، جوان، پڑوس
فعولُن؛ سمندر، مرا دل، گواہی، شہادت، ادھر آ، تمنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحروں کے اراکین۔۔۔۔یا زحافات
۱۔ فعولن
۲۔ فاعلن
۳۔ مفاعیلن
۴۔ فاعلاتن
۵۔ مستفعلن
۶۔ مفعولات
۷۔ متفاعلن
۸۔ مفاعلتن
انہیں آٹھ افاعیل کی مخلتف ترتیبوں سے بحریں بنتی ہیں، اور ان بحروں میں شعر کہنا لازم ہوتا ہے۔
کچھ مفرد بحریں ہوتی ہیں کہ جن میں ایک ہی افاعیل کی تکرار ہوتی ہے جیسے بحر متقارب (جو اس تھریڈ میں تفصیل سے زیرِ بحث رہی ہے) اس میں فعولن کی تکرار ہے یعنی مثمن میں فعولن فعولن فعولن فعولن ہے۔ جو بھی شعر ان افاعیل کے وزن پر کہا جائے گا اسے بحر متقارب میں کہا ہوا شعر کہیں گے۔
اسی طرح ایک اور مفرد بحر ہے، بحر ہزج اس میں مفاعیلن کی تکرار ہوتی ہے (بحر ہزج مثمن سالم کا وزن ہوگا، مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن)۔
کچھ مرکب بحریں ہوتی ہیں جن میں ایک افاعیل کی بجائے دو اراکین کی تکرار ہوتی ہے جیسے بحر مضارع مثمن سالم کا وزن ہے مفاعیلن فاعلاتن مفاعیلن فاعلاتن، یعنی اس میں دو مختلف افاعیل آ گئے ہیں سو مرکب ہے۔
اس طرح کل ملا کر (مفرد اور مرکب) انیس بحریں بنتی ہیں جن میں سے کچھ اردو میں استعمال ہوتی ہیں اور کچھ نہیں ہوتیں جیسے بحر وافر جو کہ مفرد بحر ہے اور اسکا وزن مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن ہے لیکن اردو میں اس میں شعر نہیں کہے جاتے کہ اسکا مزاج سراسر عربی اور فارسی کا ہے، اور اگر اردو میں کوئی شعر ہے بھی تو بطور مثال کے۔
لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔
اوپر جو آٹھ افاعیل دیئے گئے ہیں ان میں ایک خاص ترتیب اور انداز سے حروف کی کمی بیشی کرنے سے کچھ نئے وزن اور افاعیل حاصل ہوتے ہیں، اس کمی بیشی کے عمل کو زحاف یا زحافات کہتے ہیں اور ان سے بے شمار اوزان اور بے شمار بحریں حاصل ہوتی ہیں اور یہی عروض کا مشکل ترین حصہ ہے۔ اور ہر زحاف اور ہر بحر کا ایک الگ نام بھی ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک رکن ‘مفاعیلن’ پر زحافات کے عمل سے اٹھارہ نئ صورتیں حاصل ہوتی ہیں اور ان سے بننے والی بحر ہزج کے 35 ذیلی صورتیں بحر الفصاحت میں بیان کی گئی ہیں۔
کچھ مثالیں لکھتا ہوں۔
مفاعیلن کے اگر آخری دو حرف گرا دیں تو اس زحاف کو حذف کہتے ہیں، اسے سے ‘مفاعی’ بچتا ہے جسے فعولن بنا لیتے ہیں۔
اگر پہلا حرف ‘م’ ختم کر دیں تو فاعیلن بچتا ہے جسے ‘مفعولن’ بنا لیتے ہیں۔ (اس زخاف کو خرم بروزنِ شرم کہتے ہیں)
اسی طرح مفاعیلن پر زحافات کے عمل سے جو وزن حاصل ہوتے ہیں ان میں، مفاعیل، مفاعلن، فاعلن، مفعول، فعول، فعل، فاع، فع، مفاعیلان، مفعولان، فعلن وغیرہ وغیرہ حاصل ہوتے ہیں اور پھر ان سے بحریں بنتی ہیں جیسے
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
مفاعلن مفاعیلن مفاعلن مفاعیلن
فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل
وغیرہ وغیرہ
مزید برآں، اسی ایک رکن ‘مفاعیلن’ کی مختلف صورتوں (یعنی بحر ہزج ہی سے) رباعی کے چوبیس وزن بھی نکلتے ہیں۔
اور یوں آٹھ افاعیل کی مختلف صورتوں سے سینکڑوں بحریں بنتی ہیں، لیکن عملی طور پر، ایک رپورٹ کے مطابق، صرف ساٹھ ستر بحریں ہی عربی، فارسی اور اردو شاعروں کے مستقل استعمال میں رہی ہیں۔ اردو شاعری کی تاریخ میں تقریباً چالیس بحریں استعمال ہوئی ہیں، اور دیوانِ غالب میں غالب کے استعمال میں آنے والی بحروں کی تعداد انیس یا بیس ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعری میں دو باتیں اھم ترین ھیں۔
1۔ شعریت
2۔ ترسیل
شعریت، ندرت،و پیش کاری ، اور تاثیر سے آتی ھے
لیکن ترسیل کے بغیر سب بیکار ھو جائے گا۔
آج کی شاعری پر نظر ڈالیں تو، صاف نظر آتا ھے کہ خیال کی ترسیل کردی جاتی ھے اور اسے کافی سمجھا جاتا ھے۔ بات کہہ دینا یا وزن میں بات کہہ دینا ھی شاعری نہیں ھوتا۔
اصل بات شعریت کی ھے ، اور شعریت جیسے اوپر بیان کیا ھے، اندازِ بیان، الفاظ کا چناو، پیش کاری، تاثیر ۔۔۔سے آتی ھے۔۔۔
اب بہت سے پرانے لکھنے والے ایک ھی نہج پر شعریت سے عاری اشعار لکھتے جاتے ھیں اور سمجھتے ھیں کی تغزل بھری بات کہہ دی ھے جو خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ھے۔
نئے لکھنے والے جب ندرت لانے کی کوشش کرتے ھیں تو ڈرامئی اور غیرممکن تعلیات کو شاعری کا نیا تغزل سمجھتے ھیں، لیکن مشاھداتی تجربہ ھمین بتاتا ھے کہ یہ بھی شعریت سے عاری کوشش ھے۔۔۔
پس شعریت لانے کے لئے ندرتِ خیال کے علاوہ ندرت پیش کاری بھی درکار ھے۔ ساتھ میں روایتی تغزل ھو تو مکمل شعر وجود میں آتا ھے۔
فکری سطح پر دقیق اشعار ، درحقیقت پست درجہ رکھتے ھیں۔
جب شاعری کا فن ھی پیش کاری کی بہترین بنیاد پر ایستادہ ھے تو پیش کاری و ترسیل کے بغیر کوئی فن پارہ کیا اھمیت رکھے گا۔۔ اس لئے خوش فہمی سے نکل آنا ھی بہتر ھے
نئے اور پرانے دونوں سطح کے شُعرا، کی شاعری ، زیادہ تر مایوس کُن کلیشیائی خیالات سے بھری ملتی ھے،
چند ایک احباب و خواتین اپنا رستہ الگ بنا رھے ھیں۔۔۔جو قابلِ تعریف بات ھے۔۔
لیکن کچھ پرانے شعرا جو دوستوں میں بھی شامل ھیں، لکیر پیٹے جاتے ھیں، ایسے دوست ناقابلِ علاج ھیں جو اپنی شاعری میں نئے مضامین لانے سے اس لئے قاصر ھیں کہ وُہ مطالعہ نہیں کرتے اور اپنے ھزاروں پرانے اشعار کا حوالہ دیکر ، ناصح کو چپ کرانے کی کوشش کرتے ھیں۔
اب پنجابی یا سرائیکی یا بلوچ یا سندھی اردو شاعر کو کیا مصیبت پڑی ھے کہ میرؔ تقی کی متروک زبان میں شاعری کا چُھدؔا ھمارے سر پر لادے؟
عجب مسئلہ ھے کہ ایسے دوست شعرا یہ سمجھنے سے قاصر ھیں، کہ میاں ! یہ شاعری ،،،صرف وزن پورا کرنے والی بیکار کوشش ھے۔۔۔
نیا مضمون لاو۔۔۔موجود کے نئے مضامین باندھو۔۔۔۔پھر دیکھیں ۔۔گے۔۔۔۔
میرا ایسے دوستوں کو چیلینج ھے موجود کے مضامین موجود کی زبان میں باندھ کر دکھاو۔۔۔۔ جن دوستوں نے یہ سمجھا ھُوا کہ انہیں موسیقی کے چند راگ اور شاعری کی اصناف پر پورا عبور ھے۔۔۔اور اب انہیں باقی علوم کی کوئی ضرورت نہیں وُہ صرف کنویں کے مینڈک ھیں۔ اور اسے سمندر سمجھ رھے ھیں۔۔
میں دلیل سے یہ ثابت کر سکتا ھُوں کہ طب، فلسفہ، کیمیا، طبیعات، اور تاریخ کے کثیر مطالعے کے بغیر شاعری کھوکھلی سطحی اور بیکار ھوتی چلی جاتی ھے۔
جس کو ذرہ برابر اختلاف ھو وہ ابھی مجھ سے یہاں دلیل اور امثال کے ساتھ بحث کرسکتا ھے۔۔بغیر دلیل کے نہیں۔۔۔ کیونکہ وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
میرے ھمراہ کچھ لوگ جس عصری شعور سےبھری تنقید کی کمی کا رونا روتے ھیں، اُس سے ناواقفیت خود ھمارے لکھنے والوں میں پائی گئی ھے ۔قاری تووہ شاگرد ھوتا ھے جسکی تربیت لکھنے والا ھی کرتا ھے۔
میں نے جو غزل تنقید کے پیش کی تھی اور مکمل پرخچے اُڑانے کا چیلنج دیا تھا اُسئ بہت سے لکھاریوں نے پسند اور ناپسند کے عمومی نصابی تنقید و تنقیص کے پیمانے پر یا تو پسند کر لیا یا ناپسند کر دیا۔۔
یہ لمحہ فکریہ بنتا ھے کہ خود لکھاری جو شاعر ھے ادیب ھے صحافی ھے وہ بھی کیا کسی تخلیق کے نقائص کو دلیل و مثال سے ثابت نہیں کر سکتا؟۔۔یعنی کسی بھی تخلیق کا تنقید جائزہ جن بنیادی اصولوں کے گرد گھومنا چائیے ان میں سے کچھ نیچے درج ھیں
۔
نمبر 1۔۔۔۔فنی طور پر گرفت
نمبر 2،، ھیئت کی خوبی و خرابی
۔۔نمبر 3،،،،کرافٹ میں تجربہ،،، بیانیہ واضح یا مبہم
نمبر 4۔۔۔ جگالی زدہ مضامین۔۔۔کی موجود گی ، ناموجودگی۔۔۔
نمبر 5۔۔۔ اگر جگالی زدہ مضامین ھیں تو ،،ان میں جدت یا محض جگالی
نمبر 6۔۔رُوحِ عصر سے میل کھاتی کوئی بات کوئی اشارہ؟
نمبر 7۔۔۔ کوئی عام مشاھدہ۔۔نئے انداز سے۔۔کوئی سائینسی حقیقت؟
نمبر 8۔۔کوئی معاشرتی مسئلہ۔۔۔ اس پر اصرار و انکار۔؟
نمبر 9۔۔۔کوئی ریاستی ، یا بین الریاست اھم نکتہ۔۔۔
نمبر 10۔۔شعریت کی عمومی موجودگی
نمبر 11،،ترنم کی کمی یا زیادتی۔۔
نمبر 12۔۔کوئی نئی ترکیب۔۔۔یا پرانی ترکیب کی نئی سمت۔۔
نمبر 13۔۔کوئی جدید لفظ ۔۔؟ غیر کلاسیکی لفظ؟
نمبر 14۔۔ شاعر کی اپنی شعوری یا لاشعوری پہچان کراتی کوئی سمت ، انداز۔
نمبر 15۔۔شاعر و معاشرے کی کُل سائیکی کا عکس؟
نمبر 16۔۔لفظی مباشرتی بنت یا الفاظ کی ماھیت سے شاعری کی واقفیت اور برتاو
نمبر 17۔۔ زمین کا چناو،،، پہلے سے استعمال کردہ یا ۔۔پٹا یا نہ مِٹا ھونا۔۔
نمبر 18۔۔ مضامین کا پٹا یا نہ نیا پن۔۔
نمبر 19۔۔ مضموعی غزل کا میلان۔۔
نمبر 20۔۔۔۔مجموعی غزل کا آخری تاثر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ بنیادی نکات ھیں جن پر جدید تنقید قائم ھوتی ھے۔۔ شاعری ایک ھنرِ پیشکاری ھے۔۔ خارجی جمالیات اور داخلی محسوسات اور جاذبیت کتنی فطری ھے کتنی مصنوعی ھے۔۔یہ دیکھنا بہت اھم ھے۔۔ اس لئے تین تجرباتی اشعار بھی اُسی طرح درج کئے تھے۔۔ جیسے خبریہ انداز ھوتا ھے۔۔
دیکھنا تھا کہ شعریت اور سپاٹ خبر میں لوگ کیسے امتیاز کرتے ھیں۔
اگر چہ اُن اصحاب و خواتین کا شکریہ جنہوں نے محض ایک پیراگراف بغیر تفصیل میں جائے عمومی پسند و ناپسند کا اظہار کیا۔ لیکن ان سے امید و تقاضہ آئیندہ یہی رھے گا کہ ھر شعر پر گفتگو اس لئے کریں کہ ھر شعر اپنی جگہ ایک الگ اینٹیٹی ھوتا ھے۔۔
اور مجموعی پر اسلئے ضرور بات کریں کہ غزلِ مسلسل کو بھی ھم رواج دے رھے ھیں۔
باوجود منع کرنے کے۔۔ذاتی کمنٹس پھر آ موجود ھوئے۔۔۔جو حیران کن اور مایوس کُن بات ھے۔۔تاھم یہ بھی ھمین ھمارے قاری و لکھاری کی نفسیات سے واقف کرتا ھے۔
میری اپنے معیار کے مطابق غزل میں کوئی بہت بڑا شعر نہیں ھو سکا۔۔۔
دو تین اشعار،،شعریت لئے ھوئے ھیں۔ جو غزل کا عمومی مزاج ھے۔۔
مطلع کو کچھ لوگ سمجھے اور کچھ نہین سمجھے،،اسکی وجہ بھی میرا اپنا ارادہ تھا۔۔کیونکہ پاکستان کے ماحول پر مطلع کہتے ھوئے اخفا ھی درکار ھوتا ھے۔مرغانِ گرفتار۔۔۔۔اور ھم پرندے ۔۔کے عظیم فرق کو جو نہین سمجھے انہیں ایک سبق کے طور پر یاد رکھنا چاھئیے۔ جو مرغان گرفتار ھیں۔۔۔ انکے سوا جو گرفتار نہیں۔۔ انہیں۔۔۔صرف مرغان یا پرندے ھی کہا جانا کافی تھا۔۔۔اور ھم۔۔۔۔ ساتھ لگا کر ایک گروہ بنایا ھے جو فراری ھے۔۔ اشجار،،کی کمی والا شعر نہایت محنت سے کہا گیا تھا۔۔ جس تک سب نہین پہنچے جو سخت افسوسناک بات ھے۔ پاکستان سمیت دنیا میں درختوں کی کمی اور ھاوسنگ کے بڑھنے سے ماحول میں گرمی کا بڑھنا ایک نہایت اھم مسئلہ ھے۔۔۔اگر ھم نئے مضامین نہ لائیں تو ۔۔۔ غزل لکھنا چھوڑ دینا چاھئیے۔ قبروں والے ایہامیہ شعر کو سپاٹ دینے والے اس پر پھر غور کر سکتے ھین کیونکہ جنہوں نے اسکا درست مفہوم نکالا ھے وہ کیسے اس پر قادر ھوئے۔۔۔ اسی طرح مسجدوں اور ھسپتالوں میں جانے والون کو بیمار کہنا ناپسند کرنا، مذھبی بنیاد پرستی سے جڑا ھو سکتا ھے ادب سے نہین۔۔کیونکہ ۔۔غزل میں۔۔۔ تیرا بیمار۔۔۔۔ بیمارِ عشق،،عام رائج بات ھے۔۔ خیر تمام تبصرہ کنندگان کا شکریہ۔۔۔۔ تاھم۔۔۔جو نکات اوپر بیان کئے تھے انکے استعمال سے اگر اگلی غزل پر تنقید ھو تو بہت بہتری کی جانب ھم قدم اُٹھائیں گے۔
کچھ حروف علت کے بارے مین بھی پڑھ لیں
حروف علت اور تقطیع
حروفِ علت : ان سے مراد تین حروف ہیں ، واؤ ، الف ، یاء
انگریزی میں انہیں واولز کہا جاتا ہے ۔اردو میں یہ زبر ،پیش اور زیر کی حرکات کے قائم مقام ہیں۔
آئیے باری باری اب تینوں حروف کے احکام مختصراً پڑھتے ہیں
الف کا بیان:-
الف بطورِ پہلا حرف:-
ایک مصرع اگر ایسا ہو کہ اس میں کوئی ایسا لفظ جو مصرع کے آغاز میں نہ ہو تووہاں الف کا گرانا جائز ہے ۔اور ایسی صورت میں اسے الف موصولہ کہا جاتا ہے ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ مصرع کے آغاز میں آنے والی کوئی الف الف موصولہ نہیں ہو سکتی۔
مثلا:-
ہم اُس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
اس الف کو "س” کے ساتھ ملا کر یوں بھی پڑھ سکتے ہیں ، ہمُس کے —- الخ
اس گر جانے والے الف کو الف موصولہ کہتے ہیں ۔اور توجہ سے دیکھئے کہ یہ دوسرے لفظ کا پہلا حرف ہے
ہم نے اس سے پہلے یہ طے کیا ہے کہ الف اگر شروع کلمہ یا لفظ میں آئے بشرطیکہ وہ مصرع کا پہلا لفظ نہ ہو تو اسے گرایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ خود گر کر اپنی حرکت اپنے سے پہلے حرف کو منتقل کر دیتا ہے ۔جیسے کہ "ہم”کی ساکن میم کے ساتھ ہوا۔
لیکن یہاں ایک اور بات سمجھنے کی ہے ۔الف ضروری نہیں کہ لفظ کا پہلا حرف ہی ہو ۔یہ پہلا،درمیانی یا آخری کوئی حرف بھی ہو سکتا ہے ۔تو پھر کیا ہو گا؟؟
الف بطورِ درمیانی حرف:-
سب سے اہم بات اس سلسلے میں یاد رکھنے والی یہ ہے کہ اگرالف کسی لفظ کے درمیان یا وسط میں واقع ہو تو اسے ماسوائے چند الفاظ کے ہرگز ساقط نہیں کیا جا سکتا ۔کیونکہ ایسا کرنے سے اس لفظ کی شکل اس طرح بدل سکتی ہے کہ اس کے معنی ہی بدل جائیں ۔ذرا تصور کریں ۔اگر لفظِ "حال” کا وسطی الف گرا دیا جائے تو وہ لفظِ "حل” میں تبدیل ہو جائے گا اور شعر یا تو مہمل ہو جائے گایا اس کے معانی ہی بدل جائیں گے. اسی طرح لفظِ جان ، سال ، دال ، وغیرہ ہیں
صرف کچھ الفاظ ایسے ہیں جن میں وسطی الف کو ساقط کرنے سے ان کے معانی نہیں بدلتے اور وہ الفاظ مندرجہ ذیل ہیں۔
گناہ سے گنہ
سیاہ سے سیَہ
راہ سے رہ
تباہ سے تبہ
اور
سپاہ سے سپہ پڑھا اور لکھا بھی جاتا ہے
بہر حال کسی بھی لفظ کے درمیانی الف کو گرانے کے سلسلے میں بنیادی اصول یہ یاد رکھئےے کہ اگر اس الف کو گرانے سے لفظ کی ہیئت اس طرح بدلتی ہو کہ اس کے معنی بدل جائیں تو اس کی قطعا اجازت نہیں ۔مثلاًایک لفظ ہے "کاہ” جس کا مطلب گھاس کا تنکا ہوتا ہے۔اس کا الف گرا دیا جائے تو وہ لفظ”کہ” میں تبدیل ہوجائےگاجو وضاحت کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اس طرح کی صورتحال میں درمیانی الف کا گرانا ممنوع ہے۔
اوپر کچھ امثال درمیانی الف گرانے کی دی گئی ہیں ۔ان میں ایک بات نوٹ کیجئے کہ رہ،گنہ اور ان سے ملتے جلتے الفاظ میں جہاں الف گرایا گیا ہو ۔ہ مختفی کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔
الف بطور آخری حرف:-
اس مقام پر آپ کو یہ علم ہونا چاہئے کہ مصدر کیا ہوتا ہے اور فعل کسے کہتے ہیں۔تب ہی آپ اس الف کو گرانے یا نہ گرانے کے بارے میں سمجھ سکیں گے۔
مصدر:-
کسی لفظ کی اصل بنیاد کو کہتے ہیں ۔جس سے اس لفظ کے افعال اور دیگر صیغے مشتق ہوتے ہیں۔اردو میں اس کی پہچان یہ ہے کہ جس لفظ کے آخر میں ( نا) آئے وہ مصدر کہلاتا ہے ۔مثلا ً :-
کرنا ،ہونا ،جانا، وغیرہ
فعل:-
اس کلمے کو کہتے ہیں جس میں کسی کام کا ہونا ،کرنا یا سہنا بہ اعتبارِ وقت پایا جائے۔مثلاً :-
کیا ، کرتا ہے ، کرے گا، کرے ، وغیرہ
مصدر اور فعل کی تعریف جان لینے کے بعد اب آپ آخری الف کے بارے میں یہ سمجھ لیں کہ یہ گر تو سکتا ہے مگر اس کا گرانا ناگوار اور ممنوع سمجھا جاتا ہے ۔مگر جب آپ مشق کریں تو بے شک گرا لیں مگر ایسا کرنا جائز نہیں سمجھا جاتا – اسے ان امثال سے سمجھنے کی کوشش کریں۔
مصدر میں الف بطور آخری حرف کی مثالی یہ دیکھیں کہ :-
خاک بھی ہوتا تو خاکِ درِ جاناں ہوتا۔
اس مثال میں پہلا والا "ہوتا” مصدری لفظ ہے جس کے آخر کا الف گرایا گیا ہے اور جو اب پڑھنے میں اگلے حرف کے ساتھ مل کر "تتو” کی آواز دے کر ناگوار فضا پیدا کر رہا ہے۔یعنی : خاک بھی ہو تَ تو خاک در جاناں ہوتا۔ یعنیٰ ہوتتو — بن جاتا ہے
فعل میں الف بطور آخری حرف:-
مثلاً یہ جملہ دیکھیں :- "اس نےبھیجا ہے مرے خط کا جواب”
اس میں بھیجا کا لفظ فعل کو ظاہر کر رہا ہے ۔مگر جب بھیجا کا الف ساقط ہو گا تو اس کی آواز کچھ ایسے نکلے گی "اس نےبھیجَ ہےمرے خط کاجواب.
میرا خیال ہے کہ اب آپ اس بات کو سمجھ گئے ہوں گے کہ مصادر و افعال کا آخری حرف گرانا کیوں معیوب ہے ۔
حرفِ "واؤ” کا بیان:-
یہ حرف بنیادی طور پر پیش ُ کی حرکت کا قائم مقام ہے۔ چونکہ یہ ایک ایسا حرف ہے ۔جس کی کئی اقسام ہیں ۔اس لئے سب سے پہلے ہمیں یہ علم ہونا چاہئے کہ اس ایک حرف کی کئی اقسام کیوں ہیں ۔اگر ہم اس الجھن کا شکار ہو گئے کہ ایک حرف کی کئی اقسام کیسے ہو سکتی ہیں تو پھر ہم اس کے بارے میں ہماری سمجھ کسی ٹھکانے نہیں لگنے والی تو اقسام سے مراد یہ ہے کہ یہ حرف ہماری زبان کے جس لفظ میں استعمال ہو ۔وہاں اس کی آواز کسی دوسرے لفظ سے مختلف ہوتی ہے ۔کیونکہ ہماری زبان بہت سی زبانوں سے مل کر بنی ہے ۔اس لئے جس زبان سے بھی ایک لفظ حرفِ "واؤ” کے ساتھ اردو میں آیا ہے ۔وہ اُس زبان کے لہجے کے مطابق یا تو اپنی آواز ساتھ لایا ہے یا پھر مقامی سطح پر اس نے اپنی الگ آواز اختیار کر لی ہے۔ان آوازوں میں امتیاز کرنے کے لئے علماے اردو نے ان کے لئے پانچ اصطلاحیں وضع کی ہیں ۔عمومی دلچسپی کے لئے میں ان اصطلاحوں یا اقسام کے نام لکھ دیتا ہوں :-
1- واؤ معدولہ
2واؤ معروف
3۔واؤمجہول
4۔واؤ لین
5۔واؤ عاطفہ
6۔واؤ مخلوط
چھ اقسام کے یہ واؤبارہ طریقوں سےاستعمال میں آتے ہیں ۔لیکن آپ کو اس ابتدائی سطح پر اس جھمیلے میں پڑنے کی ضرورت نہیں- آپ فی الحال وہ سیکھئے جو میں سکھا رہا ہوں۔
1–اگر واؤسے کوئی لفظ شروع ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ واؤ نہیں گر سکتا ورنہ لفظ ہی غلط ہو جائے گا یا اس کے معنی بدل جائیں گے ۔مثلا اگر وقت کا واؤ ساقط کر دیا جائے تو کچھ نہیں بچے گا ۔اسی طرح لفظِ "وہم ” کو لیجئے ۔اگر و اؤساقط کر دیا جائے تو ہم بچے گا ۔جس کا وہم کے معنی سے کوئی تعلق نہیں ۔اس لئے یہ سمجھ لیجئے کہ جو لفظ حرفَ واؤ سے شروع ہو اس کا پہلا واؤکسی صورت نہیں گر سکتا
2–اسی طرح اگر حرفِ واؤ کسی لفظ کے وسط میں آئے تو اسے بھی ساقط نہیں کیا جا سکتا ۔مثلاً :
اگر قوم ، یوم ، بول کا درمیانی واؤ ساقط کر دیا جائے تو ان الفاظ کے معانی ہی بدل جائیں گے
3– کسی لفظ کے درمیان موجود صرف وہی و اؤتقطیع میں گرتا ہے جو لکھنے میں تو آئے مگر بولنے میں نہ آئے ۔جیسے لفظِ خوشبو میں ، یا لفظِ "اور” میں جبکہ یہ عطف کے لیے ہو
4– آخر کلمہ یا لفظ کے ہر واؤ کو ساقط کیا جاسکتا ہے۔یہ الگ بحث ہے کہ وہ کہاں معیوب ہے یا ناگوار ہے۔لیکن اصول یہی سامنے رہنا چاہئے کہ اسے گرایا جا سکتا ہے ۔علما نے فارسی الفاظ مثلا خوشبواورگفتگو جیسے الفاظ کو گرانے کی سخت ممانعت کی ہے ۔کیونکہ ایسا کرنے سے یا تو وہ بے معنی ہو جاتے ہیں یا ان کے معانی بدل جاتے ہیں۔مگر یہ ایک طویل بحث ہے ۔آُپ عروض میں مہارت حاصل کرنے تک اور اس سطح پر صرف یہ یاد رکھیں کہ آخری واؤ کو گرایا جا سکتا ہے ۔
5– اسی طرح اگر کسی لفظ میں جس میں و اؤنون غنہ سے پہلے ہو ۔ جو عام طور پر جمع الجمع کی شکل میں ہوتا ہے۔۔جیسے لوگوں –
عام طور پر اسے گرانا اچھا نہیں سمجھا جاتا کیونکہ پھر لوگوں کا لفظ لوگ میں بدل جائے گا ۔مگر لوگوں چونکہ جمع الجمع ہے اس لئے اسے گرانے پر کوئی پابندی نہیں۔
حرفِ "یاء” کا بیان:-
حروف علت میں آخری حرف "ی” ہے۔جس کے بارے میں یہ جان لیجئے کہ اس حرف کی اقسام کے لئے بھی علما نے اصطلاحات وضع کر رکھی ہین ۔جنہیں جاننا قطعی لازم نہیں مگر اُن کی آوازوں کو پہچاننا ضروری ہے۔بہر حال میں عمومی دلچسپی کے پیش نظر ان میں سے کچھ کے نام لکھ دیتا ہوں:-
1–یائے معروفی
2–یائے مجہول
3–یائےلین
4–یائے مخلوطی
5–یائے ہندی
حرفِ ی کے سلسلے میں ایک بہت اہم بات جان لیجئے کہ ایک مصرعے میں ی کو لمبی آواز دے کر یعنی پورےرکن کے طور پر بھی پڑھا جا سکتا ہے اورچھوٹی آواز سے بھی ۔یہ شعر یا مصرع کی بحر طے کرتی ہے کہ اسے کس طرح پڑھا جائے۔
اب آئیے اس کو گرانے کی طرف:-
1–یہ طے ہے کہ اگر کوئی لفظ ی سے شروع ہوگا تو اس کی ی نہیں گرائی جا سکتی۔
2–ہندی کے علاوہ دوسرے الفاظ کی درمیانی ی گرانے سے اگر اس لفظ کے معنی پر کوئی اثر نہ پڑتا ہو تو بلا کھٹکے گرائی جا سکتی ہے
3– ہندی اسماء کی درمیانی ی کو گرانا لازم نہیں مگر مستحسن ہے۔
4–افعال کی ی کو گراتے ہوئے بھی یہ دیکھنا چاہئے کہ کہیں وہ معنی پر اثر انداز تو نہیں ہو رہی۔
5–ہر لفظ کی آخری ی کو بلا خطر گرایا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ معانی کو متاثر نہ کرے۔
6– بے بمعنی بغیر خی ی گرانا درست نہیں اسی طرح حرف ندا جیسے "اے” کی ی کو گرانا ممنوع ہے۔
7۔مرکب افعال، جیسے، پی گیا ، سی لیا— ان کی بھی ی اجازت ہونے کے باوجود گرانے سے احتراز کرنا چاہئے۔
رفیع رضا